السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
محترم ایڈمن صاحب دو سوال پوچھنے ہیں
1: ایک مولوی صاحب سے میں نے پوچھا آپ نے فلاں شیعہ کا جنازہ کیوں پڑھایا؟
انہوں نے جواب دیا کہ میں نے سنیوں والا جنازہ پڑھایا ہے شیعوں والا نہیں پڑھایا ۔۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا درست ہے اور اس سے نکاح اور ایمان کی تجدید بھی کرنی ہوگی یا نہیں ؟؟؟
2: ایک اور بندے نے ایک شیعہ کی میت کو غسل دیا تو میرے سوال پہ اس نے کہا کہ میت کو غسل دینا ثواب کا کام ہے ۔۔ میں نے ثواب کی غرض سے غسل دیا ہے ۔۔
سوال یہ ہے کہ کیا کسی کافر کو غسل دینا بھی ثواب کا کام ہے؟؟
براہ مہربانی مجھے ان دونوں سوالوں کے تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں ۔۔ شکریہ جزاک اللہ ۔۔
خواجہ حق نواز فاروقی بہاولپور
سوال پوچھنے والے کا نام: خواجہ حق نواز فاروقی بہاولپورجواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
خواجہ صاحب کا سوال نہایت اہم ہے اس لیے بندہ جواب عرض گزار ہے کہ سورۃ بقرہ کے شروع ہی میں اللہ تعالیٰ نے جنس انسانیت کے آخرت میں کامیابی یا نا کامی کے اعتبار سے تین دین بیان فرمائے ہیں
- دین اسلام جس کا بیان سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 3 سے آیت نمبر 5 تک ہوا ہے۔ جن میں اللہ تعالیٰ نے ان کو: يُؤْمِنُوْنَ، وَيُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ ، يُنْفِقُوْنَ ، يُوْقِنُوْنَ جیسے اوصاف وعلامات سے متعارف کروا کر هُدًى منۡ رَّبِهِمۡ اور مُفۡلِحُوۡنَ کے تمغے عنایت فرمائے۔
- دین کفر یعنی يُؤْمِنُوْنَ، وَيُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ ،يُنْفِقُوْنَ، يُوْقِنُوْنَ جیسے اوصاف اختیار کرنے سے انکار و کفر کرنا
- دین نفاق: یعنی اپنی زبان سے خود کو مؤمنین کہنے والے وَمَا هُمۡ بِمُؤۡمِنِيۡنَۘ( سورۃ البقرہ:آیت 8)اللہ تعالیٰ نے ان کو پہچاننے کی ایک نشانی اور علامت تو یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مؤمن تو ہیں مگر صحابہ کرامؓ کی طرح مؤمن نہیں وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو سفہاء مؤمن ہیں۔
وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ اٰمِنُوۡا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوۡاۤ اَنُؤۡمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ ؕ
(سورۃ البقرہ:آیت 13)
ترجمہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اور لوگوں (یعنی صحابہؓ) کی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو جواب دیتے ہیں کہ ہم ایسا ایمان لائیں جیسے بیوقوف لائے ہیں؟
قرآن کریم کی بیان فرمائی ہوئی اس علامت کو سامنے رکھ کر ادیانِ عالم کا مطالعہ فرما لیجئے پوری دھرتی پر آپ کو ایک کے سواء کوئی دوسرا دین نہیں ملے گا جس میں یہ دو دعوے یکجا طور پر مل جائیں
- یہ کہ ہم مؤمن ہیں۔
- یہ کہ ہم صحابہؓ کی طرح مؤمن نہیں۔
پس یہ علامت دشمنانِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو پہچاننے میں خاصہ کا درجہ حاصل کر گئی کہ:یوجد فیہم ولا یوجد فی غیرھم
اس دین کو پہچاننے کی دوسری نشانی اور علامت اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تبراء کرتے ہیں،
اِنَّمَا نَحۡنُ مُسۡتَهۡزِءُوۡنَ
( سورۃ البقرہ: آیت 14)
ترجمہ: ہم تو صرف ان سے مذاق کرتے ہیں۔
