Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

اصحابِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف سب سے پہلے بوجھ کن دلوں میں آیا تھا؟ یہ وہ کون لوگ تھے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے وقار دنیوی کے نیچے دب کر رہ گئے؟ بغض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سب سے پہلے کن سینوں میں اُترا اور پھر ان کا ظاہری انجام دنیا نے کیا دیکھا اس کی تفصیل فرما دیں؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   معاویہ

جواب:

قرآنِ کریم کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحاب رسولﷺ کے خلاف سب سے پہلے بوجھ یہود کے دلوں پر اترا یہ اس وقت کی بات ہے جب آنحضرتﷺ ابھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے نہ اس وقت تک کوئی خلافتوں کی بحث چلی تھی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے کہنے پر اللہ تعالیٰ کے حضور ایک دعا کی تھی:

وَاكۡتُبۡ لَنَا فِىۡ هٰذِهِ الدُّنۡيَا حَسَنَةً وَّفِى الۡاٰخِرَةِ اِنَّا هُدۡنَاۤ اِلَيۡكَ ‌ؕ قَالَ عَذَابِىۡۤ اُصِيۡبُ بِهٖ مَنۡ اَشَآءُ‌ ۚ وَرَحۡمَتِىۡ وَسِعَتۡ كُلَّ شَىۡءٍ‌ ؕ فَسَاَكۡتُبُهَا لِلَّذِيۡنَ يَتَّقُوۡنَ۝ اَلَّذِيۡنَ يَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِىَّ الۡاُمِّىَّ الَّذِىۡ يَجِدُوۡنَهٗ مَكۡتُوۡبًا عِنۡدَهُمۡ فِى التَّوۡرٰٮةِ وَالۡاِنۡجِيۡلِ الخ۔

 (پارہ 9 سورۃ الاعراف آیت 156۔157)۔

ترجمہ: اور تو ہمیں اس دنیا میں بھی خوشحالی دے اور آخرت میں بھی بیشک ہم تیری طرف چل نکلے ہیں فرمایا میرا عذاب ہے جس پر چاہوں ڈالوں اور میری رحمت ہر چیز پر وسعت لے گئی سو میں اسے انہی کے نام لکھوں گا جو تقویٰ رکھتے ہوں اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو اس رسول کی پیروی کریں گے جو نبی اُمی کہلائے گا اور جس کی خبریں تورات اور انجیل میں لکھی آرہی ہیں۔

گزشتہ صحاںٔف میں خبر چلی آرہی تھی کہ ایسا رسول دنیا میں پیدا ہوگا جس کے پیروؤں کو سعادت اخروی کے ساتھ ساتھ ساتھ وجاہت دنیوی بھی پوری شان سے ملے گی تو قوم بنی اسرائیل نے چاہا کہ یہ دونوں سعادتیں ہمیں کیوں نہ مل جائیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے لیے دعا مانگی تو الله تعالیٰ کی طرف سے جواب ملا یہ تحصیل سعادتین تمہارے لیے نہیں یہ صرف رسول امی کے پیروؤں کو ملے گی حضرت موسیٰ علیہ السلام تو الله تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر تھے انہوں نے اللہ تعالیٰ 

 کے فیصلے کو برچشم مانا لیکن یہودیوں کے دلوں میں اسی دن سے اصحابِ رسولﷺ کے خلاف ایک کانٹا چبھ گیا ایک بوجھ آگیا ہائے ہم نے جو مقام اپنے لیے مانگا وہ اس نبی امی کے پیروؤں کو کیوں مل گیا اور ہم یونہی رہ گئے۔

یہ آپ کے سوال کے پہلے حصے کا جواب ہے کہ اصحابِ رسولﷺ کے خلاف سب سے پہلے یہ بغض و عناد یہودیوں کے دلوں میں پیدا ہوا تھا اب دوسرے حصہ کا جواب ملاحظہ ہو: 

 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بغض رکھنے والوں کا انجام:

وہ قوم جو الله تبارک و تعالیٰ سے یہ ارفع ترین مقام طلب کر رہی تھی جب پستی میں گری تو اس قدر گری کہ قعرِ مذلّت میں گرتی ہی چلی گئی ایسی ذلت ان کا مقدر بنی کہ ایک جانور کا جلوس نکالا اپنے ہاتھوں سے گائے کے قد و جسم کا ایک جانور بنایا پھر اسے قوم کے زیورات پہنائے بعد ازاں پوری قوم مل کر عقیدت سے اس کے آگے جھکی قرآن کریم میں ہے:

وَاتَّخَذَ قَوۡمُ مُوۡسٰى مِنۡۢ بَعۡدِهٖ مِنۡ حُلِيِّهِمۡ عِجۡلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ‌ ؕ اَلَمۡ يَرَوۡا اَنَّهٗ لَا يُكَلِّمُهُمۡ وَلَا يَهۡدِيۡهِمۡ سَبِيۡلًا ۘ اِتَّخَذُوۡهُ وَكَانُوۡا ظٰلِمِيۡنَ۝۔ 

(پارہ 9 سورۃ الاعراف آیت 148)۔

ترجمہ: اور قوم موسیٰ نے ان کے پیچھے اپنے زیورات سے ایک بچھڑا کھڑا کرلیا ایک بدن تھا جس میں گائے کی سی آواز تھی کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ وہ ان سے نہ کوئی بات کرتا ہے اور نہ انہیں کوئی راہ بتلا سکتا ہے انہوں نے اسی کو اپنا معبود بنالیا اور مجھے وہ ظالم۔

شیخ الاسلام لکھتے ہیں:

یہاں ان کی سفاہت و حماقت پر متنبہ فرمایا ہے کہ ایک خود ساختہ ڈھانچہ میں سے گائے کی آواز سن لینے پر مفتون ہوگئے اور پچھڑے کو خدا سمجھ بیٹھے حالانکہ اس کی بے معنیٰ آواز میں نہ کلام و خطاب تھا نہ دینی و دنیوی راہنمائی اس سے ہوتی تھی اس طرح کی صورت محض تو کسی چیز کو انسانیت کے درجہ تک بھی نہیں پہنچا سکتی چہ جائیکہ خالق جل وعلا کے رتبہ پر پہنچا دے یہ کتنا بڑا ظلم اور بے موقع کام ہے کہ ایک معمولی جانور کی صورت کو خدا کہ دیا جائے"

اس قوم کا بھی عجب حال ہے کہ نہ مانیں تو اصحابِ رسولﷺ کو نہ مانیں ان کے خلافتوں اور رفعتوں پر چلیں اور ماننے پر آئیں تو ایک تو ایک جانور کا جلوس نکالیں اس پر قوم کے زیورات نچھاور کریں اُسے مولا کہہ کر اس سے مرادیں مانگیں اور اسے اپنا خدا قرار دیں فرشتے بھی اس قوم کی ہلاک سامانیوں اور ذہنی بربادیوں پر حیران ہوں گے۔

اس قوم کے سر براہ کا نشان تھا کہ خاک شفا اٹھائے پھرتا تھا کہاں سے؟ روح الامین کے قدموں کے نشانات سے پھر اسے اس جانور پر نچھاور کی گیا جو خود ہی بنایا تھا سامری کے پیروں اس سے پہچانے جاتے ہیں کہ مٹی کی ٹکیاں ساتھ لیے پھرتے ہیں اور سمجتے ہیں کہ ان کے سوا ہماری عبادت قبول نہیں ہوگی قرآنِ حکیم میں ہے:

قَالَ بَصُرۡتُ بِمَا لَمۡ يَـبۡصُرُوۡا بِهٖ فَقَبَـضۡتُ قَبۡضَةً مِّنۡ اَثَرِ الرَّسُوۡلِ فَنَبَذۡتُهَا وَكَذٰلِكَ سَوَّلَتۡ لِىۡ نَفۡسِى۝۔

