میرے دوستوں نے مجھ سے بحث کی ہے ایک نے کہا کہ سیدنا رضا کی اذان میں اشهد ان علیا ولی اللہ کے الفاظ کہے جاتے تھے دوسرے نے کہا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آخر وقت تک باغِ فدک کو اپنا حق سمجھتی رہیں میں نے کہا کہ تم دونوں نے ان پاک ہستیوں پر بہتان باندھا ہے اور یہ دونوں باتیں غلط ہیں میں نے غصہ میں یہ بھی کہ دیا کہ تم دونوں کے روزے ٹوٹ گئے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ یہ بات ثابت کرو آپ تحریر فرمائیں کہ مسئلہ کی رو سے ان کا روزہ ٹوٹ گیا یا قائم رہا جوالہ بھی تحریر کریں؟
سوال پوچھنے والے کا نام: محمد علی از شیخو پورهجواب:
آپ کے دوستوں نے یہ دونوں باتیں غلط کی ہیں وہ دونوں شیعہ ہوں گے مذکورہ بالا کلمات بارہ اماموں میں سے کسی کی اذان میں ہرگز نہ تھے یہ بہت بعد کی پیداوار اور شیعہ کے فرقہ مفوضہ کی ایجاد میں علامہ ابنِ بابویہ قمی نے ایسے لوگوں پر لعنت بھی کی ہے۔
(دیکھیٔے من لا یحضرہ الفقیہ مطبوعہ ایران)۔
حضرت فاطمہؓ پر بہتان ہے کہ وہ آخر دم تک باغِ فدک کو اپنا حق سجھتی رہیں اگر ایسا ہوتا اور وہ واقعی سیدنا صدیق اکبرؓ سے ناراض ہوتیں تو پھر باغِ فدک کی آمدنی کبھی قبول نہ کرتیں حالانکہ ان سب حضرات کا خرچ باغِ فدک کی ہی آمدنی سے ادا ہوتا تھا باقی رہا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا کلام فرمانا تو اس کے لیے ناراضگی ضروری نہیں یہ محض گمان اور ظن و تخمین ہے سیدہ فاطمہؓ کی عادت شریفہ تھی کہ جب وہ سمجھ لیں کہ یہ حق نہیں بنتا تو پھر وہ اس کے لیے کلام نہ کرتیں بلکہ کلام نہ کرنے کا اعلان فرما دیتیں ایک دفعہ ازواج مطہراتؓ نے سیدہ فاطمہؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اس لیے بھیجا کہ آنحضرتﷺ کی توجہ سیدہ عائشہؓ کی طرف ان کے حق سے کچھ زیادہ ہے سیدہ فاطمہؓ حضور اکرمﷺ کے پاس گئیں اور بات عرض کی حضور اکرمﷺ نے فرمایا:
ای بنیہ ألست تحبين لمن احب۔
ترجمہ: اے میری بیٹی جس سے میں محبت کروں کیا تم اس سے محبت نہ کرو گی۔
سیدہ فاطمہؓ نے کہا کیوں نہیں اس پر حضورﷺ نے فرمایا کہ پھر تم بھی سیدہ عائشہؓ سے محبت رکھو۔
سیدہ فاطمہؓ نے واپس آ کر ازواجِ مطہراتؓ کو اس بات چیت سے مطلع کیا انہوں نے سیدہ فاطمہؓ کو ایک دفعہ پھر حضور اکرمﷺ کی خدمت میں جانے کے لیے کہا سیدہ فاطمہؓ سمجھ چکی تھیں کہ ازواجِ مطہراتؓ جس بات کو اپنا حق سمجھتی ہیں وہ اُن کا حق نہیں بنتا سننِ نسائی جلد ثانی باب عشرۃ النسار میں ہے:
قالت فاطمةؓ لاواللّٰه لا اكلمه فيها ابدا۔
(سننِ نسائی جلد 2 صفحہ 78)۔
ترجمہ: سیدہ فاطمہؓ نے کہا کہ خدا کی قسم میں اس باب میں آپ سے یعنی حضور اکرمﷺ سے کبھی بھی کلام نہ کروں گی۔
اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہؓ کا کلام نہ کرنا کسی ناراضگی کی وجہ سے نہیں ہوتا تھا بلکہ جب وہ سمجھ لیں کہ یہ حق نہیں بنتا تو پھر وہ اس باب میں کبھی کلام نہ فرماتیں بلکہ کلام نہ کرنے کا اعلان فرما دیتیں یہاں یہ شبہ نہ کیا جا کے کہ آنحضرتﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کو واپس کیوں لوٹایا کیا سیدہ فاطمہؓ کا پیغام حق پر مبنی نہ تھا؟۔
اس لیے کہ آنحضرتﷺ کا اپنا فیصلہ اور ارشادات شریعت کی اصل ہے اس کے خلاف جو بات بھی ہو خواہ ازواجِ مطہراتؓ کا مطالبہ یا سیدہ فاطمہؓ کا پیغام ہر ایک کی تائید کی جائے گی اور ارشاد نبوت کو اپنی جگہ حق اور ہر ایک کے لیے نافذ اور صحیح سمجھا جائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب۔
باقی رہا آپ کا یہ کہنا کہ سیدنا رضا اور سیدہ فاطمہؓ پر بہتان باندھنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یہ صحیح نہیں۔ شیعہ مذہب کی رو سے سیدنا رضاؒ پر جھوٹ باندھنے سے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن سیدہ فاطمہؓ پر جھوٹ باندھنے سے شیعہ مذہب میں روزہ نہیں ٹوٹتا نجف اشرف کے مجتہد اعلیٰ ملاکاظم خراسانی ذخیرۃ العباد میں یہ لکھنے کے بعد کہ ائمہ طاہرین پر جھوٹ باندھنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے پھر لکھتے ہیں:
باقی انبیاء اور اوصیاء اور سیدہ صدیقہ طاہرہ فاطمۃ الزہراؓ پر جھوٹ باندھنے میں اشکال ہے اگرچہ اقوی عدم الحاق ہے یعنی رسول اللہﷺ اور اںٔمہ کے حکم میں نہیں ہے۔
(ذخیرۃ العباد صفحہ179)۔
اس سے یہ بات واضح ہے کہ شیعہ مذہب میں سیدہ فاطمہؓ پر چھوٹ باندھنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا لیکن سیدنا رضا پر عمداً جھوٹ باندھنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ افسوس کہ ان لوگوں کے نزدیک سیدہ فاطمہؓ کا درجہ سیدنا رضا کے برابر بھی نہیں حالانکہ سیدہ فاطمہؓ آنحضرتﷺ کی براہِ راست لخت جگر ہیں اور انہیں آنحضرتﷺ کی صحابیہ ہونے کا بھی شرف حاصل ہے اور ظاہر ہے کہ سیدنا رضا صحابی ہرگز نہ تھے انہیں سیدہ فاطمہؓ پر ترجیح دینا یہ بات ہمیں سمجھ میں نہیں آتی۔
واللہ اعلم بالصواب۔
كتبہ خالد محمود عفا اللّٰه عنہ۔