یہ علامت بھی دشمنانِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو پہچاننے کے لیے خاصہ کے درجے پر فائز ہے کہ پوری دھرتی پر ایک اور صرف ایک دین ہی ایسا پایا جاتا ہے کہ جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا استہزاء کرنا نہ صرف جائز سمجھتا ہے بلکہ یہ فعل ان کے نزدیک کار ثواب ہے۔
اس دین کو پہچاننے کی تیسری نشانی اور علامت اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ تقیہ کرتے ہیں۔
وَّلَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌۙۢ بِمَا كَانُوۡا يَكۡذِبُوۡنَ
(سورۃ البقرہ: آیت 10)
ترجمہ: اور ان کے جھوٹ کی وجہ سے ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
اس مقام پر قابلِ غور امر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی سزا عَذَابٌ اَلِيۡمٌۙۢ اور سبب جھوٹ بیان فرمایا کیا جھوٹ کفر یا کفر سے بھی بڑا جرم ہے؟ ہرگز نہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ یہاں جھوٹ سے مطلق جھوٹ مراد ہی نہیں خاص قسم کا ایسا جھوٹ مراد ہے جو کفر سے بھی سخت درجہ کا سنگین جرم ہے چنانچہ عالمِ دنیا پر اس درجہ کا سنگین جھوٹ صرف اور صرف اس گروہ میں مل سکتا ہے جو تقیہ کو اپنا دین اور ایمان بتاتا ہے اس دین میں تقیہ کی اصل خالص جھوٹ ہے کافی وغیرہ میں ہے۔
عن ابى بصير عن ابى عبدالله :التقية من دين الله ، قلت:من دين الله ؟ قال: إي والله من دين الله ، ولقد قال: يوسف( ايتها العير انكم لسارقون ) والله ما كانوا سرقوا شيئا،ولقد قال: ابراهيم ( اني سقيم) والله ما كان سقيما۔
(کافی باب القیہ)
روایت کا حاصل یہ ہے کہ سیدنا جعفر صادقؒ نے ابو بصیر کو بتایا کہ تقیہ اللہ کا دین ہے۔
تو ابو بصیر نے تعجب کرتے ہوۓ پوچھا کہ کیا تقیہ اللہ کا دین ہے؟
تو امام نے کہا ہاں اللہ کی قسم تقیہ اللہ کا دین ہے۔ پھر اگے انہوں نے دلیل پیش کی کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے قافلے والوں کو چور کہا حالانکہ اللہ کی قسم وہ چور نہ تھے۔
اسی طرح کی دلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بھی پیش کی کہ انہوں نے خود کو بیمار کہا حالانکہ وہ بیمار نہیں تھے۔
اب ملاحظہ فرمائیں کہ قافلے والے چور نہ تھے مگر ان کو چور کہا تو جو چور نہ تھے ان کو چور کہنا خلاف واقعہ خبر ہے اور خلاف واقعہ خبر کو ہی جھوٹ کہتے ہیں۔ اسی طرح کی صورتحال دوسری دلیل میں بھی پائی جاتی ہے پس معلوم ہوا کہ تقیہ کی اصل جھوٹ ہے۔
اب جب کہ یہ بات واضح ہو گئی کہ تقیہ جھوٹ ہی کا نام ہے تو یہ بھی ملاحظہ فرما لیجئے کہ تقیہ نام کا جھوٹ کفر جیسے کئی کفریات اور جرائم کا مجموعہ ہے ۔مثلاً
- اسلامی شریعت میں جھوٹ بولنا حرام ہے اس حرام فعل کو اللہ کا دین کہنا کفر ہے۔ اور زیر بحث گروہ اس فعل حرام کو اللہ کا دین بتاتا ہے جیساکہ اوپر درج روایت میں التقیة من دین اللہ کے جملے سے معلوم ہو گیا۔
- تقیہ نام کے جھوٹ بولنے پر ثواب کا عقیدہ رکھنا ۔ظاہر بات ہے کہ جھوٹ بولنا نہ صرف گناہ بلکہ حرام کام ہے اور اس فعل پر ثواب ملنے کا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔جبکہ زیر بحث گروہ اس قسم کے جھوٹ پر ثواب ملنے کا عقیدہ رکھتا ہے بحار الانوار اور تفسیر حسن عسکری میں یہ روایت موجود ہے جس کا خلاصہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کو دھوکہ دینے کا گر سکھایا اور دوسرے شخص نے اس گر کو خوب سے خوب تر استعمال کیا جب وہ مسلمانوں کو دھوکہ دے چکے تو انہوں نے اس بارے میں امام حسن عسکری سے پوچھا کہ اب ہمیں اس پر کیا ملے گا؟ تو انہوں نے جواب میں کہا ملخص
لقد كتب الله لصاحبك بتقيته بعدد كل من استعمل التقية من شيعتنا وموالينا ومحبينا حسنة،