(پارہ 16 سورۃ طٰهٰ آیت 96)۔

ترجمہ: بولا میں نے دیکھ لیا جو اوروں نے نہ دیکھا پھر بھری میں نے ایک مٹھی پاؤں کے نیچے سے اس بھیجے ہوئے کے پھر میں نے وہی ڈال دی اور یہی صلاح دی مجھ کو میرے جی نے۔ 

شیخ الاسلامؒ لکھتے ہیں:

سامری نے کہا مجھ کو ایک ایسی چیز نظر پڑی جو اوروں نے نہیں دیکھی یعنی خدا کے بھیجے ہوئے فرشتہ (جبریل) کو گھوڑے پر دیکھا شاید یہ اس وقت ہوا ہو جب بنی اسرائیل دریا میں گھسے اور پیچھے پیچھے فرعون کا لشکر گھسا اس حالت میں جبریل دونوں جماعتوں کے درمیان کھڑے ہوگئے تاکہ ایک کو دوسرے سے ملنے نہ دے بہرحال سامری نے کسی محسوس دلیل سے یا وجدان سے یا کسی قسم کے تعارف سابق کی بناء پر سمجھ لیا یہ جبریل ہیں ان کے پاؤں یا ان کے گھوڑے کے پاؤں کے نیچے سے مٹھی بھر مٹی اٹھالی وہی اب سونے کے بچھڑے میں ڈال دی کیونکہ اس کے جی میں یہ بات آئی کہ روح القدس کی خاک پا میں یقیناً کوئی خاص تاثیر ہوگی حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ سونا تھا کافروں کا مال لیا ہوا فریب سے اس میں مٹی پڑی برکت کی حق اور باطل مل کر ایک کرشمہ بن گیا۔

جب کسی قوم کی عقل ماری جائے تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے انسان اشرف المخلوقات ہو کر گائے کو پوجنے لگتا ہے گھوڑے کی سالانہ پوجا کرتا ہے کئی قومیں سانپ کی پرستش کرتی ہوئی دیکھی گئی ہیں لیکن وہ لوگ جو اصحابِ رسولِ اکرمﷺ‎ کے خلاف بغض لے کر اُٹھے آپ نے ان کا انجام دیکھ لیا ہے مٹی کی ٹکیاں اٹھائے ہوئے کس طرح جانور کے گرد جبیں عقیدت جھکائے جارہے ہیں یہ عمل پیغمبر کی نگاہ میں کیسا تھا قرآنِ کریم سے معلوم کیجئے۔

وَلَمَّا رَجَعَ مُوۡسٰٓى اِلٰى قَوۡمِهٖ غَضۡبَانَ اَسِفًا ۙ قَالَ بِئۡسَمَا خَلَفۡتُمُوۡنِىۡ مِنۡۢ بَعۡدِىۡ الخ۔ 

(پارہ9 سورۃ الاعراف آیت 150)۔

ترجمہ: اور جب موسیٰ اپنے قوم میں واپس لوٹے غصہ میں بھرے ہوئے افسوسناک کہا تم نے میری بری جانشینی کی ہیں۔

یعنی میرے بعد تم نے اس جانور کو مولا بنانے کا جو عمل کیا ہے تم نے بہت برا کیا ہے اس حیوان عاجز کو متبرک اور مولا سمجھنا اور اس پر عقیدتیں قربان کرنا تمہارا یہ عمل درست نہیں۔ 

 جانور کو مولا بنانے پر پیغمبر نے کیا سزادی؟

پھر موسیٰ علیہ السلام نے بحکم ایزدی ان یہودیوں کو یہ سزا سنائی:

 اِنَّكُمۡ ظَلَمۡتُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ بِاتِّخَاذِكُمُ الۡعِجۡلَ فَتُوۡبُوۡآ اِلٰى بَارِئِكُمۡ فَاقۡتُلُوۡٓا اَنۡفُسَكُمۡؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ عِنۡدَ بَارِئِكُمۡؕ الخ۔ 

