Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

اگر کوئی شخص سرکارِ مدینہﷺ کی تشریف آوری کے بعد درج ذیل عقائد میں سے کسی ایک عقیدے کا معتقد ہو تو وہ اہلِ کتاب میں داخل ہوگا یا نہیں؟ اور اس کے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا جانور ہمارے لیے حلال ہے یا نہ؟ اس مسئلے کی پوری وضاحت فرمائیں۔

1۔ حضور پیغمبر عربیﷺ کے بعد اور نبی بھی پیدا ہو سکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ نبی صاحبِ کتاب ہو قرآنِ پاک بے شک سچی اور حق کتاب ہے مگر اب یہ منسوخ ہے اور اس کے احکام اب باقی نہیں۔ 

2۔ حضور پیغمبر عربیﷺ کے بعد ایسا نبی پیدا ہوسکتا ہے جو حضورﷺ کی شریعت کے تابع ہو کر رہے حضورﷺ پر ختمِ نبوت ہونے کا یہ معنیٰ ہے کہ حضورﷺ کے مرتبے کا کوئی پیدا نہ ہوگا۔ 

3۔ حضور پیغمبر عربیﷺ کے بعد کوئی نیا نبی پیدا نہیں ہو سکتا لیکن اس کا معنیٰ صرف یہ ہے کہ آپ کے بعد نبی کا نام یا نبی کا لفظ کسی نئے آنے والے کے لیے نہیں نبوت کی شرائط اور صفات جیسے معصوم ہونا مامور من اللہ مفترض الطاعہ ہونا حلال و حرام میں لسان فصیل ہونا یہ سب امور خاتم النبیین کے بعد بھی باقی اور جاری ہیں ختمِ نبوت صرف لفظ نبوت کے لیے روک ہے صفاتِ نبوت بہر صورت باقی ہیں اور ان کے حامل ائمہ کرام اور اولو الامر حضرات ہیں۔

4۔ حضور پیغمبر عربیﷺ کے بعد کوئی نیا نبی پیدا نہیں ہوگا البتہ پہلے پیغمبروں میں سے اگر کوئی زندہ ہو اور وہ آپ کے عہدِ مبارک میں دوبارہ آجائے تو اس کی آمد عقیدہ ختمِ نبوت کے خلاف نہ ہوگی۔ 

سوال پوچھنے والے کا نام:   نذیر احمد مدرس مدرسہ عربیہ خیر العلوم کمالیہ

جواب: سوال مذکور الصدر کی پہلی تینوں صورتوں کا حکم ایک ہے اور یہ تینوں طبقے ختمِ نبوت کے اسلامی معنوں کے منکر ہیں ختمِ نبوت کا عقیدہ ضروریاتِ دین میں سے ہے اور ضروریاتِ دین میں تاویل قطعاً معتبر نہیں مندرجہ بالا تینوں صورتوں میں صرف تاویل اور تعبیر کا اختلاف ہے حقیقت میں ختمِ نبوت کے اسلامی معنوں کے تینوں نہایت واضح طور پر خلاف ہیں پہلی صورت کے قائل ختم زمانی کے منکر ہیں ظاہر ہے کہ عقیدہ نبوت کے لیے صرف ختمِ نبوت مرتبی کا اقرار کافی نہیں ختمِ نبوت زمانی کا اقرار بھی لازمی ہے اور وہ اس عقیدے کا اساسی جزو ہے یہ ٹھیک ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد اگر کوئی نیا نبی پیدا ہو اور وہ حضورﷺ کے ماتحت ہو کر رہے تو ختمِ نبوت مرتبی کے عقیدے پر براہِ راست زد نہیں پڑتی لیکن ختمِ نبوت زمانی کے انکار سے عقیدہ ختمِ نبوت پوری طرح زخمی ہو جاتا ہے ختمِ نبوت کے اسلامی اعتقاد کا تقاضا ہے کہ ختمِ نبوت مرتبی ختمِ نبوت زمانی اور ختمِ نبوت مکانی کے ہر مفہوم کو حضرت ختمی مرتبتﷺ پر ختم مانا جائے۔ بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:

اپنا دین و ایمان ہے بعد رسول اللہﷺ کسی اور نبی کے ہونے کا احتمال نہیں جو اس میں تأمل کرے اس کو کافر سمجھتا ہوں۔

(جوابات مخدورات صفحہ103)۔

تیسری صورت کے منکر عنوان ختمِ نبوت کے منکر نہیں لیکن حقیقت ختمِ نبوت کے صریحاً منکر ہیں عقیدہ ختمِ نبوت کوئی لفظوں کا کھیل نہیں کہ لفظ نبی کی روک تو تسلیم کر لی جائے اور نبوت کے حقیقت اور معنویت امامت کے نام سے جاری رکھی جائے۔