(بحار الانوار جلد 68 صفحہ 14)
حاصل ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے اس ساتھی کے لیے اس تقیہ کے بدلے میں اتنی نیکیاں لکھ دی ہیں جتنی نیکیاں آج تک تقیہ کرنے والے ہمارے شیعوں اور ہمارے موالی اور ہمارے ساتھ محبت رکھنے والوں کے تقیہ میں بولے ہوئے الفاظ پر عطا کی ہیں۔
3) ترک تقیہ پر وعید اور اس پر سزا ملنے کا عقیدہ رکھنا۔چنانچہ مذکورہ دین یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ جو شخص اپنے دین کو نہیں چھپائے گا اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل و رسواء کر دے گا۔
بصائر الدرجات میں روایت ہے کہ:
قال أبو عبد الله عليه السلام يا سليمان انكم على امر من كتمه اعزه الله ومن اذاعه اذله الله
(مختصر بصائر الدرجات جلد 1 صفحہ 107)
یعنی امام جعفر صادق نے سلیمان کو کہا کہ اے سلیمان تم ایک ایسے امر پر یعنی ایک ایسے دین پر ہو کہ جو اس کو چھپائے گا اللہ اس کو عزت دے گا اور جو شخص اس کو ظاہر کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل کرے گا۔
پس عالم مذاہب میں ایک ہی ایسا دین پایا جاتا ہے جس میں تقیہ کے نام پر جھوٹ بولنا ثواب کا کام ہے اور تقیہ کے نام پر بولا جانے والا جھوٹ کم از کم کفر جیسے تین جرائم کا مجموعہ ہے۔اس جھوٹ کو یکذبون کی جگہ سمجھا جائے تو شرعیت کا کوئی قاعدہ بھی متاثر نہیں ہوتا اور اس کے سوا کوئی جھوٹ بھی ایسا نہیں جو اس جگہ فٹ کرنے کے لیے ڈھونڈا جا سکے۔اس لیے کہ اس مقام پر صرف وہی جھوٹ فٹ آسکتا ہے جو کفر یا کفر سے بھی بڑا جرم ہو۔
پس اس طرح کا جھوٹ ہم جہاں بھی ڈھونڈیں گے وہ یہودیوں میں یا نصاریٰ میں یا کسی اور کافر طبقہ میں ملے گا مگر اللہ تعالیٰ نے تو یہاں پر کسی کافر کے جھوٹ کا ذکر ہی نہیں کیا بلکہ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا کا صریح بیان لا کر اس بات کو واضح کر دیا گیا ہے کہ یہاں کسی کافر کا جھوٹ فٹ نہیں آسکتا بلکہ کسی ایسے گروہ کا جھوٹ لا کر فٹ کیا جانا ضروری ہے جو اپنی زبان سے خود کو مؤمن بھی کہتا ہو اور وہ جھوٹ بھی اس قسم کا بولتا ہو کہ جس جھوٹ کے اوپر عذاب الیم کی سزا فٹ آسکے۔
اب جبکہ خاصہ کا درجہ رکھنے والی ان علامات اور نشانیوں کے ذریعے سے ایک اور صرف ایک ہی گروہ کا تقیہ سے بے نقاب چہرہ سامنے آگیا کہ یہ وہ دین ثالث جو باقاعدہ منظم اور مرتب ہے اور زمانے میں آج بھی موجود ہیں اور اپنی انہی علامات اور نشانیوں کے ساتھ موجود ہے جو قرآن پاک نے قیامت تک کے لیے بیان فرما دی ہیں تو یہ مسٸلہ حل کرنا مشکل نہ رہا کہ اپنی زبان سے خود مؤمنین کہنے والے جن لوگوں کے لیے اللہ کریم کا فتویٰ یہ ہے کہ
وَمَاهُمْ بِمُؤْمِنِينَ
(سورۃ البقرہ: آیت 8)
وَلَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ
(سورۃ النساء: آیت 38)
وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوبُهُمْ
(سورۃ المائدہ: آیت41)
وَلَوۡ كَانُوۡا يُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالنَّبِىِّ وَمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡهِ مَا اتَّخَذُوۡهُمۡ اَوۡلِيَآءَ
(سورۃ المائدہ: آیت 81)
وَمَاهُمْ مِنْكُمْ
(سورۃ:آیت58)
وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ
(ایضا:8)
وَمَاأُولَئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ
(سورۃ النور: آیت 47)
أُولَئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا
(سورۃ الاحزاب:آیت 19)
قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا
