حضرت فاطمۃ الزہرا رضی للہ عنہا کیا زندگی بھر کبھی سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے ناراض بھی ہوئیں یا نہ؟ اگر ہوئیں تو پھر اس حدیث کا کیا مطلب ہے کہ جس نے سیدہ فاطمہ رضی للہ عنہا کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اور جس نے مجھے ناراض کیا اس نے خدا کو ناراض کیا سوال ہے کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمۃ الزہراؓ کو کیوں ناراض کیا یہاں تک کہ سیدہ فاطمہ رضی للہ عنہا اپنے والد مکرمﷺ کے گھر چلی گئیں اور اگر انہوں نے کبھی بی بی صاحبہ کو ناراض نہیں کیا تو پھر مطلع فرمائیں کہ بی بی صاحبہؓ نے سیدنا علیؓ سے یہ درشت کلامی کیوں فرمائی۔
مانند جنین ورعم پرده نشین شده و مثل خاںٔبان در خانہ گریختہ و بعد از انکہ شجاعان دہر رابر خاک ہلاک افگندی مغلوب ایں نامرداں گرویده۔
(حق الیقین صفحہ 125 مطبوعہ مطبع جعفری لکھنؤ)۔
نیز مطلع فرمائیں کہ اس تنازعہ میں سیدنا علی المرتضیٰؓ حق پر تھے یا سیدہ خاتونِ جنتؓ اس کا مفصل جواب دیجئے؟۔
سوال پوچھنے والے کا نام: سائل محمد اقبال ظفر رکن نظام اسلام پارٹی سیالکوٹجواب: خاوند اور بیوی کے تعلقات کچھ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ کبھی نہ کبھی رنجش ہو ہی جاتی ہے طبقات ابنِ سعد صفحہ 16 میں ہے کہ سیدہ فاطمہؓ سیدنا علیؓ سے ناراض ہو کر ایک دفعہ آنحضرتﷺ کے پاس چلی گئیں سیدنا علیؓ بھی پیچھے پیچھے چل دیئے اور جاکر ایسی جگہ کھڑے ہوگئے کہ حضور اکرمﷺ سیدہ فاطمہؓ کی گفتگو سن سکیں حضور اکرمﷺ نے فرمایا اے بیٹی وہ کون سے مرد اور عورت ہیں جن کے درمیان کبھی کوئی رنجش واقع نہ ہوئی ہو اور یہ کیا ضروری ہے کہ مرد تمام کام بیوی کے منشاء کے مطابق ہی کرے سیدنا علیؓ پر اس مصلحانہ جواب کا بہت اثر ہوا خود فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے سیدہ فاطمہؓ پر کبھی کوئی سختی نہ کی۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے اصابہ صفحہ 730)۔
ایک دفعہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے ابوجہل کی بیٹی غوراء سے نکاح کا ارادہ فرمایا جب سیدہ فاطمہ الزہراؓ کو پتہ چلا تو وہ آنحضرتﷺ کے پاس گئیں سنن ابنِ ماجہ میں ہے:
فلما سمعت بذلك فاطمةؓ اتت النبیﷺ فقالت ان قومك يتحدثون انك لا تغضب لبناتك وهذا على ناكحا ابنته ابى جهل۔
ترجمہ: سیدہ فاطمہؓ نے جب یہ سنا تو وہ حضور اکرمﷺ کے پاس گئیں اور کہا کہ قریش باتیں کرتے ہیں کہ آپ اپنی بیٹیوں کے لیے (دوسروں سے) کبھی ناراض نہیں ہوتے اور اب تو سیدنا علیؓ ابوجہل کی بیٹی سے شادی بھی کرنے والے ہیں۔
اس پر آنحضرتﷺ نے کلمہ شہادت پڑھا اور ارشاد فرمایا:
اما بعد فانی قد انكحت ابا العاص بن الربيع فحدثنی فصدقنی وان فاطمةؓ بنت محمدﷺ بضعة منى وانا اكره ان تفتنوها وانها واللّٰه لا تجتمع بنت رسول اللهﷺ و بنت عدو اللہ عند رجل واحد ابداً۔
(سنن ابنِ ماجہ صفحہ 145 باب الغیرہ)۔
ترجمہ: میں نے (اپنی بیٹی سیدہ زینبؓ) ابوالعاصؓ بن ربیع کے نکاح میں دی تھی تو اس نے جو قول مجھ سے کیا پورا کر دکھایا اور بے شک سیدہ فاطمہؓ بھی میرے جگر کا ٹکڑا ہے اور میں یہ پسند نہیں کرتا کہ تم اسے کسی آزمائش میں ڈالو بخدا خدا کے رسولﷺ کی بیٹی اور خدا کے دشمن کی بیٹی کبھی ایک شخص کے ہاں جمع نہیں ہوسکتیں۔
اور صحیح بخاری باب ذب الرجل عن ابنته فی الغيرة والانصاف میں ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا:
