حضور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بتایا تم یہود و نصاریٰ کی راہ پر چلو گے اس سے پتہ چلتا ہے کہ سرورِ کائناتﷺ کے بعد سرورِ کائناتﷺ کی امت میں بھی گمراہی پھیلے گی جس طرح یہود و نصاری دو ملتیں اصل راہ سے جو حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی راہ تھی بھٹک گئیں یہ امتِ مسلمہ بھی اصل راہ چھوڑ دے گی یہ خلافتوں میں پڑ کر اسلام کی روحانی قدروں کو کھو بیٹھیں گے کیا ایسا ہونا ضروری ہے اور کیا ایسا ہو کر نہیں رہا؟ نیز بتاںٔیں کہ اس امت میں یہود کی راہ پر چلنے والے کون لوگ ہیں اور نصاریٰ کی راہ پر چلنے والے کون؟ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت پر قائم رہنے والے کون ہیں؟
سوال پوچھنے والے کا نام:جواب:
ہاں حضورِ اکرمﷺ نے بے شک ایسا فرمایا ہے سیدنا ابو واقد اللیثیؓ کہتے ہیں کہ حضورِ انورﷺ نے فرمایا:
لتركبن سنة من كان قبلكم۔
(جامع ترمذی جلد 2 صفحہ 101 ہذا حدیث صحیح)۔
ترجمہ: تم ضرور پہلوں کی راہ پر چلو گے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:
لیاتین على امتى كما اتى على بنی اسرائيل حذو النعل بالنعل۔
(مشکوٰۃ صفحہ 30)۔
ترجمہ: میری امت پر وہ دن ضرور آئے گا جو بنی اسرائیل پر آیا یہ بھی ان کے قدم بقدم چلیں گے۔
ان روایات سے یہ تو معلوم ہوا کہ اس امت میں بھی گمراہی پھیلے گی لیکن یہ نہیں کہ پوری امت گمراہ ہو جائے گی ایک طبقہ ضرور حق پر رہے گا کیونکہ یہ آخری دین ہے حضور اکرمﷺ کے بعد کسی نئے نبی کی آمد نہیں سو ضرور تھا کہ پہلا دین اپنی اصلی شکل میں کسی نہ کس حلقے میں قیامت تک محفوظ رہے سیدنا مغیرہؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا:
لن يزال قوم من امتى ظاهرين على الناس حتىٰ يايتهم امر اللہ و هم ظاهرون۔
(صحیح مسلم جلد 2 صفحہ 143)۔
ترجمہ: میری امت کا ایک طبقہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے اور وہ غالب ہی ہوں گے۔
پس یہ بات واضح ہوئی کہ ایک طبقہ اہلِ حق کا ہمیشہ موجود رہے گا جس کی وجہ سے امت میں گمراہی استقرار نہ پکڑ سکے گی ضلالت کی آندھیاں الحاد کے بادل بے راہ روی کے طوفان بے حیائی کے سیلاب آئیں گئے لیکن طائفہ حق اس کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار بن کر رہے گا باطل کو حق پر غالب نہیں آنے دے گا۔
آپ نے فرمایا کہ یہود و نصاریٰ دونوں ملتیں اصل راہ سے بھٹک گئیں اس امتِ مسلمہ میں بھی ان کی راہ پر لوگ چلیں گے یہود و نصاریٰ دونوں قومیں اہلِ کتاب کہلاتی ہیں اور دونوں کافر ہیں گو ہر ایک کے کفر کی راہ مختلف ہے یہودیوں کا کفر عدادت کی راہ سے آیا ہے انہوں نے حضرت مریم علیہا السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفیٰﷺ جیسے خاصان خدا کے ساتھ بغض و عداوت راہ اختیار کی اور کفر ان کا مقدر بنا گویا ان کے مذہب کی بنیاد ہی نظام عداوت ٹھہرا یہودیوں کی طرح نصاریٰ بھی کافر ہیں لیکن ان کے کفر کی بنیاد بےجا محبت ہے انہوں نے حضرت مریم علیہا السلام کو خدا کی بیوی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا سمجھا اور اس طرح بےجا محبت کی راہ سے کافر ہوئے۔ حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو درجہ الوہیت پر فائز کیا اور اس طرح کافر بنے۔
