Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

وہ تمام رسوم جو ایک مسلمان معصوم بچے (عمر کا تعین فرمائیں کہ کس عمر تک بچہ معصوم کہلاتا ہے) اور معصومیت کی حد سے تجاوز کردہ مسلمان کی وفات پر شرعی طور پر ضروری ہیں بالتفصیل اور قرآن و سنت کے حوالوں سے عامتہ الناس کی آگاہی کے لئے بیان فرما کہ عند الاحقر مشکور اور عند الله ماجور ہوں۔ 

جناب چودھری الله دتہ صاحب ایم اے نے اپنے مقام "عورت کا مقام اسلامی اور غیر اسلامی معاشرہ میں" میں تحریر فرمایا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ الزہراؓ کی شادی پر نہایت سادے جہیز کا معیار قائم کیا اس کے برعکس میں نے اکثر علماء کی تحریروں میں پڑھا ہے کہ جو چند ضرورت کی اشیاء حضورﷺ نے اپنی بیٹی کو شادی کے وقت دیں وہ قطعاً جہیز نہ تھا بلکہ چونکہ سیدنا علیؓ کا کوئی الگ مکان نہ تھا اس لئے شادی پر انہیں الگ مکان کی ضروریات کے لئے انہی کے خرچ سے چند اشیاء خرید کر مرحمت فرمائی تھیں مطلب یہ ہے کہ اسلام میں سِرے سے جہیز کا (خواہ وہ سادہ ہو یا پر تکلف) کوئی وجود نہیں براہِ نوازش اس کی وضاحت فرمائیں؟۔      

سوال پوچھنے والے کا نام:   احقر اختر واصفی

جواب:1 بچے کی وفات کے متعلق شرعی آداب کیا ہیں؟ اس سلسلہ میں سب سے پہلے بچے کی عمر سامنے آتی ہے امام اعظمؒ کے نزدیک بچے میں اگر زندگی کی علامت پائی گئی (خواہ اس نے ایام حمل پورے کئے بھی نہ ہوں اور عام طور پر حمل کے چوتھے مہینے میں زندگی کے آثار محسوس ہونے لگتے ہیں) تو اسے غسل دینا کفن پہنانا اور اس کی نماز جنازہ پڑھنا سب ضروری ہیں حافظ ابو عبدالله محمد بن محمد بن محمد المنجلی الحنبلی نے اسے ہی جمہور کا مسلک قرار دیا ہے فرماتے ہیں:

وجمهور العلماء على انه يصلى على الطفل الصغير وان كان سقطا قد نفخ فيه الروح۔ (تسلیتہ اہل المصائب صفحہ 112 طبع قاہرہ)۔

جو مسلمان بچہ دارالحرب سے مسلمانوں کے ہاتھ لگے اور اسی حالت میں اس کی وفات ہوئی ہو تو حضرت امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک اس کا اسلام معتبر نہیں۔

 جو بچہ زندگی کی علامت کے بغیر مردہ ہی پایا گیا ہے اس کے لئے غسل اور کفن کے احکام تو ہیں لیکن جنازہ نہیں بعض علماء کے نزدیک بچے کی نماز جنازہ ضروری نہیں ابنِ ماجہ میں ہے:

صلوا على اطفالكم فانهم من افراطكم۔ (عن ابی هريرةؓ عن النبیﷺ‎)۔

فوت شدہ خواہ بچہ ہو خواہ بڑا ہر مسلمان کی وفات پر نوحہ و ماتم سے بچنا نہایت ضروری ہے کیونکہ یہ سب عہدِ جاہلیت کے رواج تھے جن کی سنتِ اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ حضورﷺ‎ کے بیٹے سیدنا ابراہیمؓ فوت ہوئے تو ایک روایت میں آتا ہے صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کہتے ہیں: 

:نہانا عن الصیاح: حضورﷺ نے ہمیں ماتم سے منع فرمایا اسی طرح حضورﷺ نے اپنے بیٹے سیدنا طاہرؓ کی وفات پر سیدہ خدیجہؓ کو آہ و بکا سے منع فرمایا تھا (فروع کافی) بچے کی وفات پر اس کی وراثت بھی (اگر وہ کچھ اموال کا شرعاً مالک تھا) اسی طرح قابلِ تقسیم ہے جس طرح کہ بڑے کی وفات پر ابنِ ماجہ سیدنا جابرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: 

اذا استهل الصبی صلی عليه و ورث (اوكما قال عليه السلام)۔

 بچے کی نمازجناز میں کچھ زائد الفاظ بھی موجود ہیں اگر کوئی مسلمان فوت ہو جائے تو دوسرے مسلمانوں کو چاہیئے کہ اس کے پسماندگان کے لئے کھانے کا انتظام کریں کیونکہ اہلِ بیت انتہائے غم میں یہ اہتمام خود نہیں کر سکتے ہیں۔ جب سیدنا جعفر طیارؓ کی شہادت کی خبر پہنچی تو حضورﷺ نے فرمایا:

اصنعو الال جعفرؓ طعاماً فقد اتاھم یشغلھم۔    

(رواہ ابو داؤد والترمذی و ابنِ ماجہ)۔

ترجمہ: سیدنا جعفرؓ کے گھر والوں کے لئے کھانا تیار کرو وہ خود مصروف ہیں اور اپنے کھانے کا انتظام نہیں کر سکتے۔

