Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

یہودی ماضی میں ایک بڑی قوم رہے ہیں یہ یعقوب علیہ السلام کی اولاد تھے اب تک یہ اپنے آپ کو تورات کا وارث کہتے ہیں کیا انہیں اہلِ بیتِ رسالت کہا جاسکتا ہے قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر اس قوم کے عروج و زوال کی داستان پھیلی ہے ضرورت ہے کہ آپ اس قوم کے مذہبی اور سماجی خدوخال کے نشانات بتا دیں تاکہ یہ قوم بآسانی پہچانی جاسکے اگر یہ مسمانوں کی صفوں میں گھسیں تو بھی پہچانے جاسکیں؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   علی

جواب:

بنو اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد ہیں اس پہلو سے اگر انہیں اہلِ بیتِ نبوت کہا جائے تو ہمیں انکار نہیں لیکن قرآنِ کریم کی رو سے اہلِ بیت حضور پیغمبرﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ کو ہی کہا جائے گا ہاں دیگر قوموں کے بالمقابل اپنے آلِ رسول ہونے کا عنوان ان میں بہت نمایاں رہا ہے اولادِ آدم میں نسلی امتیاز پیدا کرنے کے مجرم یہی ہیں۔

1۔ نسلی تفوق کا دعویٰ

ان کا نسلی تفوق کا یہ عقیدہ قرآنِ کریم میں مذکور ہے:

نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّآؤُهٗ‌ ؕالخ۔  

(پارہ 6 سورۃ المائدہ آیت 18)۔

ترجمہ: ہم الله کے بیٹے اور اس کے لاڈلے ہیں۔

مفتی احمد یار خاں صاحب گجراتی اس آیت پر لکھتے ہیں:

آج کل حبِّ اہلِ بیت کے مدعی حضرات اور بعض جاہل فقیروں کا یہی عقیدہ ہے ایسا سمجھنا کفر ہے انہی بد اعمالیوں کے بارے میں محض اس زعم میں کہ ہم پیغمبروں کی اولاد ہیں ان کا یہ عقیدہ تھا۔ 

لَنۡ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَيَّامًا مَّعۡدُوۡدَةً الخ۔

(پارہ 1 سورۃ البقره آیت 80)۔ 

ترجمہ: ہمیں آگ نہ چھوئے گی ایسا ہوا بھی تو چند گنتی کے دن۔

ابتدائے تاریخ میں ان کے جو قبائل ہندوستان آئے تو برہمن بن گئے اور باقی لوگوں کو نچلی قومیں قرار دیا اسلام نسلی تفوق کی اجازت نہیں دیتا قرآن کریم میں ہے:

يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰكُمۡ مِّنۡ ذَكَرٍ وَّاُنۡثٰى وَجَعَلۡنٰكُمۡ شُعُوۡبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا‌ ؕ اِنَّ اَكۡرَمَكُمۡ عِنۡدَ اللّٰهِ اَتۡقٰٮكُمۡ‌ الخ۔ 

( پارہ 16 سورۃ الحجرات آیت 13)۔

ترجمہ: اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو تم میں اللہ کے ہاں عزت والا وہی ہے جو پرہیز گار ہے۔

 2۔ ماتمی جلوس نکالنا:

حضرت یعقوب علیہ السلام کی زندگی میں ہی انہوں نے اس کام کا آغاز کر دیا انہوں نے اس اعلان کے ساتھ کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو بھیڑیے نے شہید کر دیا ہے رات کو ایک ماتمی جلوس نکالا اور روتے ہوتے حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس آئے۔

وَجَآءُوۡۤ اَبَاهُمۡ عِشَآءً يَّبۡكُوۡنَؕ۝ وَجَآءُوۡ عَلٰى قَمِيـۡصِهٖ بِدَمٍ كَذِبٍ‌ؕ قَالَ بَلۡ سَوَّلَتۡ لَـكُمۡ اَنۡفُسُكُمۡ اَمۡرًا‌ؕ فَصَبۡرٌ جَمِيۡلٌ‌ؕ الخ۔