(سورۃ الحجرات: آیت14)
مَاهُمْ مِنْكُمْ۔
( سورۃ مجادلہ: آیت 14)
اللہ تعالیٰ کے ان فتاویٰ جات میں ان کے مؤمن ہونے کی نفی ہے مگر ان کے کافر ہونے کی تصریح نہیں اس لیے ممکن ہے کہ کسی کا وہم اس طرف چل نکلے کہ ان کو کافر نہیں کہا گیا پس اب اللہ تعالیٰ کے وہ فتاویٰ جات بھی ملاحظہ فرمالیں جن میں اس گروہ کے لیے کفروا کی تصریح وارد ہوئی ہے:
وَقَدْ دَّخَلُوۡا بِالۡكُفۡرِ وَهُمۡ قَدۡ خَرَجُوۡا بِهٖؕ
(سورۃ المائدہ: آیت61)
وَاكۡفُرُوۡۤا اٰخِرَهٗ لَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُوۡنَۚ وَلَا تُؤْمِنُوا إِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِينَكُم
(سورۃ آل عمران:آیت 72،73)
كَيۡفَ يَهۡدِى اللّٰهُ قَوۡمًا كَفَرُوۡا بَعۡدَ اِيۡمَانِهِمۡ وَشَهِدُوۡۤا اَنَّ الرَّسُوۡلَ حَقٌّ وَّجَآءَهُمُ الۡبَيِّنٰتُؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ
(سورۃ آل عمران:آیت 86)
اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بَعۡدَ اِيۡمَانِهِمۡ ثُمَّ ازۡدَادُوۡا كُفۡرًا لَّنۡ تُقۡبَلَ تَوۡبَتُهُمۡۚ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الضَّآ لُّوۡنَ
(سورۃ آل عمران: آیت 90)
هُمۡ لِلۡكُفۡرِ يَوۡمَئِذٍ اَقۡرَبُ مِنۡهُمۡ لِلۡاِيۡمَانِۚ
سورۃ آل عمران: آیت167)
وَلَا يَحۡزُنۡكَ الَّذِيۡنَ يُسَارِعُوۡنَ فِى الۡكُفۡرِۚ اِنَّهُمۡ لَنۡ يَّضُرُّوا اللّٰهَ شَيۡــئًا ؕ يُرِيۡدُ اللّٰهُ اَلَّا يَجۡعَلَ لَهُمۡ حَظًّا فِىۡ الۡاٰخِرَةِ ۚ وَلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ
(سورۃ آل عمران:آیت 176)
اِنَّ الَّذِيۡنَ اشۡتَرَوُا الۡكُفۡرَ بِالۡاِيۡمَانِ لَنۡ يَّضُرُّوا اللّٰهَ شَيۡــئًا ۚ وَلَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ
(سورۃ آل عمران: آیت 177)
اِنَّ الَّذِيۡنَ يَكۡفُرُوۡنَ بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ يُّفَرِّقُوۡا بَيۡنَ اللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيَقُوۡلُوۡنَ نُؤۡمِنُ بِبَعۡضٍ وَّنَكۡفُرُ بِبَعۡضٍۙ وَّيُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ يَّتَّخِذُوۡا بَيۡنَ ذٰ لِكَ سَبِيۡلًا۞ اُولٰٓئِكَ هُمُ الۡـكٰفِرُوۡنَ حَقًّا ۚ وَ اَعۡتَدۡنَا لِلۡكٰفِرِيۡنَ عَذَابًا مُّهِيۡنًا
( سورۃالنساء: آیت 150،151)
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ
( سورۃ المائدہ: آیت 41)
وَمَا مَنَعَهُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقٰتُهُمْ اِلَّاۤ اَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ بِرَسُوْلِهٖ وَ لَا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَ هُمْ كُسَالٰى وَ لَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَهُمْ كٰرِهُوْنَ
(سورۃ التوبہ:آیت 54)
لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْؕ
(سورۃ التوبہ: آیت 66)
یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوْاؕ وَ لَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ
(ایضا:74)
اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْؕ-اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّةً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ
(ایضا:80)
وَلَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖؕ اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ
(ایضا:84)
اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ كُفْرًا وَّ نِفَاقًا