بعینہ اسی طرح امت میں بھی دو طبقے اُٹھے ایک طبقہ جس نے خاصانِ خدا کے ساتھ عداوت رکھی یہاں یہ بات وضاحت طلب ہے کہ پہلے خاصانِ خدا (یعنی انبیاء کرام علیہم السلام) کے ساتھ عداوت رکھنے والے یہود تو گزر چکے تھے اب اس امت میں خاصانِ خدا کون ہیں جن کے خلاف یہاں عداوت کا بازار گرم ہوگا کسی نبی نے تو پیدا ہونا نہیں سو ان کا نشانہ انبیاء کرام علیہم السلام تو ہوں گے نہیں کون ہوں گے؟ اس امت کے خاصانِ خدا اصحابِ رسولﷺ ہیں اور اس امت کے ایک طبقہ نے یہودیوں کی راہ پر چل کر انہیں خاصانِ رسول حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ عداوت قائم کی انکو برا بھلا کہا ان پر بہتان باندھے ان پر سبّ و شتم کیا اس طبقہ میں کون لوگ داخل ہیں ان کی ایک طویل فہرست ہے کلینی سے لے کر خمینی تک کس کس کا نام لیا جائے حافظ ابنِ تیمیہؒ (728ھ) بھی لکھتے ہیں کہ یہود اور شیعہ میں واضح مشابہت موجود ہے۔
(منہاج السنۃ جلد 1 صفحہ 15)۔
دوسرا طبقہ اس امت میں نصاریٰ کی راہ پر چلا اور انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء کی محبت میں کفر و شرک کی دلدل میں جا دھنسا اس وقت ان کی تاریخ اور تعیین موضوع کلام نہیں ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حضورﷺ نے جیسا فرمایا تھا ویسا ہی ہو کر رہا اور دونوں طبقے اس امت میں بھی بن کر رہے۔
یہود کی خصوصیات کیا کیا ہیں انکے تاریخی خدوخال کیا ہیں اُن پر توجہ فرمائیں:
- نسلی تفوق کا دعویٰ۔
- ماتمی جلوس نکالنا۔
- بارہ اماموں کے سائے۔
- اللہ کی کتابوں میں تحریف۔
- گائے کے قد کا جانور بنانا اسے مولا ٹھہرانا اور اس کا جلوس نکالنا۔
- خاکِ شفا اٹھائے پھرنا اور اس میں زندگی کی روح ماننا۔
- اظہارِ تعزیت میں اپنے آپ کو مارنا منہ پر تھپڑ اور سینہ کوبی وغیرہ۔
- حضرت ہارون علیہ السلام کا نام لینا اور ان کی پیروی نہ کرنا۔
- القدس کی عقیدت اور خانہ کعبہ کی بے حرمتی۔
- تقیہ کی دو طرفہ پالیسی کہ اوپر سے کچھ اور اندر سے کچھ۔
یہ دس باتیں کیا آپ کو اس امت کے بھٹکوں میں نظر نہیں آتیں؟ یہودیوں کی پیروی ان میں اتنی واضح ہے کہ محققین کہہ اٹھے ہیں کہ عبدالله بن سبا کی اصل یہود سے تھی۔
جو مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طریقہ پر رہے وہ افراط و تفریط سے بچے ہوئے ہیں نہ وہ یہود کی راہ پر چلے نہ نصاریٰ کی راہ پر وہ صحیح ملت ابراہیمی پر قائم ہیں:
اِنَّ اَوۡلَى النَّاسِ بِاِبۡرٰهِيۡمَ لَلَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُ الخ۔
(پارہ 3 سورة آلِ عمران آیت 68)۔
ترجمہ: بے شک ابراہیم علیہ السلام کے سب سے قریب وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس کی پیروی کی۔
ان حضرات اہلِ حق کی پہچان کوئی مشکل نہیں دورِ اول میں خلفائے راشدینؓ اور حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اہلِ حق تھے پچھلے دور میں ہم نے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانیؒ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور ان کے خاندان کو اور پھر حضرت شیخ الہندؒ کو اور ان کے اساتذہ و تلامذہ کو علمائے ربانیین اور ملتِ ابراہیمی کے قائمین میں سے پایا ہے اور یہی حضرات ہیں جو حدیث سیدنا مغیرہؓ اور حدیث سیدنا ثوبانؓ اور حدیث سیدنا امیرِ معاویہؓ کا مصداق ہیں۔
ہم نے دورِ اول اور دورِ آخر کی نشاندہی کر دی ہے ان دو کے درمیان بارہ صدیوں کے اہلِ حق کی کڑیاں ہیں جن کی تفصیل اس مختصر جواب میں نہیں دی جا سکتی یہودی پیشواؤں اور تبرائی ملاؤں کی نار انتقام کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
اعاذنا اللہ منها۔
واللہ اعلم بالصواب۔
كتبہ خالد محمود عفا اللہ عنہ۔