حجۃ الہند حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ شرح مؤطا میں لکھتے ہیں:

او قال النبیﷺ خاتم النبوة ولٰكن معنیٰ هذا الكلام انه لا يجوز ان يسمٰى بعده احد بالنبیﷺ واما معنی النبوة وهو كون الانسان مبعوثا من الله تعالىٰ الى الخلق المفترض الطاعة معصوماً من الذنوب ومن البقاء على الخطاء فيما يرىٰ فهو موجود فی الائمة بعده فذٰلك الزنديق وقداتفق جماهير المتاخرين من الحنفية والشافعية على قتل من يجری هذا المجری۔

(المسوىٰ عربی شرح المؤطا: جلد دوم صفحہ130)۔

حضرت شاہ صاحبؒ کے اس فیصلے کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ آنحضرتﷺ کے بعد کچھ ایسے افراد بھی اس امت میں پیدا ہوں گے جو مامور من اللہ اور معصوم ہوں تو ایسا اعتقاد رکھنے والا عقیدہ ختمِ نبوت کا قطعاً قائل نہیں خواہ زبان سے ہزار دفعہ حضورﷺ کو خاتم النبیین کہتا رہے۔ 

چوتھی صورت کے قائل اگر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی بعثت کے بعد اگر کوئی پرانا نبی اس زمین پر دوبارہ آجائے تو خواہ اس کی اپنی پرانی شریعت شریعتِ محمدیہ سے مختلف ہی تھی لیکن اب وہ اس پر عمل پیرا نہیں ہوگا بلکہ حضور اکرمﷺ کے تابع ہو کر رہے گا تو بے شک ایسا عقیدہ رکھنے والا ختمِ نبوت کے اسلامی معنوں کا پورا قائل ہے اور عقیدہ ختمِ نبوت سے خارج نہیں لیکن اگر کوئی شخص کسی پرانے نبی کی آمد کا اس صورت میں قائل ہو کہ وہ حضورﷺ کے تابع شریعت نہ رہے گا تو یہ صورت بھی عقیدہ ختمِ نبوت کے صریح طور پر خلاف ہے محدث شہیر حضرت مولانا علامہ سید انور شاہ بخاری صاحبؒ اپنی فارسی کتاب خاتم النبیین میں اس اعتقاد کو بھی لوازمِ ختمِ نبوت قرار دیتے ہیں کہ پرانا آنے والا نبی بھی ضروری ہے کہ حضورﷺ کے تابع شریعت ہو کر رہے اس کے بغیر ختمِ نبوت زمانی کا اقرار تو ہو جاتا ہے لیکن ختمِ نبوت مرتبی کا اقرار قائم نہیں رہتا اور مفہوم ختمِ نبوت کا تقاضا ہے کہ نبوت ہر اعتبار سے حضورﷺ‎ کی ذاتِ اقدس پر ختم مانی جائے۔ 

پہلی تینوں صورتوں کے قائل قطعی طور پر اسلام کے عقیدہ ختمِ نبوت کے منکر ہیں اور ہرگز ہرگز اہلِ کتاب میں شامل نہیں قرآن پر عنوانی اعتقاد رکھتے ہوئے زندقہ و الحاد کی راہ چلنا اہلِ کتاب کے حکم میں آنے کا موقع ہرگز نہیں دیتا کتابی وہی ہیں جو قرآن سے پہلے کی کسی ایسی کتاب پر ایمان رکھتا ہو جو اب منسوخ ہو چکی ہے علامہ ابو البقاءؒ کتابی ہونے کی یہ تعریف بیان کرتے ہیں:

الكافران كان متدينا ببعض الاديان والكتب المنسوخة فهو الكتابى۔

(كليات صفحہ553)۔

ترجمہ: کافر اگر پہلے کے کسی آسمانی دین اور پہلے کی کسی آسمانی کتاب کا قائل ہو تو وہ کتابی ہے۔ 

قرآن عزیز آخری اور دائمی کتاب ہے جو ہرگز منسوخ نہیں جس شخص کا اعتقاد اس پر صحیح ہوگا وہ مومن اور مسلم قرار پائے گا اور جو شخص اس کے اساسی معنوں میں غلط راہ چلے گا وہ زندیق اور ملحد سمجھا جائے گا کتابی اسے کسی صورت میں بھی نہیں سمجھا جا سکتا کتابی صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ کسی منسوخ کتاب پر ایمان رکھتا ہو اور اس کے مصداق اس وقت صرف یہود اور نصاریٰ ہی ہیں علامہ شامیؒ لکھتے ہیں: 