(ایضا:97)
وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ كُفْرًا
(سورۃ التوبہ: آیت 107)
اِنَّ اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ
(سورۃ محمد: آیت 32)
ذٰلِكَ بِاَنَّـهُـمْ اٰمَنُـوْا ثُـمَّ كَفَرُوْا فَطُبِــعَ عَلٰى قُلُوْبِـهِـمْ فَهُـمْ لَا يَفْقَهُوْنَ
(سورۃ المنافقون: آیت 3)
یہ تو تھے وہ فتاویٰ جات! جو مذکورہ گروہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمائے ہیں اب ذرا یہ بھی دیکھیے کہ وہ جس جس اسلامی عقیدے کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم یہ اسلامی عقیدہ رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوے کی بھی شدت کے ساتھ تردید فرما دی ہے ملاحظہ فرمائیں:
عقیدہ توحید:
1)وہ اللہ کو نہیں مانتے۔اِنَّـهُـمْ كَفَرُوْا بِاللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ (سورۃ التوبہ: آیت 84)
اَنَّـهُـمْ كَفَرُوْا بِاللّـٰهِ
(سورۃ التوبہ: آیت 54)
وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ
(سورۃ الفتح: آیت 13)
2) وہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینے کی جسارت کرتے ہیں:
يُخَادِعُوْنَ اللّـٰهَ وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَهُـمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ
(سورۃ البقرہ: آیت 9)
اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ
(سورۃ النساء: آیت 142)
3) وہ اللہ تعالیٰ کو ایذا دینے کی جسارت کرتے ہیں:
اِنَّ الَّـذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ لَعَنَهُـمُ اللّـٰهُ فِى الـدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَـهُـمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا
( سورۃ الاحزاب: آیت 57)
4) وہ اللہ تعالیٰ سے استہزاء کرتے ہیں:
وَلَئِنْ سَاَلْتَـهُـمْ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ اَبِاللّـٰهِ وَاٰيَاتِهٖ وَرَسُوْلِـهٖ كُنْتُـمْ تَسْتَـهْزِئُـوْنَ
(سورۃ التوبہ: آیت 65)
5)وہ اللہ کے نام کی توہین کرتے ہیں:
وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يُّعۡجِبُكَ قَوۡلُهٗ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَيُشۡهِدُ اللّٰهَ عَلٰى مَا فِىۡ قَلۡبِهٖۙ وَهُوَ اَلَدُّ الۡخِصَامِ۔۔۔۔وَاِذَا قِيۡلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتۡهُ الۡعِزَّةُ بِالۡاِثۡمِ فَحَسۡبُهٗ جَهَنَّمُؕ وَلَبِئۡسَ الۡمِهَادُ۞
(سورۃ البقرہ: آیت 204۔206)
6۔وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں نا انصافی کا گمان رکھتے ہیں:
اَمْ یَخَافُوْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ رَسُوْلُهٗؕ-بَلْ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
(سورۃ النور:آیت 50 )
7) وہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو دھوکہ قرار دیتے ہیں:ب
مَّا وَعَدَنَا اللّـٰهُ وَرَسُوْلُـهٝٓ اِلَّا غُرُوْرًا
(سورۃ الاحزاب: آیت 12)
8) وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والے راستے پر چلتے اوراللہ کریم کی رضا مندی کو نا پسند جانتے ہیں:
ذٰلِكَ بِاَنَّـهُـمُ اتَّبَعُوْا مَآ اَسْخَطَ اللّـٰهَ وَكَرِهُوْا رِضْوَانَهٝ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَـهُمْ
( سورۃمحمد:آیت 28)
9) وہ اللہ تعالیٰ سے ناحق اور برا گمان رکھتے ہیں:
الظَّـآنِّيْنَ بِاللّـٰهِ ظَنَّ السَّوْءِ ۚ
(سورۃ الفتح: آیت 6)