(پارہ 13 سورة یوسف آیت 18)۔

ترجمہ: اور وہ رات کو اکٹھے اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے اور انہوں نے اُس کے کرتے پر جھوٹا خون لگا رکھا تھا (حضرت) یعقوب علیہ السلام نے کہا تمہارے دلوں نے یہ بات بنا رکھی ہے سو اب صبر ہی بہتر ہے۔

یہ لوگ خود ہی حضرت یوسف علیہ السلام کو ٹھکانے لگا کر آئے تھے لیکن کیسی چال چلے دنیا حیران ہے کس طرح قمیصں پر لہو لگایا اور تعزیںٔے کے ساتھ چلے حضرت یعقوب علیہ السلام کو اس وقت یوسف علیہ السلام کا پتہ نہ تھا لیکن ماتمی جلوس کو دیکھتے ہی ان کی بصیرت نے کہا کہ یہ کوئی بنی ہوئی بات ہے سچے لوگوں کے لچھن ایسے نہیں ہوتے۔

 3۔ بارہ اماموں کے سائے:

حضرت یعقوب علیہ السلام جب مصر آئے تو آپ کے بارہ بیٹوں سے بارہ قبائل چلے ان بارہ قبائل کے بارہ سردار تھے قرآن کریم میں ہے:

وَلَقَدۡ اَخَذَ اللّٰهُ مِيۡثَاقَ بَنِىۡۤ اِسۡرآءِيۡلَ‌ۚ وَبَعَثۡنَا مِنۡهُمُ اثۡنَىۡ عَشَرَ نَقِيۡبًا‌ الخ۔ 

(پارہ 6 سورۃ المائده آیت 12)۔ 

ترجمہ: اور بے شک الله تعالیٰ نے بنو اسرائیل سے عہد لیا اور ان بارہ سردار ہم نے مقرر کیئے۔ 

یہ اثناء عشری سلسلے کی ابتداء ہے اگر یہ بارہ یکے بعد دیگرے ہوں تو ایک وقت میں ایک ہی امام ہوا۔

اور اگر یہ باره بیک وقت موجود ہوں تو پھر یہ بیک اثناء عشری عقیدہ ہے۔

وَقَطَّعۡنٰهُمُ اثۡنَتَىۡ عَشۡرَةَ اَسۡبَاطًا اُمَمًا‌ الخ۔ 

( پارہ 9 سورۃ الاعراف آیت 160@)۔ 

ترجمہ: اور جدا جدا کر دیا ہم نے ان کو بارہ دادوں کی اولاد بڑی بڑی جماعتیں۔

یہ بارہ کا عدد انہیں اتنا عزیز تھا کہ جب یہ یہودی اسلام کی صفوں میں گھسے تو ایک نبی کی امت بننے کی بجائے انہوں نے اثناء عشری کہلانا زیادہ پسند کیا۔

 4۔ اللہ کی کتابوں میں تحریف:

یہودیوں نے اللہ کی کتاب میں بڑی بے دردی سے تحریف کی ان کے دل اتنے سخت ہو چکے تھے کہ انہیں خدائی پکڑ کا بھی کوئی خوف لاحق نہ ہوا قرآنِ کریم میں ہے:

فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّیْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِیَةًۚ یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖۙ وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰى خَآىٕنَةٍ مِّنْهُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ الخ۔

(پارہ 6 سورۃ المائده آیت 13)۔

ترجمہ: سو ان کے عہد توڑنے پر ہم نے انہیں اپنی رحمت سے دور کر دیا اور ان کے دل سخت کر دیئے اب یہ پھیرتے ہیں الله کے کلام کو اس کے ٹھکانے سے۔

یَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَیْدِیْهِمْۗ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ هٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ الخ۔

