Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

حضرت میں اہلسنت والجماعت سے ہوں اکثر بریلوی اورشیعہ ہم سے یہ سوالات پوچھتے ہے ہم کیا جواب دے آپ ترتیب وار اسکا جواب عنایت فرما دے۔ 

  1. اہلِ بیتؓ سے محبت کا عملی اظہار کیوں کم؟ اہلِ سنت والجماعت اہلِ بیتؓ سے محبت کا دعویٰ کرتی ہے، مگر مساجد، مدارس اور عام اجتماعات میں ان کا ذکر صحابہؓ کی طرح نمایاں نظر نہیں آتا۔ کیا یہ عملی کمزوری یا روایتی غفلت نہیں؟
  2. اہلِ بیتؓ کے نام پر ادارے کیوں نہیں؟ اگر حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور دیگر صحابہؓ کے نام پر ادارے قائم ہو سکتے ہیں تو حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ، امام حسنؓ و حسینؓ کے نام پر مدارس، مساجد اور مراکز کم کیوں ہیں؟
  3. اہلِ بیتؓ کے ایام پر تقریبات کیوں نہیں؟ صحابہ کرامؓ کے اہم تاریخی ایام پر اجتماعات منعقد ہوتے ہیں، مگر امام حسنؓ، امام حسینؓ، حضرت فاطمہؓ اور دیگر اہلِ بیتؓ کے ایام پر وہی جوش و جذبہ کیوں نظر نہیں آتا؟
  4. حضرت علیؓ کی خلافت پر گفتگو سے اجتناب کیوں؟ حضرت علیؓ خلفائے راشدینؓ میں شامل ہیں، مگر ان کی خلافت پر کھل کر بات کم کی جاتی ہے۔ کیا یہ علمی کوتاہی ہے یا کسی فکری رجحان کا نتیجہ؟ 
  5. اہلِ بیتؓ پر علمی کام اور تحقیق کم کیوں؟ اہلِ سنت کے علمی ذخیرے میں اہلِ بیتؓ کی محبت کے دلائل موجود ہیں، مگر آج تحقیقی کام، نصاب اور کتب میں ان کی سیرت و قربانیوں کو نمایاں کرنے میں کوتاہی کیوں ہے؟ 
  6. کیا اہلِ بیتؓ کی محبت صرف ایک مکتبِ فکر سے مخصوص ہو گئی؟ یہ تاثر کیوں پایا جاتا ہے کہ اہلِ بیتؓ کا ذکر اور محبت صرف شیعہ مسلک کی پہچان بن چکی ہے، جبکہ اہلِ سنت بھی ان سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں؟ 
  7. اہلِ بیتؓ کے دفاع میں کمزور موقف کیوں؟ جب اہلِ بیتؓ پر اعتراضات کیے جاتے ہیں تو اہلِ سنت کے علما ان کا ویسا مضبوط علمی دفاع کیوں نہیں کرتے، جیسا کہ وہ صحابہ کرامؓ کے معاملے میں کرتے ہیں؟ 
  8. کربلا اور امام حسینؓ کی قربانی پر خاموشی کیوں؟ اہلِ سنت کے مذہبی اجتماعات میں کربلا کے واقعے اور امام حسینؓ کی قربانی کو نمایاں کرنے سے اجتناب کیوں کیا جاتا ہے، جبکہ یہ تاریخِ اسلام کا اہم باب ہے؟
  9. حضرت علیؓ کے نام پر مساجد اور تنظیمیں کم کیوں؟ حضرت علیؓ جلیل القدر صحابی اور چوتھے خلیفہ راشدؓ ہیں، مگر ان کے نام سے مساجد، تنظیمیں اور اسلامی ادارے اتنی تعداد میں کیوں نہیں جتنے دیگر خلفا کے ہیں؟ 
  10. اہلِ بیتؓ کو امت کے اتحاد کا محور کیوں نہیں بنایا جاتا؟ اہلِ بیتؓ کی سیرت امت کے اتحاد کے لیے بہترین ماڈل ہے، مگر علماء امت کو جوڑنے کے لیے اہلِ بیت کے کردار کو نمایاں کرنے کے بجائے فرقہ وارانہ مسائل پر زیادہ زور کیوں دیتے ہیں؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   محمد عثمان

جواب

جواب عرض ہے کہ:

1) یہ سوال دراصل باطل پروپیگنڈے اور لا علمی کا نتیجہ ہے کہ اہل بیتؓ، صحابہؓ کے برعکس کوئی الگ جماعت ہے جبکہ واقعہ اور حقیقت حال یہ ہے کہ اہلِ بیتؓ مقامِ صحابیت میں جماعتِ صحابہؓ کا جزو لا ینفک یعنی لازمی حصہ ہیں۔ کیا آج تک کسی صاحبِ علم نے کہا کہ سیدنا علیؓ یا سیدنا حسنین کریمین صحابہؓ نہیں کیونکہ وہ اہلِ بیتؓ ہیں؟

پس جب کبھی عام الفاظ میں صحابہ کرامؓ کی منقبت فضائل اور مدح ہوتی ہے تو اس میں اہل بیت باقی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ بلکہ ان سے بھی پہلے شامل ہوتے ہیں،

ہاں البتہ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَكْفُرُ بِبَعْضٍۙ (سورۃ النساء:آیت 150) والا مزاج رکھنے والے دشمنانِ صحابہ کرامؓ کے دین میں چونکہ صورت حال یکسر مختلف ہے لہٰذا ان کے نزدیک مطلق صحابہ کرامؓ کی تعریف و منقبت میں اہلِ بیتؓ شامل نہیں۔ پس سوال میں خیال اسی فکر و نظر کے اثراتِ بد کا نتیجہ ہے ہم اہلِ اسلام جگہ جگہ دونوں طرف کی قدسی صفت جماعت کی تعریف و توصیف کرتے ہیں اور اس کے لیے وہ جامع اصطلاح استعمال کرتے ہیں جو آل و اصحاب رسولﷺ کے لیے یکساں استعمال ہوتی ہے۔

2) امر واقعہ یہ ہے کہ مدرسہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرح مدرسہ حسین ابنِ علی رضی اللہ عنہ جامعہ حیدریہ جامعہ فاطمة الزھرا رضی اللہ عنہا بھی اہلِ سنت والجماعت کے دینی ادارے ہیں البتہ کثرت سے صدیقِ اکبرؓ وغیرہ نام کے ادارے بنائے گئے ہیں جس کی وجہ دشمنانِ صحابہؓ کی بے لگام زبان درازی اور اعلانیہ تبراء کا سد باب کرنا ہے۔

ہر ذی شعور انسان جانتا ہے کہ جب دین کے کسی حصہ پر دشمنانِ دین حملہ آور ہو جائیں تو اس وقت دین کے اس حصہ پر پوری قوت سے پہرے داری نہایت ضروی ہوجاتی ہے چونکہ دشمنان صحابہ لپک لپک کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تقدس پر حملہ کر رہے ہیں اس لیے تقاضہ حال کے مطابق دشمنانِ صحابہؓ کی اس سازش کو ناکام کرنے کے لیے سیدنا صدیقؓ و سیدنا عمرؓ نام کی دھوم مچا دینی چاہیے۔

3) عرس و میلاد منانے کے تصورات اسلامی شریعت کی تعلیم نہیں۔ بلکہ شریعت امت مسلمہ کو کسی دینی نظریہ پر خرمن باطل کی طرف سے حملہ ہونے کی صورت میں یہ حکم صادر کرتی ہے کہ اس حملہ کو ناکام بنا دو۔

پس دشمنانِ صحابہؓ نے مجالس و اذان وغیرہ جیسے حربوں سے جو دین حق پر ضربیں لگانا جاری رکھی ہوئی ہیں ان کے سدِ باب کے لیے مختلف ناموں اور عنوانات سے تردید باطل کے سلسلے شروع کیے گئے۔چونکہ حملہ اور ٹولہ دشمنانِ صحابہؓ کا ہے اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام عنوان نمایاں ہوئے اگر ان جگہ خوارج ہوتے جو حیدرِ کرارؓ کی ذات عالی پر حملہ آور ہوتے تو یہاں حیدر کرار نام کی بھی ایسی ہی دھوم مچا دیتے جیسے انہوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ و سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نام کی دھوم مچائی ہوئی ہے۔

4) دلیل اس کو دی جاتی مباحثہ اس سے کیا جاتا ہے جو منکر اور جس کے منکر ہوں۔

خلافتِ صدیقؓ و فاروقؓ و عثمانؓ کے منکر تو ہر روزانہ تین وقتہ یہ انکار لوڈ اسپیکر پر نشر کرتے ہیں:

اشھد ان علیا ولی اللہ وصی رسول اللہ وخلیفتہ بلا فصل

کیا کسی اذان میں آج تک خلافت علیؓ کا انکار بھی نشر ہوا ہے؟

5) فصاحت کلام کی تعریف شامل ہے کہ جو کلام مقتضی حال کے مطابق ہو۔ اب حال کا کیا یہی تقاضا ہے کہ جن صحابہ کرامؓ پر نماز و عبادت کے عنوان دے کر تبراء ہو رہا ہو اور اذان کے عنوان سے جن کی خلافت کا انکار ہو رہا ہو اس کے لیے بھی تحقیق و دلائل کی بس ایک کتاب ہو اور جن سے محبت کے دعوے کر کے غلو کی ساری حدیں توڑ دی گئیں ہوں ان کی خلافت پر دلائل بھی ایک کتاب میں جمع کیے جائیں؟

اے عقل کو کم ہی کام میں لانے والے بھولے بندوں یہی تو اہلِ حق کا کمال ہے کہ جس ہستی کے جتنے دشمن تھے ان کے علاج کے لیے زور بھی اتنا ہی صرف کیا زیادہ دشمن، زیادہ تشہیر، زیادہ انکار، زیادہ اثباط، زیادہ تردید، زیادہ تائید

یعنی دین کے جس شعبے پر جس طرح کا حملہ ہوا اہلِ حق نے ٹھیک اسی پیمانے پر علاج بالمثل کیا مگر افسوس کہ غلامی کی زنجیر میں جکڑی امت ذہنی غلامی کا ایسا شکار ہوئی کہ اکابر کا کمال ہی ان کو عیب نظر آنے لگ گیا۔

6) جب کسی کو محبت اور غلو میں نظر نہ آئے تب وہ یہ سوال بھی کر سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے محبت کا تصور صرف عیسائیوں کے ساتھ خاص کیوں ہے، مسلمان بھی تو ان کو مانتے ہیں پھر یہ ان سے محبت میں عیسائیوں سے سبقت کیوں نہیں لے جاتے؟

قرآن پاک میں حضرت ادریس علیہ السلام کے ان پانچ قابل شاگردوں کا نام بھی آیا ہے جن کو بعد والوں نے اللہ کریم کے اوصاف سے متصف کردیا تھا سوال میں درج فکر و نظر کے مطابق تو:

وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَّلَا یَغُوْثَ وَ یَعُوْقَ وَنَسْرًا

( سورۃ نوح: آیت 23)

کہنے والے بھی ایسے حبدار عاشق اور محب تھے کہ ان سے محبت پر اکیلے انہی کی اجارہ داری تھی۔

مگر جہاں تک حقیقتِ حال کا تعلق ہے تو اللہ کریم کی محبت میں غلو سے کام لیتے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابنِ اللہ کہنے والوں کو اللہ تعالیٰ حبدار نہیں مشرک بتاتا ہے۔ اسی طرح دنیا کی اولین اختلاف کرنے والی پارٹی جس نے اللہ کے پانچ صالح بندوں سے محبت میں غلو کیا ان کو اللہ محب نہیں مشرک بتاتا ہے کیا کوئی حق سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ بھی کوئی اسی طرح کی محبت کریں تاکہ کسی غالی کی حیدر کرار سے محبت کی اجارہ داری ختم ہو جائے؟

ایں خیال است و محال است و جنوں

7) اہل بیتؓ پر اعتراض؟

پاکستان کے کسی ایک مدرسہ یا مسجد کا نام لکھیں جہاں اہلِ بیت پر اعتراض تراشے جاتے ہوں۔

8) کربلا کا لکھ کر سائل نے کمال کردیا۔ یہ تفصیل طلب وضاحت ہے جس کے لیے سائل کو منت سماجت کے ساتھ عرض کیا جاتا ہے کہ وہ کفار کا جاسوسی ونگ میدان کربلا میں ملاحظہ کریں۔

9) اوپر جواب عرض کیا چکا مکرر ملاحظہ کریں

10) اہلِ بیتؓ پر کل بھی اور آج بھی امت متحد و متفق ہے یعنی امتِ مسلمہ میں اہلِ بیتؓ وحدت و اتفاق کا ذریعہ ہیں۔ لیکن سوال کے زیر لب یوں محسوس ہو رہا ہے کہ یہاں اتحاد سے اتحاد بین الاسلام والمجوس چاہا جارہا ہے جو کہ محال ہے۔