Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

یہود و نصاریٰ نے اسلام کے قلعے میں رخنہ ڈالا اور شیعیت کی بنیادیں مہیا کیں یہ بات تو واضح ہوچکی ہے لیکن یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ کیا ایران کے قدیمی نظریات نے بھی مسلمانوں کو اپنے سے متاثر کیا ہے مطلع فرمائیں کہ شیعیت اپنے اعتقادی نقشے میں کہاں تک دین زرتشت اور مجوس ایران سے متاثر ہوئی ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام:  

جواب:

شیعیت ابتدائی مراحل میں محض ایک سیاسی گروہ بندی تھی ابھی اس کی چھت پر کفر کی کڑیاں نہ رکھی گئی تھیں یہود و نصاریٰ اور مجوس ایران اور دیگر اتحادی قوتیں شیعیت کے دروازے سے مسلمانوں کی صف میں کھڑی ہونے لگیں اور پھر ان حلقوں نے مسلمانوں میں اپنے فکری اثرات چھوڑے یہ شیعیت کی مذہبی تاسیس تھی ایک اچھا خاصا ملغوبہ تیار ہوتا گیا اور یہ واقعی وہ دروازہ تھا جس سے تمام لوگ آجا سکتے تھے شیعیت اس راہ سے ایک مذہبی گروہ بنی ہے ورنہ ابتداء میں شیعانِ علی میں سے ہونا کوئی کفری عنوان نہ تھا یہ صرف ایک سیاسی گروہ تھا۔

ابوسعید عثمان بن سعید الدارمی کی تالیف کتاب الرد علی الجہمیہ ابھی 1969ء میں لیدن Leydon سے بڑی آب و تاب سے شائع ہوئی ہے اس میں امام دارمی لکھتے ہیں:

انهم يستترون بالتشيع يجعلونه تشبيها لكلامهم وخطبهم وسلماً وذريعة لاصطياد الضعفاء واهل الغفلة۔ 

(کتاب الرد علی الجہمیہ صفحہ 99)۔

ترجمہ: یہ ملاحدہ شیعیت کے پردے میں اپنا کام کرتے اپنی باتوں اور خطبوں میں اسی کا سہارا لیتے (اہلِ بیت کے نام سے اپنا کام چلاتے) اور اسی تشیع کو ضعیف الاعتقاد اور دین سے غفلت برتنے والے مسلمانوں کو شکار کرنے کے لیے سیڑھی اور ذریعہ بناتے ہیں۔

شیعیت کی مذہبی دلالتیں:

تاریخی حیثیت سے یہ صحیح ہے کہ شیعانِ علی آغاز کار عرب میں ہی تھے لیکن یہ ایک سیاسی گروہ بندی تھی شیعیت نے جب ایک مذہبی حیثیت اختیار کی

کیمبرج کے مشہور مستشرق پروفیسر آربری A.j. Arbery نے میراثِ ایران پر ایک نہایت قابلِ قدر کتاب مرتب کی ہے جس کا اردو ترجمہ مجلس ترقی اردو (2 کلب روڈ) لاہور نے بھی 1962ء میں شائع کیا ہے اس میں جی ایم وکنز کے مضمون میں ہمارے اس موقف کی کافی تائید پائی جاتی ہے کہ عیسائیوں اور شیعوں میں کئی باتوں میں قدرِ مشترک موجود ہے موصوف لکھتے ہیں:

شیوں نے مذہب قدیم کا تتبع کرتے ہوئے ایک فرد کو صاحب اختیار و اقتدار قرار دیا یعنی صاحب الشريعته بالفاظ دیگر بشر میں صفاتِ خداوندی دیکھیں اور عیسائیوں نے جو خدا میں اوصافِ انسانی پائے تھے ان کے الٹ بات پیدا کر دی یہ بھی ملحوظ رہے کہ عیسیویت میں اور شیعی افکار میں کچھ مشابہت ہے یہ جو دعویٰ کیا گیا ہے کہ شیعوں کا امام پوپ pope کہ ہم پلہ ہے غلط ہے صحیح یہ ہے کہ وہ نسطوریوں کے عیسیٰ کے مشابہ ہے

(میراثِ ایران صفحہ 153 انگریزی)۔

فاضلِ موصوف آگے جا کر لکھتے ہیں:

یہ سوال بھی موردِ بحث رہا ہے کہ ابتداء میں عیسائیوں نے کس حد تک بنیادی شیعی افکار کی تعمیر میں حصہ لیا ہے مغرب کے علماء نے اس مسئلے سے تعارض کیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں مسلکوں میں مشابہتیں موجود ہیں۔

(ایضاً صفحہ 157)۔

انسانی خون کی قربانی اور عقیدہ کفارہ:

عیسائیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے جسدِ عنصری نے اپنے پر موت وارد کر کے ابنِ آدم کے گناہ دھوئے ان کے ہاں یہ خون قربانی کا شمار ہوتا ہے شیعہ تقریباتِ محرم میں جب چھریوں سے ماتم کرتے ہیں تو وہ بھی اس انسانی خون کو گناہوں کا کفارہ سمجھتے ہیں جو خدا کے حضور پیش کیا جاتا ہے پھر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی جانی قربانی بھی ان کے ہاں شیعوں کے گناہوں کا کفارہ تھی سیدنا موسی کاظمؒ (ان کے ساتویں امام) کے نام سے ملا محمد بن کلینی (369ھ) نے یہ روایت پیش کی ہے:

ان اللہ عزوجل غضب علی الشیعہ فخیرنی نفسی اوھم فوقھم اللہ واللہ بنفسی۔

(اصول کافی)۔

ترجمہ: بہ تحقیق اللہ کا شیعہ پر غضب ہوا اللہ نے پھر مجھے مختار کیا کہ ان کے گناہوں کے عوض میں مارا جاؤں یا وہ سب (تاکہ وہ گناہوں سے پاک ہو جائیں) مارے جائیں گے پھر اللہ نے انہیں میری جان کے بدلے بچا لیا۔

ملا خلیل قزوینی (1075ھ) لکھتا ہے:

اختیار خود کر دم تا ایشاں کشتہ نشوند۔

(الصافی کتاب الحجہ جلد 3 صفحہ 235 لکھنؤ)۔

کیا یہ وہی عقیدہ نہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے عیسائیوں کے گناہوں کو دھونے کے لیے پھانسی پائی تھی یہاں وہ ذبیحہ قربانی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو بنایا گیا ہے

پروفیسر جی ایم ویکن لکھتا ہے:

یہ بات نہیں کہ تمام شیعہ بیک وقت ان تمام عقائد کے مقر تھے البتہ وقتاً فوقتاً شیعوں نے جن عقائد کا اظہار کیا ہے اگر ان مدون کیے جائے تو ان پر یوحنا کی انجیل کے آخری الفاظ کا اطلاق ہو سکتا ہے۔

(میراث ایران صفحہ 154)۔

آسمانی کتابوں کے مخلوق ہونے کا عقیدہ:

عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام میں تو خدائی صفات کا عقیدہ رکھا لیکن انجیل کو مخلوق اور کتاب متبدل جانا شیعوں نے بھی اپنے اماموں میں خدائی صفات پائیں لیکن قرآنِ کریم کو انہوں نے بھی مخلوق قرار دیا ان کے ہاں یہ محل حوادث ہے جس میں تبدیل و تحریف نے راہ پائی ہے حق یہ ہے کہ اعتزال کا عنصر اپنے زوال کے بعد شیعیت میں جذب ہو گیا تھا۔

(ایضاً صفحہ157)۔

اور معتزلہ کا قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہے شیعہ تو ان کے افکار و نظریات عربی نہیں بیرونی عقائد foreign wisdom سے پوری دنیا متاثر تھے گویا یہ ایک نیا دین تھا جو مسلمانوں سے 90 فیصد ہٹ کر چلا یہود کے بعد ان سب پر اثر ساسانی عقیدہ نورین کا تھا دین زرتشت میں ابتدائی طاقتیں دو تھیں یزدان واہرمن کو وہ خالقِ خیر اور خالقِ شر سمجھتے تھے صفِ اسلام میں آ کر انہوں نے خدا کو خیر کا خالق اور انسان کو شر کا خالق قرار دیا اور تقدیر کا سرے سے انکار کیا یہ قدریہ کہلائے یہ اس امت کے مجوسی ہے سیدنا عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں حضرت محمدﷺ نے فرمایا:

القدریہ مجوس ھذا الامۃ ان مرضو فلا تعودوھم وانا ماتو افلاتشھدوھم۔

(سننِ ابی داؤد جلد 2 صفحہ 644)۔

ترجمہ: قدری لوگ اس امت کے مجوس ہیں اگرچہ بیمار پڑ جائیں تو ان کی بیمار پرسی پر نہ جاؤ مر جائیں تو ان کے جنازے پر نہ جاؤ۔