 (پارہ 1 سورۃ البقره آیت 79)۔ 

ترجمہ: لکھتے ہیں کتاب میں اپنے ہاتھوں اور پھر کہے دیتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے جب یہ لوگ منافقانہ ادا میں اسلام کے دائرے میں آئے تو لگے ہاتھوں قرآنِ کریم برسے اسے تحریف شدہ کہا تاکہ کسی طرح اسے تورات سے تولا جاسکے قرآن کے بارے میں ان کا عقیدہ کیا بنا اُسے ملا محسن کاشانی (1075ھ) کی زبان سے سنتے:

المستفاد من جميع لهذه الاختبار و غيرها من طريق اهل البيت عليهم السلام ان القرآن الذی بين أظهرنا ليس بتمامه كما انزل على محمدﷺ بل منه ما هو خلاف ما انزل الله ومنه ما هو مغير محرف وانه قد حذف منه اشياء كثيرة۔ 

(تفسیر الصافی جلد 1 صفحہ 32)۔

ترجمہ: ان سب احادیث اور اہلِ بیت کی دیگر روایات سے یہی ثابت ہے کہ یہ قرآن اس وقت ہمارے سامنے ہے یہ پورا نہیں ہے جیسا کہ سرورِ کائناتﷺ پر اترا تھا بلکہ اس میں گیارہ ایسی باتیں بھی ہیں جو الله کے نازل کردہ کلام کے خلاف ہیں اور دو ایسی بھی ہیں جن میں تبدیلی کی گئی ہے اور وہ تحریف شدہ ہیں اور تین ان میں سے بہت سی چیزیں نکال بھی دی گئی ہیں۔

اس عقیدے کے بعد کیا بلی تھیلے سے باہر نہیں آگئی غور کیجئے یہودیوں نے کس طرح اپنے خیالات مسلمانوں میں لا داخل کئے ہیں۔

 5۔ گائے کے قد کا جانور بنانا اُسے مولا ٹھہرانا اور اس کا جلوس نکالنا:

حضرت موسیٰ علیہ اسلام کوہِ طور پر گئے تو انہوں نے سونے کے زیورات کا بچھڑا بنا کر اسے اپنا مولا ٹھہرایا اس پر قوم کے زیورات نچھاور کیے اس سے مرادیں مانگیں اس کی منتیں مانیں اور اس کی عبارت کرنے لگے قرآن کریم میں ہے:

وَاتَّخَذَ قَوۡمُ مُوۡسٰى مِنۡۢ بَعۡدِهٖ مِنۡ حُلِيِّهِمۡ عِجۡلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ‌ الخ۔

(پارہ 9 سورۃ الاعراف آیت 148)۔

ترجمہ: اور قوم موسیٰ نے ان کے بعد اپنے زیورات سے ایک بچھڑا کھڑا کر لیا۔ ایک بدن تھا جس میں گائے کی سی آواز بھی۔

قَالُوۡا لَنۡ نَّبۡرَحَ عَلَيۡهِ عٰكِفِيۡنَ حَتّٰى يَرۡجِعَ اِلَيۡنَا مُوۡسیٰ۝۔

(پارہ16 سورة طٰهٰ آیت 91)۔

ترجمہ: انہوں نے کہا ہم برابر اسی (بچھڑے) پر جھپکے رہیں گے یہاں تک کہ موسیٰ علیہ السلام ہماری طرف واپس آںٔیں۔ 

اس عقیدے پر یہ اتنے پکے تھے کہ اسلام کی صفوں میں گھس کر بھی انہوں نے اس جلوس عزا کو اپنا قومی حق کہا اور برابر اس کی تزئین کرتے رہے۔

 6۔ خاک شفا اٹھائے پھرنا اور اس میں زندگی کی روح جاننا

حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس آئے تو آپ نے سامری سے پوچھا تو نے کیا شعبدہ کیا ہے؟ قرآنِ کریم میں ہے اس نے کہا :-

قَالَ بَصُرۡتُ بِمَا لَمۡ يَـبۡصُرُوۡا بِهٖ فَقَبَـضۡتُ قَبۡضَةً مِّنۡ اَثَرِ الرَّسُوۡلِ الخ۔

