ہم نے دعوت میں پڑھا تھا کہ روزہ اس وقت افطار کیا جائے جب سورج غروب ہو جائے اور سفیدی سیاہی میں تبدیل ہو جائے اس پر شیعہ اعتراض کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ افطاری کا وقت نہیں ہے افطاری اس وقت کرنی چاہئیے جب سیاہی پوری طرح چھا جائے؟۔
2۔ کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ تراویح کی نماز پڑہتے تھے اس کی تحقیق درکار ہے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: رحیم بخش زیر ناظم دفتر جمعیت علمائے اسلام ڈیرہ اسماعیل خانجواب: یہ صحیح ہے کہ جب سورج غروب ہو جائے افطار کا وقت ہو جاتا ہے سیدنا باقرؒ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اذا غاب القرص افطر الصائم ودخل وقت الصلوة۔
(من لا یحضرہ الفقیہ صفحہ81 ایران)۔
ترجمہ: جب سورج کی ٹکیا چھپ جائے تو روزہ کھل جاتا ہے اور نماز کا وقت ہو جاتا ہے اگر کوئی شخص اس وقت میں جان بوجھ کر دیری کرے تاکہ درجہ اور فضیلت زیادہ حاصل ہو تو سیدنا جعفر صادقؒ ارشاد فرماتے ہیں:
ملعون من اخر المغرب طلب فضلها۔
(تہذیب الاحکام صفحہ 143 ایران)۔
ترجمہ: جو شخص مغرب میں اس لیے تاخیر کرے کہ اس میں فضیلت ہے وہ شخص ملعون ہے۔
ایک شخص نے سیدنا جعفر صادقؒ سے عرض کیا:
أوخر المغرب حتى تستبين النجوم۔
ترجمہ: میں مغرب میں دیری اس وقت تک کرتا ہوں کہ ستارے نظر آنے لگتے ہیں اس پر سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا کہ یہ شخص فرقہ خطابیہ میں سے ہے حضرت جبریل آنحضرتﷺ کے لیے مغرب کا یہی وقت لائے تھے کہ جب سورج کی ٹکیا چھپ جائے۔
اور سیدنا جعفر صادقؒ نے یہ بھی فرمایا:
ابدأ إلى اللہ مما فعل ذلك متعمدا۔ (ایضاً)
ترجمہ: میں اس شخص کے عمل سے جو جان بوجھ کر اس طرح کرے پوری طرح بیزار ہوں۔
قرآنِ عزیز کی ہدایت روزے کے باب میں یہ ہے:
اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيۡلِۚ الخ۔
(پارہ 2 سورۃ البقره آیت 187)۔
ترجمہ: روزے کو رات تک پورا کرو۔
اور ظاہر ہے کہ رات کی ابتداء اس وقت سے ہوتی ہے جب سورج غروب ہو جائے۔ استبصار میں ہے:
عن ابی عبدالله عليه السلام فى رجل صام ثم ظن الليل قد كان دخل وان الشمس قد غابت وكان فی السماء سحاب فافطر ثم ان السحاب تجلى فاذا الشمس لم تغب فقال تم صومه ولا يقضيه۔
(استبصار طوسی جلد 2 صفحہ 115 ایران)۔
ترجمہ: سیدنا جعفر صادقؒ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے روزہ رکھا تھا اور پھر جب آسمان پر بادل تھے اس نے گمان کر لیا کہ رات ہوگئی ہے اور سورج چھپ گیا ہے تو اس نے روزہ کھول لیا ہے پھر جب بادل ہٹے تو اس نے دیکھا کہ سورج ابھی تک غروب نہیں ہوا سیّدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا اور اس کا روزہ ہوگیا ہے اور اس پر قضا نہیں۔
اس جواب سے دوسرے اںٔمہ کو اتفاق ہو یا اختلاف یہ امر دیگر ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس روایت میں رات آنے میں ابتداء سورج غروب ہونے سے تسلیم کی گئی ہے یہاں ظن ان الليل قد كان دخل کے الفاظ ہیں اور ابوالصباح الکنافی کی روایت میں ظن ان الشمس قد غاب کے الفاظ وارد ہیں مفہوم کا توارد صاف بتا رہا ہے کہ ائمہ اہلِ بیت کے ماحول میں سورج غروب ہونے کو ہی آغازِ شب قرار دیا جاتا تھا اور اس کے لیے یہ ہرگز ضروری نہ تھا کہ رات پوری طرح چھا جائے اور ستارے دکھائی دینے لگیں ستارے نظر آنے کا وقت رات کا آغاز نہیں رات کا چھانا ہے قرآنِ کریم میں ہے:
فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ رَاٰ كَوْكَبًاۚ الخ۔
(سورة الانعام آیت 76)۔
ترجمہ: جب رات چھا گئی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ستارے دیکھے۔
صحیح ابنِ حبان اور مستدرک حاکم میں ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا : لا تزال أمتى على سنتى ما لم تتنظر بفطرها النجوم۔
(کذا فی الفتح جلد 2 صفحہ 121)۔
ترجمہ: میری امت اُس وقت تک میرے طریقے پر رہے گی جب تک کہ وہ افطاری کے وقت کے لیے ستاروں کے نکلنے کی منتظر نہ ہو۔