 آنحضرتﷺ نے اپنی بیٹی سیدہ فاطمة الزہراؓ کو جو چیزیں رخصتی کے وقت مہیا کیں وه اگرچہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کی مالیت سے تھیں اور اسی لئے تھیں کہ ان کی زندگی کی ضروریات ایک گھر کی شکل میں تیار ہو جائیں لیکن اس پر جہیز کے الفاظ پھر بھی آسکتے ہیں جہیز اور جہاز کے معنیٰ سامان تیاری کے ہی ہیں اس لفظ کی اس رسم سے کوئی تخصیص نہیں جو ہندو تمدن میں پائی جاتی تھی محمد ہاشم الخراسانی نے منتخب التواریخ دوسرے باب کے امر پنجم میں اس یہ عنوان قائم کیا ہے "در جہازیہ فاطمة الزھراؓ" بحار الانوار میں شیخ طوسی کے امالی سے منقول ہے سیدنا جعفر صادقؒ سیدنا علی المرتضیٰؓ سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے زرہ فروخت کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اس کی قیمت لے آؤ (یہ ذره تقریباً چار سو درہم میں فروخت ہوئی تھی اور یہ سیدہ فاطمہؓ کا حق مہر تھا جو سیدنا علی المرتضیٰؓ نے ادا فرمایا تھا) سیدنا علیؓ نے اسے بیچ کر قیمت حضورﷺ کی خدمت میں پیش کردی حضورﷺ نے اس کا ایک تہائی سیدنا بلالؓ کو دیا اور فرمایا کہ سیدہ فاطمہؓ کے لئے خوشبو خرید کر لاؤ اور تہائی اپنے رفیقِ غار سیدنا ابوبکر صدیقؓ کر دیا کہ سیدہ فاطمہؓ کے لیے کپڑے اور گھر کی باقی ضروریات خرید لائیں،سیدنا عمار بن یاسرؓ بھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ بھیجے گئے جو سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی ہدایات کے مطابق خرید کرتے تھے بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے حضورﷺ کے حکم سے پہلے ہی سیدہ فاطمہؓ کے مہر کے لئے زرہ پیش کردی تھی۔

(دیکھئے الاستیاب صفحہ 771)

 سیدنا عکرمہؓ کی روایت کے مطابق سیدہ فاطمہؓ کا جہیز یہ تھا۔

  1.  ایک نقشی تخت۔ 
  2. ایک چمڑے کا تکیہ (اس میں کھجور کی چھال تھی۔ 
  3. ایک پیالہ۔
  4.  ایک مشکیزہ بعض حضرات نے دو چکیاں اور دو گھڑے بھی ذکر کیے ہیں۔  

(دیکھئے طبقات ابنِ سعد صفحہ 14 تا صفحہ 16)۔

جہیز کی اس تفصیل سے ہندو تمدن کے اس طریقے کی تائید نہیں ملتی جس کی رو سے جہیز باپ کے گھر سے ضروری اور لازمی سمجھا جاتا ہے اسلام میں ایسے جہیز کا کوئی ثبوت نہیں ملتا اس ضمن میں سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی اس فضیلت کا پتہ چلتا ہے کہ سیدہ فاطمة الزہراؓ کا جہیز انہوں نے خریدا اور جو کچھ خریدا گیا سب سیدنا ابوبکرؓ کی صوابدید پر ہی موقوف تھا سیدنا بلالؓ سیدنا سلمانؓ اور سیدنا عمارؓ سب سیدنا ابوبکرؓ کے خدام میں سے تھے وہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ازبس ضروری ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ جب اپنی زرہ بیچنے گئے تو انہوں نے اسے سیدنا عثمان بن عفانؓ کے ہاتھ بیچا تھا سیدنا عثمانؓ نے جب ذرہ لے لی اور درہم سیدنا علیؓ نے پکڑ لیے تو سیدنا عثمانؓ نے پھر وہ زرہ بھی سیدنا علی المرتضیٰؓ کو ہی تحفہ میں دے دی اور فرمایا:

 يا ابا الحسنؓ ألست اولىٰ بالدرع منك وانت اولىٰ بالدراهم منى۔

ترجمہ: اے سیدنا علیؓ میں اس زرہ کا تجھ سے زیادہ حقدار نہیں اور تو ان دراہم کا مجھ سے زیادہ مستحق ہے۔ 

سیدنا علی المرتضیٰؓ نے یہ سارا ماجرا حضورﷺ کی خدمت میں عرض کیا۔

 فاخبرته ما كان من امر عثمانؓ فدعا لہ بخير۔

(بحار الانوار جلد 10 صفحہ 40)۔

الحاصل حضور اکرمﷺ نے سیدنا عثمانؓ کے لئے دعا فرمائی۔

 سبحان اللہ! سیدنا عثمانؓ کی عجیب شان تھی کہ سیدہ فاطمة الزھراؓ کا حق مہر ان کے مال سے ادا ہوا اور سیدہ فاطمہؓ کا جہیز اور اثاثتہ البیت بھی سب اسی پاکیزہ مال سے خریدا گیا۔ 

واللہ اعلم بحقیقتہ الحال۔