(پارہ 16 سورة طٰهٰ آیت 96)۔

ترجمہ: میں نے دیکھ لیا جو اوروں نے نہ دیکھا پھر بھر لی میں نے ایک مٹھی (روح الامین کے) پاؤں کے نیچے سے پھر میں نے اسے (اس بچھڑے میں) ڈال دیا۔ سونا تھا کافروں کا مال لیا ہوا فریب سے اس میں مٹی پڑی برکت کی حق اور باطل مل کر ایک کرشمہ ہوا کہ جاندار کی طرح کی ایک آواز اس میں ہوگئی۔ 

 معلوم ہوا کہ مٹی کو خاک شفا سمجھ کر اٹھا لینا اور اس سے برکت لینا اس میں زندگی کی روح سمجھنا یہ راہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نہیں سامری کی تھی۔

 7۔ اظہارِ افسوس میں اپنے آپ کو مارنا:

منہ پر تھپڑ اور سینہ کوبی:

مصیبت کے وقت ہر کوئی پریشان ہوتا ہے لوگ بسا اوقات جزع فزع پر اتر آتے ہیں کپڑے پھاڑ لیتے ہیں اور صفِ ماتم بچھ جاتی ہے اسلام ایسے وقت سینہ کوبی اور آہ و فغال کی اجازت نہیں دیتا لیکن شریعت تورات میں مجرمین اپنے اوپر یہ سزا ڈال سکتے تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب ان لوگوں کو مجرم ٹھہرایا جو گائے کا جلوس بنا کر اسے مولا مان رہے تھے تو ان کی سزا یہی تجویز ہوئی کہ وہ اپنے آپ کو ماریں قرآنِ کریم میں ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا:

 اِنَّكُمۡ ظَلَمۡتُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ بِاتِّخَاذِكُمُ الۡعِجۡلَ فَتُوۡبُوۡآ اِلٰى بَارِئِكُمۡ فَاقۡتُلُوۡٓا اَنۡفُسَكُمۡؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّكُمۡ الخ۔ 

(پارہ 1 سورة البقره آیت 54)

ترجمہ: تم نے نقصان کیا اپنا یہ بچھڑا بنا کہ سو اب توبہ کرو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف اور مارو اپنے آپ کو یہی بہتر ہے تمہارے سامنے.

 8۔ حضرت ہارون علیہ السلام کا نام لینا اور ان پیروی نہ کرنا:

جب موسیٰ علیہ السلام طور پر گئے تو حضرت ہارون علیہ السلام ان کے جانشین تھے حضرت ہارون علیہ السلام انہیں گںٔو سالہ پرستی سے برابر روکتے رہے لیکن ان لوگوں نے ان کی ایک نہ مانی یہ حضرت ہارون علیہ السلام کی ظاہری خلافت کا اقرار اور ان کی اطاعت سے انکار تھا آنحضرتﷺ نے حضرت علی المرتضیٰؓ کو اپنا ہارون قرار دیا پھر کیا تھا جو یہودی سازش کر کے اسلام کی صفوں میں گھسے انہوں نے اپنے آپ کو ہارون امت سیدنا علی المرتضیٰؓ کی پارٹی تو کہا لیکن یہ لوگ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے عقیدے اور مسلک سے اسی طرح دور رہے جس طرح سامری کے ماننے والے حضرت ہارون علیہ السلام سے عملی دور تھے۔ 

 9۔ القدس کی عقیدت اور خانہ کعبہ کی بے حرمتی:

یہود کا قبلہ عبادت بیت المقدس تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو الله رب العزت نے کعبہ ابراہیمی پر لوٹایا اور اب یہ قبلہ نماز ٹھہرا یہ کھلے بندوں یہود سے ذہنی تصادم تھا پھر جب یہود کو خیبر سے نکال دیا گیا اور آہستہ آہستہ فلسطین کا رخ کیا گیا تو یہ ہر طرح سے حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور حرم کعبہ کے خلاف پراپیگنڈے میں مصروف تھے القدس کی عقیدت اور خانہ کعبہ کی بے حرمتی ان کا امتیازی نشان ٹھہرا۔