ان بنى هشام بن المغيرة استاذنونى فی ان ينكحوا ابنتهم على بن ابی طالب فلا اذن ثم لا اذن ثم لا اذن الا ان يريد ابنِ ابی طالب ان يطلق ابنتی وینکح ابنتهم فانما هی بضعة منى يریبنی ما ارابها و يوذينی ما إذاها۔
(صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 787)۔
ترجمہ: بنو ہشام نے مجھ سے اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی ایک بیٹی سیدنا علیؓ کے نکاح میں دے دیں میں اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا اجازت نہیں دیتا اجازت نہیں دیتا ہاں سیدنا علیؓ بن ابی طالب اگر ضرور ہی نکاح کرنا چاہیں تو پہلے میری بیٹی کو طلاق دے دیں اور پھر ان کی بیٹی سے نکاح کر لیں سیدہ فاطمہؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جو چیز اسے بری لگے وہ مجھے بھی بری لگتی ہے اور جو بات اُسے تکلیف دے اس سے مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے۔
بعض روایات میں یوں ہے:
من اغضبها فقد اغضبنی کہ جس نے سیدہ فاطمہؓ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔
اسد الغابہ میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا:
انی لست احرم حلالا ولا احل حراما ولاكن وا لا تجتمع بنت رسول اللهﷺ وبنت عدو الله۔
(دیکھیں اسد الغابہ صفحہ 438)۔
ترجمہ: میں خدا کے حلال کردہ امر (یعنی نکاح ثانی) کو حرام نہیں کرتا اور نہ ہی کسی حرام کو حلال کرتا ہوں لیکن خدا کے رسولﷺ کی بیٹی اور خدا کے دشمن کی بیٹی کس طرح ایک شخص کے ہاں جمع ہوجاںٔیں۔
ان واقعات سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ سیدہ فاطمہؓ کئی دفعہ سیدنا علی مرتضیٰؓ سے ناراض ہوںٔیں لیکن اس سے سیدنا علیؓ کی ذات پر کوئی حرف نہیں آتا کیونکہ حدیث میں جس بات پر وعید آئی ہے وہ غضب یعنی مطلق ناراض ہونا نہیں بلکہ اغضاب ہے جس کے معنیٰ قصداً دوسرے کو ناراض کرنا ہے یہ صحیح ہے کہ سیدہ فاطمہؓ ناراض ہوئی لیکن یہ ہرگز صحیح نہیں کہ سیدنا علیؓ نے انہیں ناراض کیا یعنی فعل اغضاب سیدنا علیؓ سے ثابت نہیں ہوا کیونکہ اس میں قصداً ایذا ضروری ہے اور سیدنا علی المرتضیٰؓ کا ایسا قصد ہرگز نہ تھا خاتم المحدثین حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی لکھتے ہیں:
آنچہ گفتہ اند کہ پیغمبرﷺ فرموده است من اغضبها فقد اغضبنی پس کمال نادانی است بلغت عرب زیراکہ اغضاب آنست کہ شخصے بقول فعل در غضب آورون شخصے قصد نماید۔
(تحفہ صفحہ278 نول کشور لکھنؤ)۔
حاصل اینکہ ارشادِ نبوت کی وعید میں لفظ اغضاب ہے غضب نہیں اگر یوں ہوتا تو حضور اکرمﷺ کیوں ارشاد فرماتے:
من غضبت عليه غضبت عليه پس معلوم ہوا کہ ان واقعات سے سیدنا علی المرتضیٰؓ کی شانِ قدس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا ملا باقر مجلسی نے (بحار الانوار جلد 10 صفحہ45) پر ایسے کئی واقعات نقل کئے جن ہم پر ایسے میں سیدہ فاطمة الزہراؓ نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کے خلاف آنحضرتﷺ کے حضور میں شکایتیں کیں لیکن ایسے واقعات سب کے سب محض ہنگامی اور وقتی قسم کے تھے جن میں فریقین میں سے کسی فریق کے فسادِ نیت کا کوئی احتمال نہیں۔
