Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

مشکوٰۃ باب المساجد میں سیدنا ابنِ عباسؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ‎ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ لعن الله زائرات القبور والمتخذين عليها المساجد والسرح۔ (مشکوٰۃ صفحہ71)۔

ترجمہ: لعنت کی الله تعالیٰ نے ان عورتوں پر جو قبروں کی زیارت کرتی ہیں اور ان لوگوں پر لعنت فرمائی جو قبروں پر سجدے کرتے ہیں اور ان پر جو چراغ جلاتے ہیں۔

اس پر سوال یہ ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ اور حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا بھی حضور اکرمﷺ‎ کی قبر پر زیارت کے لیے جاتی رہیں اس کی کیا وجہ ہے جنت البقیع میں بھی عورتوں کا جانا ثابت ہے؟۔

2۔ پختہ قبروں اور روضوں کی حدیث میں ممانعت ہے لیکن حضورﷺ‎ اور اکثر اولیاء اللہ کے روضے پختہ بنے ہوتے ہیں؟۔

3۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور نبی کریمﷺ‎ کا سایہ نہ تھا حالانکہ انسان کا تو سایہ ضرور ہوتا ہے وہ پاک ذات سایہ سے کیوں محروم تھی۔

ان تینوں سوالوں کے جوابات دیجیۓ۔

سوال پوچھنے والے کا نام:   یار محمد خان الکافی بلوچ بٹی سولگیاں تحصیل جام پور ضلع ڈیرہ غازی خاں

جواب:

آپ نے زیارتِ قبور کی جو حدیث نقل کی ہے اسے بعض اہلِ علم اپنے ظاہر پر محمول قرار دیتے ہیں لیکن جمہور علماء اس میں تاویل کے قائل ہیں اور اس منع سے مراد وہ رسم لیتے ہیں جو آج کل عام طور پر راںٔج ہے کہ عورتیں بن سنور کر ایک رونق اور شغل کے طور پر درگاہوں اور مقابر پر حاضر ہوتی ہیں اور پھر اس طریق عمل پر اس قدر اصرار اور اہتمام ہوتا ہے کہ ایسے اجتماع بسا اوقات بڑے بڑے فتنوں کا سبب بن جاتے ہیں مقاماتِ عبرت پر اس قسم کے تفریحی انداز اور زیادہ مذموم ہیں اور پھر اس کا بھی بہت زیادہ احتمال رہتا ہے کہ عورتیں رقت کی زیادتی سے کچھ واویلا قسم کی آوازیں نکالنے لگیں جو شرعاً ہرگز جائز نہیں علامہ قرطبی حدیث مذکور کی تشریح اس طرح کرتے ہیں:

اللحن المذكور فی الحديث انما هو المكثرات من الزيارة لما تقتضيه الصيغة من المبالغة ولعل السبب ما يقضى اليه ذلك من تضييع حق الزواج والتبرج وما ينشاء من الصياح۔ (کذا فی الفتح جلد2 صفحہ 512)۔

اگر یہ احتمالات اور عادات کسی حلقے میں نہ پائے جائیں اور عورتیں پورے دینی احترام اور اپنے تحفظ سے کبھی کبھی زیارت قبور کرلیں تو یہ جائز بلکہ مندوب و مستحسن ہے جو طریق ممنوع ہے وہ محض برسبیل رواج اور بطریقِ استمداد و احتیاج ہے عورتوں کے لیے قبور کی مطلق زیارت ہرگز منع نہیں اور اس جواز کے شواہد یہ ہیں۔

1۔ صحیح سلم میں ہے سیدہ عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے آنحضرتﷺ‎ سے عرض کیا۔ 

كيف اقول يا رسول اللہﷺ‎ اذا ذرات القبور۔

ترجمہیا رسول اللہﷺ‎ میں جب کبھی کسی قبرستان کی زیارت کروں تو کیا کہوں۔

اس پر حضورﷺ نے فرمایا:

قولی السلام على اهل الديار من المؤمنين۔ 

(صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 314)

ترجمہ: تم یہ دعا کرو السلام على اهل الديار من المؤمنين۔

2۔ صحیح بخاری میں ہے کہ آنحضرتﷺ‎ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر کے قریب رو رہی تھی آپ نے فرمایا:

اتقى اللّٰه واصبری۔ 

(صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 171)۔

ترجمہ: الله سے ڈرتی رہو اور صبر سے کام لو۔

3۔ مستدرک حاکم میں ہے کہ سیدہ فاطمۃ الزہراؓ سیدنا حمزہؓ کی قبر کی ہر جمعہ زیارت کرتی تھیں ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ مطلق زیارت قبور عورتوں کے لیے منع نہیں جو امر منع ہے وہ وہی طریق مذموم ہے جس کی تفصیل اوپر مذکور ہے حضرت علامہ ابنِ عابدین شامی میں تطبیق بین الروایات میں ارشاد فرماتے ہیں۔

