عبداللہ بن سبا کی جو شخصیت یہودیوں اور شیعوں میں قدرِ مشترک ہے یا اسے اصل و فرع کی نسبت کہہ لیجئے آپ کی یہ بات درست ہے کہ یہودی اور شیعہ عقائد و رسوم بہت ملتے جلتے ہیں اب اس سے بھی مطلع فرمائیں کہ کیا شیعہ کی عیسائیوں سے بھی کوئی قدر مشترک ہے اگر ہے تو اس کی بھی وضاحت فرمائیں اور ان کے ملتے جلتے نظریات بیان فرمائیں؟
سوال پوچھنے والے کا نام: حسین احمدجواب:
عیسائی اس خدا سے اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھ سکے جو نظر نہ آئے اس میں انہیں قلبی تسکین نہ ملتی تھی اس کے لئے انہوں نے اسے بیٹے کی شکل میں اتارا اور مرئی کیا اور پھر اسے ہر طاقت اور قدرت میں صاحبِ اختیار سمجھا شیعوں نے بھی ایک فرد (امام) کو تشریعاً اور تکویناً صاحبِ اختیار قرار دیا اصولِ کافی کے کتاب الحجہ کو دیکھیں امام کو انہوں نے ہر طرح کے اختیارات کا استناد مہیا کیا ہے عیسائیوں نے خدا میں انسانی اوصاف پیدا کیئے شیعوں نے انسان میں خدائی اوصاف اُتارے۔
ان مباحث کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح یہودیوں نے مسلمانوں کی سیاسی عظمت مجروح کی عبداللہ بن سبا نے خلافت کو تاراج کیا عیسائیوں نے مسلمانوں کی اعتقادی زمین متزلزل کی اور اسلام کو ایسا استناد مہیا کیا کہ اس سے جملہ متوازی نظریات Comperative thought سمجھوتہ کر سکتے تھے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیعیت میں اسلام کا اصل چہرہ بالکل مسخ ہو کر رہ گیا پروفیسر A.J. Arbery لکھتا ہے:
شیعوں نے اسلام کے مستحکم قلعے میں ایک دروازہ کھول دیا اس دروازے سے تمام لوگ آجا سکتے تھے اور کوئی فکری ممانعت کسی کی راہ میں حائل نہ تھی اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت کم لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔
(میراثِ ایران صفحہ 157 انگریزی صفحہ 240 اردو)۔
موصوف کہنا چاہتےہیں کہ اگر ہم شیعوں کی اس رعایت کا پُورا فائدہ اُٹھاتے تو آج اصل اسلام کا وارث کوئی نہ ہوتا جملہ دعویدارانِ اسلام شیعہ ہوتے مگر افسوس کہ ہم نے اس موقعہ سے بہت کم فائدہ اٹھایا ہے۔
موصوف آگے چل کر عیسائی دنیا پر یہ ذمہ داری ڈالتے ہیں:
ہماری ذمہ داریوں میں اضافہ ہو گیا ہے ہمیں چاہیئے کہ اپنے قول و فعل سے مسلمانوں کو یہ کہنے کا موقع نہ دیں کہ شیعیت نے جو دروازہ کھولا تھا وہ دراصل دین (اسلام) کے قلعے کا ایک مورچہ ٹوٹ جانے کے مترادف تھا۔
(ایضاً صفحہ 158)۔
موصوف کہنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ہم یہ کہنے کا موقع نہ دیں کہ شیعہ اسلام کے مضبوط قلعے میں ایک خطرناک نقب لگا چکے ہیں اگر مسلمان اس حقیقت کا احساس نہ کریں تو پھر اپنے مسیحی نظریات شیعہ کی معرفت بآسانی اسلام کی صفوں میں داخل کئے جاسکتے ہیں۔
ان تفصیلات سے اس یقین سے چارہ نہیں رہتا کہ شیعیت اپنے ابتدائی اعتقادی مراحل میں عیسائیت سے خطرناک حد تک متاثر ہوئی ہے۔