علامہ خمینی نے برسر اقتدار آنے کے بعد القدس کے حق میں تو بیسیوں بیان دیے لیکن حرمین شریفین میں ہر سال ایرانیوں کے جلوس نکلوائے جنہوں نے ان پاک شہروں میں سیاسی نعرے بھی لگائے قتل و قتال تک نوبت پہنچتی رہی امن عامہ بھی تباہ ہوا اور حرمت کعبہ بری طرح پامال ہوئی افسوس کہ علامہ خمینی نے اب تک تقدیسِ حرمین پر کوئی بیان نہیں دیا نہ ان لوگوں کی مذمت کی جو وہاں سیاسی کھیل کھیلنا چاہتے ہیں اور سیاسی جلوس نکالتے ہیں۔

 10۔تقیہ کی دو طرفی پالیسی

آنحضرتﷺ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کے گرد یہودیوں کی کئی بستیاں آباد تھیں انہوں نے حضور انورﷺ کو ہر ممکن طریق سے شہید کرنا چاہا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور آپ کو ان کے حیلے اور مکر سے بچایا پھر ان لوگوں نے ایک خفیہ تدبیر کی کہ دن کو حضور سرور دو عالمﷺ کے پاس جاکر مسلمان ہوجایا کریں اور پچھلے پہر اسلام کا انکار کر کے واپس آجایا کریں اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ کچھ کچے اور نئے مسلمان بھی بدگمان ہو کر صفِ اسلام سے باہر آجائیں گے۔

وَقَالَتۡ طَّآئِفَةٌ مِّنۡ اَهۡلِ الۡكِتٰبِ اٰمِنُوۡا بِالَّذِىۡۤ اُنۡزِلَ عَلَى الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَجۡهَ النَّهَارِ وَاكۡفُرُوۡۤا اٰخِرَهٗ لَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُوۡنَ‌‌ۚ‌۝۔ 

( پارہ 3 سورۃ آلِ عمران آیت 72)۔

ترجمہ: اور کہا بعض اہلِ کتاب نے مان لو جو کچھ اترا ہے مسلمانوں پر دن چڑھے اور منکر ہو جاؤ آخر دن میں شاید وہ (بھی کچھ) پھر جایں۔

اس آیت میں یہودیوں کی چالاکی اور خیانت ذکر کی جارہی ہے کہ اپنے کچھ آدمی صبح کے وقت بظاہر سلمان بن جائیں اور مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھیں اور شام کو یہ کہہ کر کہ ہم کو اپنے بڑے بڑے علماء سے تحقیق کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ وہ نبی نہیں جن کی بشارت دی گئی تھی اور تجربہ سے ان کے حالات بھی اہلِ حق کی طرح کے ثابت نہ ہوئے اسلام سے پھر جایا کریں نتیجہ یہ ہوگا کہ بہت سے ضعیف الایمان ہماری یہ حرکت دیکھ کہ اسلام سے پھر جائیں گے۔

دو طرفہ پالیسی کہ اندر سے کچھ اور اوپر سے کچھ اور اسے دین اور رضائے الٰہی کے لیے عمل میں لانا یہ یہودیوں کی میراث ہے بعض مسلمان کہلانے والوں نے اسے تقیہ کے عنوان سے آگے چلایا ہے یہودیوں نے تو اسے محض جواز کے درجے میں لیا مگر انہوں نے اسے عبادت اور عزیمت کے طور پر اختیار کیا یہودیوں نے اسے اپنے عوام کے ذمے لگایا لیکن ان لوگوں نے اُسے ان کے ذمے لگایا جنہیں انہوں نے مامور من اللہ کہا اور معصوم جانا ہاں اس میں شک نہیں کہ تقیہ کی اصل یہود سے قائم ہوئی ہے۔