ہمارا یہ منصب نہیں کہ ہم ان اختلافات اور غلط فہموں کا محاکمہ کریں یہ ہر دو شخصیتیں ہمارے لیے انتہائی درجہ میں لائق تعظیم ہیں اجمالاً اتنی بات کافی ہے کہ ہر بناء اختلاف میں سیدنا علی المرتضیٰؓ کا دامن پوری طرح پاک اور بے غبار ہے سیدہ فاطمہؓ کی نیت میں بھی کوئی برائی یا مقابلہ آرائی ہرگز نہیں تھی ناراضگی بنتِ رسولﷺ کے یہ چند واقعات محض غلط فہمی یا ایک انداز غیرت پر مبنی تھے جس طرح ہم جنگِ جمل کے فریقین سیدہ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ اور سیدنا علی المرتضیٰؓ میں سے ہر ایک کو حق پر اور ان کے اختلاف کو محض غلط فہمیوں پر مبنی قرار دیتے ہیں اور کسی ایک فریق کی بھی بے ادبی کی اجازت نہیں دیتے اسی طرح ہم اسے بھی ہرگز جائز نہیں سمجھتے کہ سیدہ فاطمہ الزہراؓ اور سیدنا علی المرتضیٰؓ کے ان اختلافات کو خواہ مخواہ ہوا دی جائے بالخصوص جب کہ انجام کار یہ سب اختلافات ختم ہوگئے ہوں حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام باوجود یکہ دونوں پیغمبر تھے اور دونوں معصوم مگر دیکھئے ایک غلط فہمی اور ہنگامی صورت حال کی بناء پر کس طرح ایک دوسرے سے الجھ پڑے اور قرآنِ عزیز خود اس تصادم کو ذکر فرماتا ہے اب یہاں کس تردید کی جائے کے گی یقیناً کسی کی نہیں الله تعالیٰ کے فیصلے محض نیت پر مبنی ہیں سیدہ عائشہؓ اور سیدنا علیؓ کے اختلافات یا سیدہ فاطمہؓ اور سیدنا علیؓ کے اختلافات یا سیدنا علیؓ اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کے اختلافات ہم ان سب ابعاب میں ہر ایک فریق کے حسن نیت کے قائل ہیں۔ اگر معصوموں کے مابین غلط فہمی ہوسکتی ہے جیسے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام میں ہوئی تو غیر معصومین بدرجہ اولیٰ غلط فہمی میں ایک دوسرے سے الجھ سکتے ہیں فسادِ نیت سے بچتے ہوئے اگر کسی سے خطا بھی صادر ہو تو ایسی خطائے اجتہادی پر بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی گرفت نہیں بلکہ مجتہد مخطیٔ بھی مثاب و ماجور ہوتا ہے ہاں مجتہد مصیب کو ارشادِ نبوت کی رو سے یقیناً دو اجر ملتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
ہاں آپ نے حق الیقین صفحہ 135 سے جو الفاظ نقل کئے ہیں وہ واقعی بہت سخت ہیں اگرچہ یہ روایت احتجاج طبرسی صفحہ 65 مطبوعہ نجف اشرف اور بحار الانوار جلد 10 صفحہ 46 کے مطبوعہ ایران وغیرہ میں بھی موجود ہے مگر ہماری عقیدت تسلیم نہیں کرتی کہ سیدہ فاطمہؓ جنہوں نے آغوشِ رسالتﷺمیں تربیت پائی تھی کبھی انہوں نے ایسے الفاظ سیدنا علی المرتضیٰؓ کے متعلق کہے ہوں یہ تمام کتابیں جن میں یہ روایت ملتی ہے اہلِ سنت کی نہیں شیعہ حضرات کی ہیں پس ہمیں چاہیے کہ ان روایات کو غلط قرار دیں مگر ان نفوسِ قدسیہ کے اخلاقِ فاضلہ اور عاداتِ کریمہ کے متعلق کسی قسم کا کوئی شبہ نہ کریں افسوس کہ ان لوگوں نے ان پاک ہستیوں کو ایسے نازیبا کلمات کا موضوع بنانے کے لیے یہاں تک جسارت کی ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کو گالی دے سکنے کا جواز پیدا کرنے کے لیے روایات تک گھڑ لی ہیں خود سیدنا علی المرتضیٰؓ کے متعلق ہی لکھتے ہیں کہ (معاذ اللّٰه) انہوں نے فرمایا:
انكم ستدعون الى سبّی فسبّونی۔
(اصول کافی مع الصافی جلد 4 و نہج البلاغۃ جلد 1 صفحہ 124)۔
ترجمہ: تمہیں کہا جائے گا کہ مجھے گالی دو پس مجھے گالی دے لیا کرنا۔
اہلِ سنت ایسی تمام روایات کو جن میں ان نفوس قدسیہ کو گالی دے سکنے کا کوئی ادنیٰ سا جواز بھی ملتا ہو یکسر باطل سمجھتے ہیں ان روایات کا اور ایسے غلط مذاہب کا انکار کر دینا آسان ہے مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہلِ بیتِ عظام کی اس قسم کی گستاخی قطعاً حرام ہے اللہ رب العزت اس جسارت سے محفوظ رکھے۔
واللہ اعلم بالصواب۔
کتبہ خالد محمود عفا اللہ عنہ۔