سیدنا امیرِ معاویہؓ صحابی رسول تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں قرآنِ شریف میں لکھا ہے: رُحَمَآءُ بَيۡنَہُمۡۖ الخ (سورة الفتح آیت 29) وہ آپس میں بہت رحم دل تھے سوال ہے کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ صحابی ہوکر پھر مسلمانوں سے کیوں لڑتے رہے ان کی جنگی مہمات مسلمانوں کی ہی آپس کی لڑائیاں تھیں بعض لوگ اس خیال سے سیدنا امیرِ معاویہؓ کے خلاف ہیں اس کی تشریح دعوت میں فرمائیں؟
سوال پوچھنے والے کا نام: نصر الله از میانوالیجواب:
یہ الزام واقعات کی روشنی میں بالکل غلط ہے کہ سیدنا امیر معاویہؓ مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کے موجب ہوئے حقیقت یہ ہے کہ آپ اس بات سے طبعاً متنفر تھے کہ مسلمان کی تلوار مسلمان کے مقابلہ میں بے نیام ہو آپ امیر المؤمنین سیدنا عثمانؓ کے نہایت قریبی رشتہ دار تھے اور جس طرح سیدنا عثمانؓ مسلمانوں کی باہمی خونریزی سے اس درجہ متنفر تھے کہ آپؓ نے شہادت قبول فرمالی مگر مدعیانِ اسلام کے مقابلہ میں تلوار اٹھانے کی اجازت نہ دی اسی طرح آپؓ کے یہ تاثرات سیدنا امیرِ معاویہؓ کی سیرت میں بھی پوری طرح جلوہ گر تھے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو مسلمانوں کے خلاف نبرد آزما ہونے سے حکمت ایزدی نے تکویناً روک رکھا تھا سیدنا ابو سفیانؓ عہدِ جاہلیت میں ایک عرصہ تک مسلمانوں کے مقابلہ میں برسر کمان رہے ان کی عمر کا بیشتر حصہ انہی مہم آرائیوں میں گزرا یہ امر بہت عجیب ہے کہ ان تمام معرکوں میں ان کے ساتھ ان کے بیٹے ( سیدنا امیرِ معاویہؓ) کہیں نظر نہیں آئے اور بدر سے لے کر جنگ احزاب تک کوئی شخص آپؓ کی نشاندہی نہیں کرتا کہ کبھی آپؓ بھی اپنے باپ کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف صف آراء ہوئے ہوں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے تکوینی طور پر آپؓ کو اس سے بچا رکھا تھا کہ آپؓ مسلمانوں کے مقابلہ میں چڑھائی کریں۔
2۔ سیدنا عثمانؓ کے خلاف عجمی بغاوت زوروں پر تھی اور آپؓ کے زیرِ کمان شامی افواج بہت مضبوط تھیں اس وقت بھی آپؓ نے از خود کوئی پیش قدمی نہ فرمائی بلکہ سیدنا عثمانؓ کے منشاء کا پوری طرح احترام کیا کہ ان کی حیاتِ طیبہ میں مسلمانوں کی باہمی خونریزی کسی صورت میں واقع نہ ہونے پائے پھر جنگِ جمل میں جب کہ سیدنا علیؓ نے اور سیدنا طلحہؓ سیدنا زبیرؓ کے درمیان چھڑ گئی تو باوجود یکہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کا ذہن سیدنا علیؓ کے متعلق صاف نہ تھا آپؓ نے ان کی مخالفت میں سیدنا طلحہؓ و سیدنا زبیرؓ کے ساتھ کوئی شرکت نہ کی ان تمام واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ آپؓ اس سے طبعاً متنفر تھے کہ مسلمان کی تلوار مسلمان سے ٹکرائے حافظ ابنِ تیمیہؒ رقمطراز ہیں:
لم يكن معاويةؓ ممن يختار الحرب ابتداء بل كان من اشد الناس حرصا على ان لا يكون بين المسلمين قتال۔
(منہاج السنہ صفحہ 219۔220)
ترجمہ: سیدنا امیرِ معاویہؓ جنگ کی ابتداء کرنے والے نہ تھے بلکہ آپؓ اس بات کے سب سے زیادہ خواہاں ہوتے تھے کہ مسلمانوں میں باہمی قتال ہرگز نہ ہو۔
جنگِ صفین میں بھی آپؓ نے سیدنا علیؓ کے خلاف پڑھائی نہیں کی بلکہ اس میں پہل سیدنا علیؓ کی طرف سے تھی اور جب عراقی افواج مقام و خلیتہ تک پہنچیں تو سیدنا امیرِ معاویہؓ کو مجبوراً دفاع کے لیے نکلنا پڑا ان کا موقف یہ تھا کہ جب تک امام مظلوم کے قاتل گرفتار نہ کرلیے جائیں وہ نئے خلیفہ کی بعیت نہیں کریں گے وہ خود مدعی خلافت ہرگز نہ تھے صرف اس امر کے منتظر تھے کہ امام مظلوم کا بے گناہ خون دادرسی پاسکے پھر اس جنگِ صفین میں بھی باوجود یکہ شامی افواج بہت قوی اور کثیر تھیں آپؓ نے کھلے ہوئے قرآنوں کا واسطہ دے کہ خونریزی کو بند کرایا اور معاملہ کو حل کرنے کے لیے فکر و تدبر اور نظر و استدلال کی راہ اختیار فرمائی۔
یہ گمان ہرگز نہ کیا جائے کہ آپؓ کا لڑائی سے طبعاً دور ہونا کسی کمزوری یا بزدلی کی وجہ سے تھا جس ذاتِ گرامی نے روم کی سیاہی قوت پر وہ کاری ضرب لگائی ہو کہ صدیوں کا تمدن اور سالہا سال کی قوت سب پامال کر کے رکھ دیئے ہوں اس کے بارے میں ایسا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
علامہ ابنِ کثیر "البدایہ و النہایہ" میں لکھتے ہیں کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ رومی ممالک پر سولہ (16) دفعہ حملہ آور ہوئے تھے بحری لڑائیوں میں سیدنا امیرِ معاویہؓ کی پیش قدمی تاریخِ اسلام کے وہ اَنمِٹ نقوش ہیں جنہیں مستقبل کی کوئی غلط بیانی نہیں دہو سکتی۔
واللہ اعلم بالصواب۔