سیدنا حذیفہؓ کہتے ہیں حضورِ انور نے فرمایا: 

یہ دجالی شیعہ ہوں گے اور خدا کا حق ہے کہ وہ ان کا حشر دجال کے ساتھ کرے۔ 

(ایضاً)۔

یہ لوگ ساسانیوں کے عقیدہ نورین کے ساتھ صفِ اسلام میں آئے شیعت کی یہ اعتقادی ابتداء تھی شیعہ عالم نے اپنے ان نظریات کو پھر پوری علمی قوت سے استفاد مہیا کیا یہاں تک کہ شیعہ مذہب مدون ہوگیا اور اسلام کے مضبوط قلعے میں ایک بہت بڑی نقب لگ گئی۔

مشہور مستشرق A.J.Arbery لکھتا ہے:

مفتوح قوم کے عوام پرانے عقائد کے گرویدہ رہے اور نئے دین کو ریاکارانہ قبول کیا یہی وجہ ہے کہ جب موقع آیا تو انہوں نے مل جل کر اپنے پرانے مذہب سے رجوع کیا اور اس رجعت کے لیے ایران کے لوگ رہنماؤں کی کمی محسوس نہیں کرتے تھے۔

(میراث صفحہ 180 انگریزی صفحہ 117 اردو)۔

حافظ ابو القاسم علی بن الحسن بن عتبہ اللہ ابنِ عساکر الدمشقی (571ھ) کی کتاب تبیین کذب المفتری فیما نسب الی الامام ابی الحسن الاشعری کے مقدمہ میں دیکھئے:

وکان عدۃ من احبار الیھود ورھبان النصاری موابذہ المجوس اظھروا الالسلام فی عھدالراشدین ثم اخذوا بعدھم فی بث ما عندھم من الاساطیر۔

(تبیین کذب المفتر ی صفحہ 10)۔

ترجمہ: کئی یہودی علماء اور عیسائی درویش اور مجوسی موبذ خلفائے راشدینؓ کے دور میں بظاہر اسلام لائے پھر انہوں نے یہاں اپنے عقائد پھیلانے شروع کر دیے

پروفیسر A. j. Arbery لکھتا ہے:

یہ دعویٰ درست ہے کہ شیعیت کی مذہبی دلالتیں ایرانی ہیں شیعیت کے اہم ترین مذہبی پہلوؤں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ شیعہ علماء اور فضلاء اس بات کی سعی کرتے رہے ہیں کہ پرانے ادیانِ نورین کی روح کو ملحوظ رکھ کر اسلام کو وہ اقتدار اور استفاد مہیا کیا جائے کہ یہ بے خطا ہے۔

(میراثِ ایران صفحہ 153 انگریزی)۔

سو اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں میں شیعیت اور خوارج کی نشاة علم کے ہاتھوں نہیں سیاسی اندھیروں میں ہوئی ہے تبیین کذب المفتری کے مقدمہ کے یہ الفاظ سونے سے لکھنے کے لائق ہیں:

ومن الجلی انہ لادخل للعلم فی تشباہ الخوارج والشیعہ بل ولدتھما العاطقہ السیاسیۃ ثم اندس فیھما خصوم الدین من الزنادقہ فتطورتا اطوارا شائتہ۔

(تبیین کذب المفتری صفحہ 17)۔

ترجمہ: اور یہ بات کھلی حقیقت ہے کہ خوارج اور شیعہ کی پیدائش میں علم کا کوئی عمل دخل نہیں یہ دونوں سیاسی آندھی کی پیداوار ہیں پھر ان میں وہ لوگ بھی گھس آئے جو دین کے دشمن تھے زندیق اور پھر ان کی دشمنی کئی پیرایوں میں آئی۔

اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ شیعہ علماء اسلام کے متوازی نظریات یہود و نصاریٰ اور مجوس ایران کے نظریات کے حق میں کام کرتے رہے ہیں اور وہ اسلام میں ان بیرونی نظریاتforeign wisdom کے لیے شروع سے ایسی راہ ہموار کرتے آئے ہیں کہ عربوں کے مقابلہ میں ایک مستقل مذہب شیعیت کے نام سے راہ پا سکے۔