حضور سرورﷺ نے مروان کو (اس کی سازشوں کے باعث مدینہ سے نکال دیا تھا پھر اسے سیدنا عثمانؓ نے واپس آنے کی اجازت دے دی تھی مگر اس نے پھر سازشیں شروع کر دیں یہاں تک کہ جنگِ جمل میں گرفتار ہوگیا اور سیدنا علیؓ کے ہاتھ لگ گیا سوال یہ ہے کہ ایسے مفید کو سیدنا علیؓ نے کیوں چھوڑ دیا حضور آں سرورﷺ جسے مدینہ سے باہر نکالیں سیدنا علی المرتضیٰؓ اس پر اتنے مہربان کیوں ہوئے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: سائل قاضی مسعود الحسن کلور کوٹجواب: یہ غلط ہے کہ مروان کو حضور اکرمﷺ نے مدینہ سے سزا کے طور پر نکالا تھا مروان کی تو عمر ہی آنحضرتﷺ کی وفات شریفہ کے وقت بمشکل ایک سال کی تھی بلکہ بعض کہتے ہیں کہ وہ پیدا ہی حضور اکرمﷺ کے بعد ہوا۔
پس مروان کے حضور اکرمﷺ کے سامنے کسی سازش کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا چہ جائیکہ وہ سزا کے طور پر مدینہ سے نکالا گیا ہو۔
یہ مروان مدینہ سے باہر اپنے باپ حکم کے ساتھ مقیم تھا یہاں تک کہ اس نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کی بیعت کرلی سیدنا علیؓ نے جب نے اس کی بیعت قبول فرمالی تو سیدنا عثمانؓ نے اسے مدینہ شریف بلالیا سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علیؓ میں تعلقات کچھ اس قسم کے تھے کہ وہ ایک دوسرے کی بات کو رد نہ کرتے تھے اب یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ سیدنا علیؓ تو اسے قبول فرمائیں اور سیدنا عثمانؓ اسے رد کر دیں سیدنا عثمانؓ نے تو اس کے باپ حکم کو بھی مدینہ واپس آنے کی اجازت دے دی کیونکہ اب وہ اس قدر بوڑھا اور ناکارہ ہوچکا تھا کہ اس سے کسی سازش کا امکان باقی نہ رہا تھا سیدنا عثمانؓ مقامِ اجتہاد پر فائز تھے انہوں نے اجتہاد سے آنحضرتﷺ کے حکم کو معملل بعلّت سمجھا اور جب وہ علت اور سبب جاتے رہے تو انہوں نے اسے واپس آنے کی اجازت دے دی باقی رہا اس کے بیٹے مروان کا مسئلہ سو اسے سیدنا علی المرتضیٰؓ نے اپنی روحانی بیعت میں قبول فرمالیا تھا مگر افسوس کہ اس نے اس کے باوجود پھر سازشیں شروع کر دیں لیکن اس سے سیدنا علیؓ یا سیدنا عثمانؓ پر کسی قسم کا حرف نہیں آتا؟ علم غیب خاصہ باری تعالیٰ ہے یہ حضرات عالمِ الغیب ہرگز نہ تھے انہوں نے ظاہر حالات پر نظر کر کے ارشادِ نبوت کو علت پر موقوف قرار دیا تھا پھر جنگِ جمل کے دن یہ گرفتار ہوا تو شہزاده صلح و وفا سیدنا حسنؓ اور شہید جور و وفا شهزاده گلگوں قبا سیدنا حسینؓ نے اس کی سفارش فرمائی سیدنا علیؓ نے ان کی سفارش پر انہیں رہا کیا تھا اگر یہ بزرگ اس کی سفارش نہ کرتے تو سیدنا علی المرتضیٰؓ اسے کبھی معاف نہ کرتے یہاں یہ گمان نہ کیا جائے کہ سیدنا علیؓ کا نظامِ حکومت اپنے رشتہ داروں کی سفارشوں پر چلتا تھا کیونکہ اس رہائی کے احکام کے پس پشت سیدنا عثمانؓ کے فیصلے کا احترام بھی کار فرما تھا بایں ہمہ سیدنا علی المرتضیٰؓ مروان سے ناراض تھے آپؓ نے اسے رہا تو فرما دیا مگر یہ بھی ارشاد فرمایا:
اولم یبایعنی قبل قتل عثمانؓ لاحاجة لى فى بيعته انها كف يهودية۔
(نہج البلاغہ جلد 1 صفحہ 120)۔
ترجمہ: کیا اس نے سیدنا عثمانؓ کی شہادت سے پہلے میری بیعت نہیں کی تھی (یعنی بیعتِ روحانی کیونکہ اس وقت بیعتِ خلافت کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا) اب مجھے اس کی بیعت (خلافت) کی کوئی حاجت نہیں یہ ایک یہودی ہاتھ ہے جس میں وفا نہیں۔
سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کا اس مروان کی سفارش کرنا اور سیدنا علیؓ کا اسے قبول کرنا یہ بھی نہج البلاغہ کے اسی مقام میں موجود ہے۔
واللہ اعلم بالصواب۔