Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے والد حضرت ابوطالب نے اسلام قبول کیا تھا یا وہ انہی پرانے عقائد پر ان کی وفات ہوئی جو ان دنوں قریشِ مکہ میں رائج تھے جب حضور نبی پاک صلى الله عليه وسلم کی انتہائی خواہش تھی کہ آپ ایمان لائیں تو وہ مشرف بالایمان ہوئے یا نہ؟ نیز مطلع فرمائیں کہ نکاح خواں کے لیے ایمان اور اسلام کی شرط ہے یا نہ؟ ساںٔل بریلوی عقائد سے تعلق رکھتا ہے مجھے اس کے مطابق تحقیق درکار ہے؟۔

سوال پوچھنے والے کا نام:   سائل غلام محمد فاروقی

جواب: ایسے سوالات میں الجھنا بالکل بے فائدہ اور فضول ہے یہ لوگ اب دنیا سے جاچکے ہیں اور ان کے عقائد و اعمال اب ان کے سامنے پوری طرح کھلے ہوئے ہیں جہاں تک ہمیں معلوم ہے وہ یہی ہے کہ ان کی وفات اپنی عقائد پر ہوئی جو اُس وقت قریشِ مکہ میں موجود تھے یہ ٹھیک ہے کہ حضور اکرمﷺ کی خواہش تھی کہ وہ ایمان لے آئیں لیکن اللہ رب العزت نے ارشاد فرما دیا تھا:

إِنَّكَ لَا تَہۡدِى مَنۡ أَحۡبَبۡتَ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ يَہۡدِى مَن يَشَآءُ‌ۚ الخ۔

(پارہ 20 سورۃ القصص آیت 56)۔

ترجمہ: آپ ہر اس شخص کو جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے ہدایت خدا کے قبضے میں ہے

شیعہ حضرات کے مشہور محدث اور مفسر علی بن ابراہیم قمی اس آیت شریفہ کے متعلق لکھتے ہیں:

نزلت فی ابی طالب۔ 

(تفسیر قمی صفحہ391 مطبوعہ ایران)۔

ہمارے حضرات کا مؤقف یہ ہے کہ حضرت ابو طالب کا اسم گرامی پورے احترام سے لیا جائے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ فرمایا کرتے تھے کہ مجھ سے اُن کا نام حضرت کے بغیر لیا ہی نہیں جا سکتا بریلوی حضرات کا موقف اس باب میں مجھے معلوم نہیں۔

جامع الاخبار فصل سادس میں ابنِ بابویہ قمی کی سند سے ایک روایت لکھی ہے کہ آنحضرتﷺ نے ابو طالب کو معراج کی رات مع حضرت عبد المطلب کے ان انوار اربعہ میں دیکھا۔ حضور اکرمﷺ نے اللہ رب العزت سے عرض کی کہ انہیں یہ درجہ کیسے ملا تو جواب ملا:

بكتمانهم الايمان واظهارهم الكفر حتٰى ماتوا على ذلك۔(جامع الاخبار شیخ صدوق صفحہ 16)۔ 

ترجمہ: ان لوگوں نے ایمان کو دل میں چھپائے رکھا یہاں تک کہ ان کی وفات بھی اسی اظہار کفر پر ہوئی

باطن کا معاملہ تو خدا کے سپرد ہے جہاں تک ظاہر کا تعلق ہے ان کا قبولِ اسلام کہیں منقول نہیں تاہم ان کی وہ شفقت اور محبت جو انہوں نے آقائے نامدار حضور اکرمﷺ سے کی بہر صورت انہیں نفع پہنچائے گی ہمارے لیے یہی ہے کہ ان کا پوری طرح احترام کریں یہ امر دیگر ہے کہ ان کی محبت کا مرکز محمد رسول اللہﷺ کی بجائے محمد بن عبداللہ کی ذات ہو اور اس شفقت و محبت میں حق کی بجائے خون و نسل کا تعلق ملحوظ ہو لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں ہوسکتا کہ ابوطالب کے اس دورِ محبت میں بھی کتنے ہی ایسے بد بخت موجود تھے جو باوجود آپ کے قرابت دار ہونے کے آپ کے اشد ترین دشمن تھے ان حالات میں حضرت ابوطالب کی شفقت آپ کے لیے ایک بڑا دنیوی سہارا تھی۔ 

واللہ اعلم بالصواب۔

2: نکاح خواں کے لیے مسلمان ہونا ضروری نہیں خصوصاً ایسے وقت میں جب کہ خاوند بیوی کے لیے بھی یک مذہب ہونا ضروری نہ ہو شریعت کے تمام ضابطے آنحضرتﷺ کی بعثت اور نزولِ قرآن کے بعد ہیں ہاں بعد میں بھی گواہوں کی موجودگی میں فریقین کا ایجاب و قبول نکاح کے لیے کافی سمجھا گیا ہے نکاح خواں کی ذات نکاح کے لیے فرض درجے میں نہیں جناب مولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی لکھتے ہیں۔

نکاح نام باہمی ایجاب و قبول کا ہے اگر چہ بامن (برہمن) پڑھا دے۔ 

(احکام شریعت جلد 2 صفحہ 144 مطبوعہ مراد آباد)۔

خان صاحب بریلوی کا حوالہ آپ کے سوال کے پیشِ نظر دیا گیا ہے۔  

كتبہ خالد محمود عفا اللہ عنہ 3 جنوری 1964ء۔