صحیح مسلم میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ ایک دفعہ کسی سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور رمضان کا مہینہ تھا جب سورج غروب ہوا تو آپﷺ نے کسی شخص کو فرمایا کہ ستو تیار کرو اس نے کہا یا رسول اللہﷺ ان عليك نھارا ابھی تک تو دن کی کچھ روشنی موجود ہے آپﷺ نے پھر فرمایا سواری سے نیچے اترو اور ستو تیار کرو چنانچہ اس نے اسی طرح کیا آنحضرتﷺ نے ستو پیئے اور ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
اذا غابت الشمس من هنا وجاء الليل ھهنا فقد فطر الصائم۔
(صحیح مسلم جلد 1 صفحہ351)۔
ترجمہ: جب (مغرب کی طرف) سورج چھپ جائے اور اس دوسری طرف (یعنی مغرب کی طرف) سیاہی آجائے تو روزہ کھلنے کا وقت ہو جاتا ہے یہاں تو آپﷺ نے اسے اذا غابت الشمس کے الفاظ میں بیان فرمایا اور سیدنا عمرؓ کی روایت کی رو سے آپ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے:
اذا اقبل الليل من ههنا وادبر النهار من ھهنا و غربت الشمس فقد افطر الصائم۔
(صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 463)۔
ترجمہ: جب (مشرق کی طرف) رات آجائے اور (مغرب کی طرف) دن چھپ جائے تو روزہ کھل جاتا ہے دونوں روایتوں کو ملانے سے یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ شارع کی نگاہ میں سورج کے غروب ہونے سے ہی رات کا آغاز ہوتا ہے اس میں جان بوجھ کر تاخیر کرنا یہود کی علامت اور عبداللہ ابنِ سبا کی وراثت ہے:
ان الیھود و النصاریٰ یؤخرون۔
(ابوداؤد صفحہ 321)
ترجمہ: یہودی اور عیسائی افطار کے وقت میں تاخیر کیا کرتے تھے۔
2۔ رمضان میں ایک نماز (تراویح کی نماز) زیادہ پڑہنے کے متعلق سیدنا جعفر صادقؒ ارشاد فرماتے ہیں۔
كان رسول اللہﷺ اذا دخل شهر رمضان زاد الصلوة فان ازید فزیدوا۔
(استبصار جلد1 صفحہ 461)۔
ترجمہ: آنحضرتﷺ رمضان کے مہینے میں نمازہ زیادہ کر دیتے تھے میں بھی اسی طرح (ایک نماز) زیادہ کرتا ہوں اور تم بھی رمضان میں (ایک نماز) زیادہ پڑھا کرو۔
سیدنا جعفرؒ نے یہ بھی فرمایا:
ان اصحابنا فولاء ابو ان يزيدوا فی صلاتهم فی شهر رمضان وقد زاد رسول اللهﷺ فی صلوته فی شهر رمضان۔
(استبصار صفحہ 460)۔
ترجمہ: ہمارے یہ (شیعہ) احباب رمضان کی اس نماز کا انکار کرتے ہیں حالانکہ آنحضرتﷺ نے رمضان میں اس نماز کو زیادہ فرمایا ہے۔
باقی رہا اس نماز کی رکعات کا مسئلہ تو اس کے متعلق سیدنا جعفر صادقؒ کا عمل یہ رہا ہے:
منذ اول ليلة الى تمام عشرين ليلة فی كل ليلة عشرين ركعة۔
(استبصار صفحہ 462)۔
ترجمہ: پہلی رات سے لے کر بیسویں رات تک ہر رات میں سیدنا جعفر صادقؒ بیس رکعات تراویح پڑہتے تھے۔
سیدنا رضاؒ فرماتے ہیں:
كان ابی يزيد في العشر الأواخر فی شهر رمضان فی كل ليلة عشرين ركعة۔
(استبصار جلد 1 صفحہ466 ایران)۔
ترجمہ: میرے والد (سیدنا موسیٰ کاظمؒ) رمضان کی آخری دس راتوں میں سے ہر رات بیس رکعات اور نماز پڑھا کرتے تھے۔
شرح نقایہ میں بہیقی سے باسناد صحیح منقول ہے کہ:
كانوا يقيمون على عهد عمرؓ بعشرين ركعة وعلى عهد عثمانؓ و علىؓ۔
(فتح الملہم جلد 2 صفحہ32)۔
ترجمہ: سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علی المرتضیٰؓ تینوں بزرگوں کے عہد میں لوگ بیس رکعت تراویح ہی پڑھتے تھے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کے عہدِ خلافت میں بھی تراویح کی نماز بدستور پڑھی جاتی تھی اور پھر جب کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ اپنے پیشروؤں کی سیرت پر پوری طرح عمل پیرا تھے (تفصیل کے لیے دیکھیں مجالس المؤمنین جلد 1 صفحہ 54 ایران) تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ان کے عہد میں تراویح کی نماز ترک کردی گئی ہو قاری نور اللہ شوستری تصریح کرتے ہیں کہ سیدنا علیؓ پہلے بزرگوں کے طریق پر پوری طرح عمل پیرا تھے اور کسی ایک بات میں بھی اُن کی مخالفت کی کوئی گنجائش نہ تھی۔
واللہ اعلم۔
کتبہ خالد محمود عفا اللّه عنہ 21 فروری 64ء۔