ایک دفعہ جناب نبی پاکﷺ نے بنو ہاشم کے تمام بڑے بڑے اور اہم افراد کو جمع کیا جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے پھر حضورﷺ نے ان سے ایک سوال کیا تو ابولہب کے اکسانے پر یہ سب لوگ حضورﷺ کو چھوڑ بھاگے ابولہب کا ساتھ دینے اور حضورﷺ کی مجلس چھوڑ دینے کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے مطلع فرمائیں کہ کیا یہ واقعی صحیح ہے اور اگر صحیح ہے تو کہاں ہے؟۔
اس موضوع میں حضرت علیؓ کے متعلق جو شبہ پیدا ہوتا ہے اس کا ازالہ فرمائیں؟۔
سوال پوچھنے والے کا نام: محمد اختر خانیوالجواب: مشہور امامی مفسر علی بن ابراہیم القمی جو ملا محمد بن یعقوب الکلینی صاحب اصولِ کافی کے بھی استاد ہیں اپنی تفسیر میں آیت وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَ الخ۔(سورة الشعراء آیت 26) کے تحت لکھتے ہیں کہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی اور آنحضرتﷺ نے بنو ہاشم کے تمام بڑے بڑے اور اہم آدمیوں کو جو تعداد میں چالیس تھے ایک دعوت پر بلایا:
فقال رسول اللهﷺ من يكون وصيى و وزیری و خليفتی فقال لهم ابولهب جزما سحركم محمدﷺ فتفرقوا۔
(تفسیر قمی صفحہ 286 ایران)۔
ترجمہ: حضور اکرمﷺ نے پوچھا تم میں سے کون میرا وصی و وزیر اور خلیفہ ہوگا ابولہب نے (انہیں اکسایا اور) کہا تم پر محمدﷺ نے جادو کر رکھا ہے ہیں پس سب کے سب چلے گئے۔
آنحضرتﷺ نے دوسرے دن پھر اسی طرح دعوت کی اور دوسرے دن بھی تمام بنوہاشم اسی طرح بھاگ گئے اس سے انکار نہیں کہ تمام بنوہاشم دو دفعہ ابولہب کی باتوں میں آگئے اور آنحضرتﷺ کو چھوڑ بھاگے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ واقعہ بھی موجود ہے کہ تیسرے دن پھر حضور اکرمﷺ نے ان چالیس آدمیوں کی دعوت فرمائی اور پھر وہی سوال کیا تو اس دفعہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ابولہب کی بات میں نہ آئے اور آپؓ نے اپنے آپ کو حضور اکرمﷺ کی خدمت میں پیش کردیا اس روایت کی رو سے سیدنا علی المرتضیٰؓ پر اعتراض کرنا کہ وہ ابولہب کے کہنے پر چھوڑ بھاگے ایک صریح شقاوت اور بدبختی ہے۔
اولاً: یہ کہ پہلے دو دن اس طرح چلے جانا محض اتفاقی اور ہنگامی طور پر واقع ہوا وہ عنادی طور پر حضورﷺ سے ہرگز جدا نہ ہوئے تھے ابولہب محروم الایمان اور سیدنا علی المرتضیٰؓ سابق الایمان بھلا ان میں کیا جوڑ ہوسکتا ہے یہ جو کچھ ہوا محض ایک وقتی معاملہ تھا اللہ رب العزت نے تو بعض ان لوگوں کو بھی جو جنگِ احد میں منتشر ہوگئے تھے معاف کر دیا تھا کیونکہ انکا یہ محض اتفاقی عمل تھا عنادی نہ تھا اور الله تعالیٰ کے فیصلے نیتوں پر مبنی ہوتے ہیں۔
ثانیاً: سیدنا علی المرتضیٰؓ نے تیسرے دن جب اپنے آپ کو پیش کر دیا اور تمام بنوہاشم میں آنحضرتﷺ کا ساتھ دینے میں خاص طور پر ممتاز رہے تو اب کیا اعتراض باقی رہا شریعت کا قاعدہ ہے "العبرة بالخواتیم" کہ نیتجہ آخری امور سے اخذ ہوتا ہے اور انجام کار سیدنا علیؓ کا دامن بالکل صاف اور طاہر و مطہرہ نظر آتا ہے۔
ثالثاً: یہ روایت صرف حضرات امامیہ کی ہے ہم تسلیم نہیں کرتے کہ حضور اکرمﷺ نے ایک ایسے مجمع میں جس میں ابولہب بھی شریک ہوا اپنی خلافت کی بحث چھیڑی ہو اور پھر یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ مکہ میں جب کہ آنحضرتﷺ کی تحریکِ اسلام بالکل ابتدائی مراحل میں تھی دین نے ابھی شرفِ تکمیل حاصل کرنا تھا اور رسالت کی شانِ غالبیت ابھی معرضِ مظہور میں نہ آئی تھی یکایک خلافت کا مسںٔلہ کیسے زیرِ بحث آگیا معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت کچھ ایسے لوگوں نے ہی وضع کی ہے جنہیں زندگی کے ہر باب میں خلافت کے سوا اور کوئی مسںٔلہ نہیں سوجھتا۔
واللہ اعلم بالصواب۔