يَظُنُّوْنَ بِاللّـٰهِ غَيْـرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ
(سورۃ آل عمران: آیت 154)
1)اللہ تعالیٰ سے کفر کرنے کے ساتھ رسولﷺ کا بھی کفرکرتے ہیں:
وَمَا مَنَعَهُـمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْـهُـمْ نَفَقَاتُـهُـمْ اِلَّآ اَنَّـهُـمْ كَفَرُوْا بِاللّـٰهِ وَبِرَسُوْلِـهٖ
(سورۃ التوبہ: آیت 54)
اِنَّـهُـمْ كَفَرُوْا بِاللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ وَمَاتُوْا وَهُـمْ فَاسِقُوْنَ
(سورۃ التوبہ: آیت 84)
2) رسولﷺ کا استہزاء کرتے ہیں:
وَلَئِنْ سَاَلْتَـهُـمْ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ اَبِاللّـٰهِ وَاٰيَاتِهٖ وَرَسُوْلِـهٖ كُنْتُـمْ تَسْتَـهْزِئُـوْنَ (سورۃ التوبہ:آیت 65)
3) وہ موذی رسولﷺ ہیں طرح طرح سے رسول اللہ ﷺکو اذیت دیتے رہتے ہیں:
وَمِنْـهُـمُ الَّـذِيْنَ يُؤْذُوْنَ النَّبِىَّ وَيَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌ ۚ
(سورۃالتوبہ: آیت 61)
اِنَّ الَّـذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ
(سورۃ الاحزاب: آیت 57)
وَلَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِۚ
( سورۃ آل عمران: آیت176)
4) زیر تقیہ نبی کریمﷺ پر تبراء کرتے ہیں:
وَ يَقُوۡلُوۡنَ سَمِعۡنَا وَعَصَيۡنَا وَاسۡمَعۡ غَيۡرَ مُسۡمَعٍ وَّرَاعِنَا لَـيًّۢا بِاَ لۡسِنَتِهِمۡ وَطَعۡنًا فِىۡ الدِّيۡنِ ؕ
( سورۃ النساء: آیت 46)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا (سورۃ البقرہ: آیت 104)
وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّلۡمِزُكَ فِى الصَّدَقٰتِ ۚ فَاِنۡ اُعۡطُوۡا مِنۡهَا رَضُوۡا وَاِنۡ لَّمۡ يُعۡطَوۡا مِنۡهَاۤ اِذَا هُمۡ يَسۡخَطُوۡنَ
(سورۃ التوبہ: آیت 58)
5) وہ نبی کریمﷺ کے بارے میں نا انصافی کا گمان رکھتے ہیں:
اَمْ یَخَافُوْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ رَسُوْلُهٗؕ- (سورۃالنور: آیت 50)
وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّلۡمِزُكَ فِى الصَّدَقٰتِ (سورۃالتوبہ: آیت 58)
6) وہ نبی کریم ﷺ کے لیے برائی کا گمان رکھتے ہیں:
بَلۡ ظَنَـنۡـتُمۡ اَنۡ لَّنۡ يَّـنۡقَلِبَ الرَّسُوۡلُ وَالۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِلٰٓى اَهۡلِيۡهِمۡ اَبَدًا وَّزُيِّنَ ذٰ لِكَ فِىۡ قُلُوۡبِكُمۡ وَظَنَنۡتُمۡ ظَنَّ السَّوۡءِ ۖۚ وَكُنۡـتُمۡ قَوۡمًا ۢ بُوۡرًا
(سورۃ الفتح: آیت12)
7)وہ فرمان رسولﷺ کو اپنی خواہشِ نفس کا تابع بنانا چاہتے ہیں۔
یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ هٰذَا فَخُذُوْهُ وَ اِنْ لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوْاؕ۔(سورۃالمائدہ: آیت41)
8) وہ رسولﷺ پر نازل ہونے والی وحی سے منحرف رہتے ہیں۔
وَاِذَا قِيْلَ لَـهُـمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ رَاَيْتَ الْمُنَافِقِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًا
(سورۃ النساء: آیت61)
9) وہ رسولﷺ کی مخالفت کرتے ہیں:
وَشَآقُّوا الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَاتَبَيَّنَ لَـهُـمُ الْـهُـدٰى
(سورۃ محمد: آیت 32)
10)پروپیگنڈے کے ایسے ماہر کہ رسولﷺ بھی انکی اس عادت سے بے حد پریشان تھے:
تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِیْهِ وَ تَخْشَى النَّاسَۚ (سورۃ الاحزاب:آیت 32)
آخرت کے بارے میں انکا عقیدہ:
ان کا زبانی دعویٰ تو یہی ہے کہ وہ آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے۔
وَالَّـذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَـهُـمْ رِئَـآءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُـوْنَ بِاللّـٰهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۗ
(سورۃ النساء:آیت 38)
اِنَّمَا يَسْتَاْذِنُكَ الَّـذِيْنَ لَا يُؤْمِنُـوْنَ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ
( سورۃ التوبہ: آیت 45)
اٰمَنَّا بِاللّـٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا هُـمْ بِمُؤْمِنِيْنَ (سورۃ البقرہ: آیت 8)
قرآن کریم کے بارے میں انکا عقیدہ:
1)اپنی زبان سے تو قرآن کریم کو ماننے کے دعویدار ہیں مگر اللہ کریم یہ بتاتے ہیں کہ وہ قرآن کا کفر کرتے ہیں:
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِى الْكِتَابِ اَنْ اِذَا سَـمِعْتُـمْ اٰيَاتِ اللّـٰهِ يُكْـفَرُ بِـهَا وَيُسْتَـهْزَاُ بِـهَا
(سورۃالنساء: آیت 140)
2) وہ قرآن کریم میں تحریف کے در پے ہیں:
يَسْـمَعُوْنَ كَلَامَ اللّـٰهِ ثُـمَّ يُحَرِّفُوْنَهٝ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَهُـمْ يَعْلَمُوْنَ
( سورۃ البقرہ: آیت 75)
يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّـبَدِّلُوْا كَلَامَ اللّـٰهِ ۚ
(سورۃ الفتح: آیت 15)
يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ
(سورۃ المائدہ: آیت 13)
يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ ۖ
(سورۃالمائدہ: آیت 41)
3)وہ قرآن کریم کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں:
يَحۡذَرُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ اَنۡ تُنَزَّلَ عَلَيۡهِمۡ سُوۡرَةٌ تُنَبِّئُهُمۡ بِمَا فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ ؕ قُلِ اسۡتَهۡزِءُوۡا ۚ اِنَّ اللّٰهَ مُخۡرِجٌ مَّا تَحۡذَرُوۡنَ۞
وَلَئِنۡ سَاَلۡتَهُمۡ لَيَـقُوۡلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوۡضُ وَنَلۡعَبُؕ قُلۡ اَبِاللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ وَرَسُوۡلِهٖ كُنۡتُمۡ تَسۡتَهۡزِءُوۡنَ
(سورۃ التوبہ: آیت 64،65)
اَنْ اِذَا سَـمِعْتُـمْ اٰيَاتِ اللّـٰهِ يُكْـفَرُ بِـهَا وَيُسْتَـهْزَاُ بِـهَا
(سورۃالنساء: آیت 140)
4) قرآن کا نازل ہونا ان کو برداشت نہیں ہوتا:
ذٰلِكَ بِاَنَّـهُـمْ قَالُوْا لِلَّـذِيْنَ كَرِهُوْا مَا نَزَّلَ اللّـٰهُ (سورۃ محمد: آیت 26)
5) وہ قرآن کر یم میں غور نہیں کرتے:
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰى قُلُوْبٍ اَقْفَالُـهَا
(سورۃ محمد: آیت 24)
6) وہ وحی الٰہی کو خواہش کے تابع بنانا چاہتے ہیں:
يَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِيْتُـمْ هٰذَا فَخُذُوْهُ وَاِنْ لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوْا
(سورۃ المائدہ: آیت 41)
7) وہ وحی کا حکم ماننے پر امادہ نہیں ہوتے:
وَاِذَا قِيْلَ لَـهُـمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ رَاَيْتَ الْمُنَافِقِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًا
(سورۃالنساء: آیت61)
عقیدہ کے باب میں وہ جھوٹ بولتے ہیں:
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا ۖ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُـوْا وَلٰكِنْ قُـوْلُـوٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِىْ قُلُوْبِكُمْ
(سورۃ الحجرات: آیت 14)
