سیدنا علیؓ کا اپنے دورِ خلافت میں باغِ فدک کے علاقے پر پورا قبضہ تھا جب آپؓ امیر المومنین تھے تو آپؓ نے باغِ فدک سیدہ فاطمة الزہراؓ کے شرعی وارثوں میں کیوں تقسیم نہ کیا کیا خلیفہ اسلام کے ذمہ نہیں کہ وہ عدل و انصاف کے تمام تقاضے پورے کرے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: سائل عبد الرحمٰن کبیر والہ ضلع ملتانجواب: باغِ فدک آنحضرتﷺ کے پاس ایک قومی ملکیت کے طور پر تھا پس اس کے نسبی وراثت میں آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا آنحضرتﷺ کے بعد یہ قومی ملکیت آپ کے خلیفہ کے سپرد تھی اور وہ اسے برابر اسی طرح خرچ کرتے رہے جس طرح حضور اکرمﷺ اسے صرف فرماتے تھے سیدنا جعفر صادق نے ایسے اموال کے متعلق ارشاد فرمایا:
هو الامام من بعده يضعه حيث يشآء۔
(اصول کافی جلد 1 صفحہ 539 ایران)۔
ترجمہ: ایسے اموال پیغمبر کے بعد خلیفہ اور امام کے تصرف میں ہیں وہ جس طرح مناسب سمجھے ان کا فیصلہ کرے۔
معلوم ہوا کہ فدک کا باغ سیدنا علی المرتضیٰؓ کے ہی تصرف میں رہنا چاہیے تھا یہ صحیح نہ تھا کہ اسے سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے وارثوں میں تقسیم کرتے سیدنا علیؓ کا عمل اپنی جگہ بالکل صحیح تھا۔
ثانیاً پیغمبروں کی علمی وراثت تو چلتی ہے لیکن ان کے دوائر عمل میں مالی وراثت کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا
ایک دفعہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے آنحضرتﷺ سے پوچھا:
ما ارث منك يا رسول اللّٰه۔
یا رسول اللہﷺ! میں آپ کی وراثت میں کیا پاؤں گا
آپﷺ نے فرمایا:
ما ورثت الانبياء من قبلی۔
جو کچھ مجھ سے پہلے انبیاء علیہم السلام اپنی وراثت میں دیتے رہے وہی تم بھی حاصل کرو گے؟۔
سیدنا علیؓ نے پھر سوال کیا:
ما ورثت الانبياء من قبلك؟
آپ سے پہلے انبیاء علیہم السلام اپنی وراثت میں کیا چھوڑتے رہے؟۔
اس پر آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا:
كتاب ربهم وسنت نبیتهم۔
(یہ ساری روایت تیسری صدی کے مشہور امامی محدث فرات بن ابراہیم بن فرات الکوفی کی نادر رونگار تصنیف تفسیر فرات مطبوعہ نجفِ اشرف کے صفحہ82 پر موجود ہے یہ علامہ فرات مشہور مفسر علی بن ابراہیم قمی کے استاد اور علامہ کلینی کے استاذ الاستاذ ہیں مفسر قمی نے سورۃ ق کی تفسیر میں ان کی سند بھی ذکر کی ہے۔
"ان کے پروردگار کی کتاب اور ان کے نبی کی سنت"۔
حاصل اینکہ انبیاء کرام علیہم السلام کی وراثت ہمیشہ علمی رہی ہے نہ ان کے ہاں مالی وراثت کا سلسلہ ہوتا ہے اور نہ باغِ فدک کے سیدہ فاطمہؓ کے وارثوں میں تقسم نہ کرنے سے سیدنا علی المرتضیٰؓ کی ذات اقدس پر کوئی حرف آتا ہے سیدنا علیؓ نے جو کچھ کیا قواعد شریعت اور ارشاداتِ نبوت کے عین مطابق تھا۔
ثالثاً: سیدنا علی المرتضیٰؓ اپنے عہدِ خلافت میں سیرت شیخینؓ کے پوری طرح پابند تھے ہیں باغِ فدک کے متعلق بھی سیدنا علیؓ نے انہی حضرات کے فیصلوں کی تائید فرمائی اور جس طرح عہدِ صدیقی میں باغِ فدک کی آمدنی حضرات اہلِ بیتؓ پر خرچ ہوتی تھی خلافت مرتضویہ میں بھی بالکل اسی طرح عمل درآمد رہا۔ مشہور ایرانی مجتہد سید علی نقی نہج البلاغہ کی شرح میں لکھتے ہیں:
خلاصہ ابوبکر غلہ و سود آں راگرفتہ بقدر کفایت اہلِ بیت علیہم السلام مے داو و خلفائے بعد از اوہم برآں اسلوب رفتار نمود ندتا زمان معاویهؓ۔
(شرح نہج البلاغہ جلد 5 صفحہ 960 مطبوعہ طہران)۔
ترجمہ: خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ باغِ فدک کی آمدنی اور پیداوار ضرورت کے مطابق حضرات اہلِ بیتؓ پر ہی صرف فرماتے اور ان کے بعد کے خلفاء بھی سیدنا امیرِ معاویہؓ کے زمانہ تک ادی طریقِ کار کے پابند رہے۔
واللہ اعلم بالصواب۔