الكتابی من يعتقد ديناً سمادياً اي منزلا بكتاب كاليهود والنصارىٰ۔

(شامی جلد 3 صفحہ 270)۔

پس وہ زنادقہ و ملحدین جو کتابی تعریف میں نہیں آتے ان کا ذبح کیا ہوا جانور مسلمانوں کے لیے کھانا ہرگز جائز نہیں ہے۔

اہلِ کتاب کا ذبیحہ صرف اسی صورت میں جائز ہے کہ وہ اصالتاً اہلِ کتاب ہوں ارتداداً نہ ہوں اگر کوئی مسلمان عیسائی ہو جائے تو اب اس کا ذبح کیا ہوا جانور ذبیحہ کتابی نہیں ہوگا بلکہ ذبیحہ مرتد ہوگا کتابی وہ اسی صورت میں تھا کہ پہلے مسلمان نہ ہو جو پہلے مسلمان ہو اور بعد ازاں کسی اور دین میں منتقل ہو جائے تو خواہ وہ نیا دین دینِ مسیحی اور یہودی دین ہی کیوں نہ ہو وہ شخص بہر صورت مرتد سمجھا جائے گا۔

 علامہ ابو البقاءؒ فرماتے ہیں

الكافران طرأ كفره بعد الايمان فهو المرتد۔ 

(کلیات ابی البقاء صفحہ 553)۔

اور حضرت علامہ ابنِ عابدین شامیؒ لکھتے ہیں: 

الراجع عن دين الاسلام وركنها الجراء بكلمة الكفر على اللسان بعد الايمان۔

(شامی جلد 3 صفحہ 391)۔

پس مرتد ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ سارے اسلام کا ہی انکار ہو کسی ایک ایسے امر کا انکار جس کا اسلام کی تعلیم ہونا قطعی اور یقینی طور پر معلوم ہو جیسا کہ عقیدہ ختمِ نبوت قطعی اور یقینی درجہ رکھتا ہے تو اس کی اسلامی مفہوم کا انکار بھی انسان کو دائرہ اسلام سے یقیناً دور کر دیتا ہے ایمانِ شرعی کے لیے تو ضروری ہے کہ تمام قطعی تعلیماتِ اسلام کا اقرار ہو لیکن کفر اور ارتداد کے لیے جمع کی قید نہیں موجبہ کلیہ کی نقیض سالبہ جزئیہ آتی ہے اور کسی ایک قطعی عقیدہ اسلام کا انکار بھی انسان کو اسی طرح ارتداد کے جال میں لے آتا ہے جس طرح کے پورے اسلام کا انکار ارتداد تھا۔ 

حاصل یہ ہے کہ سوال مذکورہ کی پہلی تینوں صورتیں عقیدہ ختمِ نبوت کا قطعی انکار ہے پس ان میں سے کوئی بھی کتابی کی تعریف کے تحت نہیں آتا اور نہ ہی ان میں سے کسی ایک کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے حلال ہے۔

علامہ شامیؒ فرماتے ہیں:

والشرط يكون الذبح مسلماً حلالاً لا خارج الحرم ان كان صيداً فصيد الحرم لا تحله الزكوٰة فی الحرم مطلقاً او كتابياً ذمياً او حربياً الا اذا سمع منه عند الذبح ذكر المسيح۔

ترجمہ: اور ذبح کے لیے شرط ہے کہ وہ مسلمان ہو احرام میں نہ ہو حدودِ حرم سے باہر ہو حرم کے اندر شکار کو ذبح کرنا اسے حلال نہیں کر سکتا کتابی ذمی ہو یا حربی اس کا ذبیحہ بھی جائز ہے مگر جب کہ وہ ذبح کے وقت مسیح کا نام لے۔

لا تحل ذبيحة غير كتابی من دثنی ومجوسی ومرتد۔ 

(درمختار سبحاشیہ رد المحتار جلد 5 صفحہ 259)۔

مرتد ہونے کو علامہ شامیؒ نے عدمِ حلت کی علت قرار دیا ہے قنیہ کی اس عبارت پر لأنه صار كمرتد لکھتے ہیں: "علة لعدم الحل" والله اعلم بالصواب وعلمه اتم واحكم في كل باب. 

خالد محمود عفا اللہ عنہ 27 دسمبر 63ء۔

نوٹ: سیدنا علیؓ سے متعلق استفسارات مختلف اوقات میں موصول ہوتے رہے چونکہ حضرت کی ذاتِ اقدس کے متعلق خصوصی نمبر نکالنے کا کافی دنوں سے ارادہ تھا اس لیے یہ سب سوالات دفتر میں جمع ہوتے رہے ان میں سے اکثر سوالوں کے جواب اس خاص نمبر میں ہدیہ قارین ہیں۔ 

انور منیجر ہفت روزہ دعوت لاہور۔