قال الخير الرملى ان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ماجرت به عادتھن فلا تجوز و عليه حمل حديث لعن اللّٰه زائرات القبور وان كان الاعتبار والترحم من غير بكاء والتبرك وزيارة قبور الصالحين فلا بأس اذا كن عجائز ويكره اذا كن شواب الحضور الجماعت في المساجد۔ 

(رد المختار الابن عابدین الشامی جلد)۔

معلوم ہوا کہ عورتوں کے لیے بھی زیارت قبور کے بعض ایسے مواقع موجود ہیں جنہیں شریعت نے استحسان اور پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔

باقی رہا سیدہ صدیقہ اور حضرت سیدہ رضی اللّٰه عنہما کا روضہ گنبد خضراء کی زیارت کرنا سو یہ محض زیارت قبور نہیں، بلکہ اس دربار عالی وقار میں حاضری ہے۔ جہاں حضور اکرمﷺ‎ نہایت عظیم و لطیف حیات کریمہ برزخیہ سے زندہ موجود ہیں چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جب سیدنا فاروق اعظمؓ اس روضہ جنت میں فروکش ہوئے تو سیدہ ام المؤمنین عائشہؓ وہاں پردے میں حاضر ہونے لگیں۔ 

(رواہ احمد اسنادہ صحیح)۔

آنحضرتﷺ‎ کے ارشاد کے مطابق قبریں عبرت کی جگہ اور موعظہ آخرت میں یہ زینت اور آرائش کا محل نہیں قبر اپنی معنوی حیثیت میں ایک فنا کا نشان ہے اس کے برعکس تزین بقاء کی ایک علامت ہے فنا اور بقا ایک دوسرے کی ضد ہیں اور قبروں کو پختہ کرنا اجتماع ضدین کا ایک عنوان ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام میں قبروں کو پختہ کرنے کی اجازت نہیں امام الائمہ حضرت امام محمدؒ ارشاد فرماتے ہیں:

ان النبیﷺ‎ نهى عن تربيع القبور و تجصيصها قال محمد به ناخذو هو قول الى حنيفةؒ۔ 

(کتاب الآثار صفحہ 96۔97)۔

ترجمہ آنحضرتﷺ‎ نے قبروں کو مربع کرنے اور انہیں پختہ بنانے سے منع کیا ہے یہی میری تحقیق ہے اور یہی امام ابوحنیفہؒ کا فیصلہ ہے۔

فقہ حنفی کی معتبر کتاب فتاویٰ قاضی خاں میں ہے:

ولا تجصص القبرقان النبیﷺ‎ انه نهى عن التجصيص و التفضيض ومن بناء فوق القبر۔ 

(فتاویٰ قاضی خاں جلد 1 صفحہ 92)۔

ترجمہ: قبروں کو پختہ نہ کیا جائے کیونکہ آنحضرتﷺ‎ نے قبروں کو پختہ بنانے انہیں سجانے اور ان پر عمارت بنانے سے منع فرمایا ہے۔

فاضل حلبی کبیری شرح منیہ میں رقم طراز ہیں:

ویكره تجصيص القبر و تطیینه وبه قالت الأمة الثلاتة وعن ابی حنيفةؒ انه كان یبنی عليه بناء۔ 

(غنیہ المستمبلی صفحہ 599)۔

ترجمہ: قبروں کو پختہ بنانا اور ان کی لپائی کرنا ہرگز جاںٔز نہیں اور یہی ہمارے تینوں اماموں کا فصیلہ ہے حضرت امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ قبر پر کسی قسم کی عمارت بنانا جائزہ نہیں۔

علامہ شامی لکھتے ہیں:

اما البناء فلم ارمن اختار جوازة۔ 

(رد المختار جلد 1 صفحہ 101)۔

ترجمہ: قبر پر عمارت بنانے کے متعلق میں نہیں جانتا کہ کسی نے اسے جائز کہا ہو۔

فتح القدیر شرح ہدایہ جلد 4 صفحہ 472 اور فتاویٰ عالمیگری جلد 1 صفحہ 176 میں بھی یہ مسئلہ اسی طرح مرقوم ہے واللہ اعلم بحقيقۃ الحال۔

باقی رہی یہ بات کہ آنحضرتﷺ کے روضہ اطہر پر بھی تو عمارت موجود ہے سو یہ امر آنحضرتﷺ‎ کے ارشاد اور فقہائے کرام کے فیصلوں کے خلاف نہیں کیونکہ جو بات ممنوع ہے وه "بناء على القبر" ہے اور جو امر ثابت ہے وہ "قبر فی البناء" ہے. بناء على القبر قبر فی البناء میں بہت فرق ہے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ‎ نے ارشاد فرمایا:

ما فن نبی قبط الا فى مكانه الذی توفی فيه۔ 

(مؤطا امام مالک صفحہ 212)۔

ترجمہ: نبی صرف اسی جگہ دفن کیا جاتا ہے جہاں اس کی وفات ہوئی ہو۔

سیدنا صدیق اکبرؓ نے اس حدیث سے اسی موقع پر استدلال کیا تھا جب کہ آنحضرتﷺ‎ کو دفن کرنے کا مسئلہ در پیش تھا اور حضور اکرمﷺ‎ کے اس ارشاد کی رو سے وہیں دفن ہوئے جہاں آنحضرتﷺ‎ پر وفات شریفہ کا ورود ہوا چونکہ وہاں پر پہلے سے عمارت موجود تھی اس لیے آنحضرتﷺ‎ کا روضہ "قبر فی البناء" کا مصداق ہوا اور ظاہر ہے کہ اس میں اور "بناء علی القبر" میں بہت فرق ہے بایں ہمہ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مقابر مسلمین بالخصوص قبور صالحین کا احترام اپنے اپنے مراتب پر بہت ضروری ہے اور جس طریق سے ان کی عزت اور وقار پر کوئی حرف آتا ہو اس سے بچنا از بس لازم ہے واللہ اعلم بالصواب۔

2۔ آنحضرتﷺ‎ کا سایہ تھا یا نہیں یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ اس پر نجاتِ ایمان یا ہدایت کامدار ہو اگر انحضرتﷺ‎ کا سایہ ہو تو اس سے آپ کی شانِ عظمت میں کو فرق نہیں آجاتا اور اگر سایہ نہ ہو تو اس سے توحید و سنت کے کسی ضابطے پر کوئی حرف نہیں آتا اگر ہم آنحضرتﷺ‎ کے آسمانی معراج اور شقُ القمر جیسے معجزات کو صحیح تسلیم کر سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ کے سایہ نہ ہونے کو خرقِ عادت کے طور پر تسلیم کر لے میں ہمیں کوئی انقباض ہو مدار تحقیق صرف یہ ہے کہ سایہ نہ ہونا کسی حدیث یا روایت سے ثابت ہے یا نہ؟ وہ نقوش قدسیہ جو آنحضرتﷺ‎ کے حضور میں حاضر و موجود تھے وہ اس حیرت انگیز واقعہ کو روایت کرتے ہیں یا نہیں اس لحاظ سے یہ خالص علمی تحقیق ہے کوئی مسلکی موضوع نہیں جو قطعیات پر اثر انداز ہو یا اس کا ضروریات اہلِ سنت سے کسی قسم کا تصادم ہو پھر یہ بھی پیش نظر ہے کہ سایہ نہ ہونے کا موقف اختیار کرنےکے لیے اسے بطورِ معجزہ یا خرقِ عادت تسلم کرنا چاہئے نہ کہ بطورِ عادت اور طبعیت کیونکہ اسی صورت میں یہ معجزہ نہیں بلکہ فطرت کا ایک طبعی انداز شمار ہوگا پانی بلور اور روشنی کا اگر سایہ نہیں تو ان اجسام کی فطرت اور طبیعت ہے معجزہ نہیں معجزہ اسے کہتے ہیں جو اصل طبیعت اور عادت کے خلاف ہو یہی وجہ ہے کہ معجزے کو خرقِ عادت کہا جاتا ہے آگ کی طبیعت اور عادت ہے کہ جلائے پس اگر یہ خرقِ عادت کے طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے گلزار بن جائے تو یہ یقیناً معجزہ ہوگا سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ‎ کا سایہ نہ ہونے کا موقف اسے حضورﷺ کی طبیعت قرار دینے کی وجہ سے ہے یا بطور خرق عادت اسے ایک معجزے کی حیثیت میں تسلیم کیا جاتا ہے سو احقر کا موقف اس مسئلہ میں یہ ہے یہ ہے کہ اُسے بطورِ معجزہ تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ امر واقع کںٔی معتبر روایت سے ثابت ہو

جہاں تک حدیث یا روایت کا تعلق ہے احقر کی نظر سے کوئی صحیح یا ضعیف حدیث اس مسئلہ میں نہیں گزری کہ آنحضرتﷺ‎ کا سایہ نہ تھا ہاں حکیم ترمذی کی کتاب نوادر الاصول میں ایک ضعیف روایت ملتی ہے کہ آنحضرتﷺ‎ کا سایہ دکھا نہیں جاتا تھا تو یہ امرِ دیگر ہے سایہ نہ ہونا اور بات ہے اور سایہ نہ دیکھا جانا اور بات ہے سایہ نہ ہونا سائے کی حقیقت اور سائے کے وجود کا انکار ہے اور سایہ دیکھا نہ جانے کے اور بھی کئی وجوہ ہو سکتے ہیں مثلاً:

1۔ آنحضرتﷺ‎ کی تکریم میں آپﷺ پر بادل سایہ کئے رکھے اور آپ سورج کے محاذات میں ہی نہ آئیں کہ آپ کا سایہ پڑنے کا سوال پیدا ہو اس شانِ اعزاز کا ثبوت بعض اور روایات سے ملتا ہے۔ 

2۔ آپ کا سایہ خرقِ عادت کے طور پر اس لیے دیکھا نہ جاسکے کہ حضورخاتم النبیینﷺ‎ کی شان یکتائی ہر ممکن مثال سے بلند و بالا ہے اور اللہ رب العزت آپ کو اس طرح بے نظیر رکھے کہ آپ کا سایہ بھی کہیں دیکھا نہ جاسکے کیونکہ سایہ بھی اپنے اصل کی نقل ہوتا ہے اور ایک سے جب دو ہوئے تو دو میں یکتائی میں

اس کا حاصل یہ ہے کہ حضور ختمی مرتبتﷺ‎ کے بعد کسی شخص کو آپ کے تعلق سے ظلی نبی کہلانے کی جرات نہ ہو سکے۔ 

3۔ آپ ہر وقت اس طرح ملبوس رہتے ہوں کہ آپ کے کپڑوں کا سایہ تو پڑتا ہو لیکن آپ کے بدنِ اطہر کا سایہ کبھی نہ دیکھا گیا ہو جو سایہ عام طور پر نظر آتا ہے وہ کپڑوں کا ہی ہوتا ہے اگر کسی بلورین وجود کو بھی یہ انسانی لباس پہنا دیے جائیں تو باوجود یکہ بلور کا صریح سایہ نہیں ہوتا اس بلور ملبوس کا بھی سایہ نظر آنے لگے گا اور حضورﷺ‎ کا اس طرح حیا اور وقار کے پیکر تھے کہ ہروقت ملبوس رہنے کے سبب آپ کے بدن اطہر کا سایہ کبھی نہیں دیکھا گیا۔

4۔ آپ کا سایہ زمین پر اس لیے نہ پڑتا ہو کہ اس سائے کی بھی کہیں بے ادبی نہ ہو اور کسی پاس بیٹھے یا کھڑے ہونے والوں کا پاؤں سایہ مبارک پر نہ آسکے اس احتمال کے سدِ باب کے لیے شان اعجاز یوں ظاہر ہوتی کہ آپ کا سایہ کبھی دیکھا ہی نہیں گیا۔

بہرحال اس کے اور بھی کئی وجوہ ہو سکتے ہیں اور ان سب کا مدار سایہ نہ ہونے پر نہیں نہ دیکھا جانے پر ہے حکیم ترندی کی مذکورہ سابقہ روایت کے الفاظ اصل یہ ہیں:

لم يكن يرى له ظل في شمس ولا في قمر ولا يرى اثر قضاء حاجة۔ 

(نوادر الاصول)۔

علامہ سیوطیؒ نے اس حدیث پر یہ باب باندھا ہے۔ باب المعجزة في بوله وفائطهﷺ‎۔ 

(خصائص کبری جلد 1 صفحہ 71 مطبوعہ دائره المعارف)۔

اس روایت کا پہلا راوی عبدالرحمٰن بن قیس زعفرانی نہایت ضعیف اور جھوٹی قسم کا راوی ہے علماء نے اس پر وضع حدیث (حدیث گھڑنے) کا الزام بھی لگایا ہے۔ راوی عبدالملک بن عبد الولید بھی مجہول المحدث ہے۔ سو اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ یہ حدیث احتجاج اور استناد کے لائق نہیں ہاں اس روایت کو بالاۓ طریق رکھ کر کے بعض بزرگوں کے بیانات کے پیش نظر اگر سایہ نہ ہونے کا موقف اختیار کرنے کی بجائے سایہ دیکھانے کا موقف اختیار کر لیا جائے اور وہ بھی بر سبیل معجزہ نہ کہ بر سبیل طبیعت اور فطرت تو احقر کے نزدیک قواعد ثا سے کا کوئی تصادم نہیں حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰن صاحب نے حضرت مولانا جامیؒ سے اس بات میں ایک عجیب نکتہ نقل کیا ہے۔ 

پیغمبر ما نداشت سایه

تا شک بدل یقین نفیستد

یعنی ہر کس کہ پیرو اوست

پیداست کہ با زمیں نفیستند۔ 

(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند جلد 8 صفحہ 202)۔

واللّٰہ اعلم بالصواب۔

کتبہ خالد محمود عفا اللہ عنه 6 مارچ 1964ء۔