وَاِذَا لَقُوا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا قَالُوْآ اٰمَنَّا وَاِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيَاطِيْنِـهِـمْ قَالُوْآ اِنَّا مَعَكُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُوْنَ
(سورۃ البقرہ: آیت 14)
وَاِذَا لَـقُوۡا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡآ اٰمَنَّا ۖۚ وَاِذَا خَلَا بَعۡضُهُمۡ اِلٰى بَعۡضٍ قَالُوۡآ اَ تُحَدِّثُوۡنَهُمۡ بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ عَلَيۡكُمۡ لِيُحَآجُّوۡكُمۡ بِهٖ عِنۡدَ رَبِّكُمۡؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ
(سورۃ البقرہ:آیت 76)
اللہ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ اور عَلَّامُ الْغُیُوْب نے خود ان کو جھوٹا قرار دیا:
وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّـهُـمْ عَلٰى شَىْءٍ ۚ اَلَآ اِنَّـهُـمْ هُـمُ الْكَاذِبُوْنَ (سورۃ مجادلہ: آیت 18)
وَاللّـٰهُ يَعْلَمُ اِنَّـهُـمْ لَكَاذِبُوْنَ
(سورۃ التوبہ: آیت 42)
اللہ کریم نے بتایا کہ یہ اپنا اصل عقیدہ صرف خلوت میں اپنے شیطانوں کو ہی بتاتے ہیں:
وَاِذَا لَقُوۡا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡاۤ اٰمَنَّا ۖۚ وَاِذَا خَلَوۡا اِلٰى شَيٰطِيۡنِهِمۡۙ قَالُوۡاۤ اِنَّا مَعَكُمۡۙ اِنَّمَا نَحۡنُ مُسۡتَهۡزِءُوۡنَ
( سورۃ البقرہ:آیت 14)
وَاِذَا خَلَا بَعۡضُهُمۡ اِلٰى بَعۡضٍ قَالُوۡآ اَ تُحَدِّثُوۡنَهُمۡ بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ عَلَيۡكُمۡ لِيُحَآجُّوۡكُمۡ بِهٖ عِنۡدَ رَبِّكُمۡؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ
(سورۃ البقرہ: آیت 75)
اپنے جھوٹ کے جرم کو وہ کچھ اس ادا سے پیش کرتے تھے کہ وہ مطلق جھوٹ(جو کہ گناہ کبیرہ ہے)کے دائرہ سے نکل کر ایسا سخت ترین جرم بن گیا کہ کفر سے بھی بہت آگے نکل کر عذاب الیم کے پیمانہ پر پہنچ گیا:
وَّلَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌۙۢ بِمَا كَانُوۡا يَكۡذِبُوۡنَ
(سورۃالبقرہ: آیت 10)
اب جب کہ صورت مسئولہ اور حقیقت حال بالکل واضح ہو گئی تو جنازہ کے بارے میں ان مولانا صاحب سے پوچھنا چاہیے کہ کیا کسی کافر کا سنیوں والا جنازہ پڑھ دینا جائز ہے؟
ایسا جنازہ پڑھانے سے جنازہ پڑھانے والے کا ایمان سلامت رہ جائے گا؟
ممکن ہے کہ کہنے والا یہ کہہ گزرے کہ آپ نے اوپر جو مسئلہ بیان کیا ہے وہ تو ان کے ایمان کے باب میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ فتویٰ دیا
وَمَاهُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ( سورۃ البقرہ: آیت 8)اور قَدْ دَّخَلُوْا بِالْكُفْرِ وَ هُمْ قَدْ خَرَجُوْا بِهٖؕ (سورۃ المائدہ:آیت61) مگر ان آیات میں ان کا جنازہ پڑھنے کا کوئی مسئلہ تو بیان نہیں ہوا تو لیجیے یہ ہے سورۃ التوبہ اور یہ اس کی آیت نمبر 84:
وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓى اَحَدٍ مِّنۡهُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمۡ عَلٰى قَبۡرِهٖ ؕ
(سورۃ التوبہ:آیت 84)
ترجمہ: اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔
اس آیت مبارکہ میں اسی گروہ کے جنازے کا تذکرہ ہو رہا ہے جو اپنی زبان سے خود کو مؤمن کہتا ہے مگر اللہ کریم ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ نہ وہ مؤمن ہیں اور نہ ہی ان کا جنازہ پڑھنے کی اجازت ہے۔
اب ان مولانا صاحب سے پوچھنا چاہیے کہ کیا یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب رسولﷺ کو جس جنازہ پڑھنے سے روکا ہے وہ سنیوں والا تھا یا کسی اور مذ