(پارہ1 سورۃ البقره آیت 54)۔ 

ترجمہ: تم نے نقصان کیا اپنا یہ بچھڑا بنا کر سو اب توبہ کرو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف اور مارو اپنے آپ کو یہ بہتر ہے تمہارے لیے تمہارے خالق کے نزدیک۔

آیت ہذا میں بنی اسرائیل کو جانور کو مولا بنانے کی یہ سزا سنائی گئی کہ اپنے آپ کو مارو اپنے آپ کو پیٹو سینہ کوبی کرو اپنے پر تلواریں برساؤ اپنے ہاتھ اور اپنے خنجر سے اپنے سینٹے زخمی کرو کیونکہ جانور کو مولا بنانے اور اس کا جلوس نکالنے کی یہی ہے سزا ہے وہ جانور گائے ہو یا گھوڑا سزا ایک ہی ہے مقام غور ہے ایک انسان کی فطرت سلیمہ کبھی جانور کے آگے جھکنا پسند نہیں کرتی عام انسان کے لیے بھی یہ کام انتہائی عجیب ہے مذہب کے نام پر یہ کھیل کتنا گھناؤنا ہوگا الله پاک نے اس کی سزا خوب تجویز کی کہ اب اپنے آپ کو مارو تاکہ قیامت تک یہ لوگ اپنے آپ کو مارتے نظر آئیں حق یہ ہے کہ الله کی ذات اقدس کے علاوہ کسی جانور کے سامنے جھکنا انسان کی انتہائی خِست ہے۔

 شریعت موسوی اور شریعت محمدیﷺ میں فرق:

یہ سزا موسیٰ علیہ السلام نے سنائی یہ ان کی شریعت کے موافق ہے حضور خاتم النبیینﷺ کی شریعت میں اپنے آپ کو مارنا جائز نہیں قرآنِ کریم میں آنحضرتﷺ کے بارے میں کہا گیا ہے۔

وَلَا يَعۡصِيۡنَكَ فِىۡ مَعۡرُوۡفٍ‌ الخ۔ 

(پارہ 28 سورۃ الممتحنہ آیت 12)۔

ترجمہ: اے میرے پیغمبر یہ کسی بات میں تیری نافرمانی نہ کریں۔

وہ بات کیا ہے جو حضورِ انورﷺ نے اس کے تحت میں ارشاد فرمائی سنئے:

لا تلطمن خدا ولا تخمشن وجها ولا تنتفن شعرا ولا تشققن جيبا ولا تسودن ثوبا۔ 

(فروع کافی جلد 2 صفحہ 228)۔

ترجمہ: چہرے پر تھپڑ نہ مارو نہ چہرہ چھیلو نہ بال نوچو نہ گریبان چاک کرو اور نہ سیاہ کپڑے پہنو۔

سو اس شریعت میں اپنے آپ کو وہ سزا دینا جائز نہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہود کے لیے تجویز کی تھی افسوس کہ ان کے پیرو اب تک اس طریقِ ماتم کو اپنا قومی حق اور اپنے آپ کو مارنا اپنا مذہبی حق سمجھتے ہیں اور اس کے لیے باقاعدہ لائسنس حاصل کرتے ہیں۔

حاصل بحث یہ ہے کہ جن لوگوں نے دلوں میں اصحابِ رسول امیﷺ کے بغض کو جگہ دی ہے وہ عقل سے اس طرح پیدل ہوۓ کہ جانور کو مولا قرار دے کر جبین عقیدت اس کے آگے جھکائی اور پھر بحکمِ نبوت اپنے آپ کو مارتے اپنے منہ پر تھپڑ لگاتے اور سینہ کوبی کرنے کی سزا پائی اور اب تک خاک شفا اُٹھائے پھر رہے ہیں۔ 

واللہ اعلم بالصواب۔