خلفائے راشدینؓ کتنے صحابہ ہیں ان کی خلافت مطلق خلافت تھی یا خلافت علی منہاج النبوۃ اور 12 خلفاء کون کون سے ہوئے کیا ان سب کے خلافت خلافتِ نبوت رہی ہے یا صرف چار کی خلافت خلافتِ نبوت کہلاتی ہے؟۔
2۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین صرف 10 جنتی ہیں یا باقی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جنتی ہونے کی بھی کوئی دلیل موجود ہے اگر ہے تو صرف 10 بزرگوں کو عشرہ مبشرہ کیوں کہا جاتا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں جو اختلافات ہوئے ہیں انہیں کھولنا اچھا ہے یا ان سے صرف نظر کرنا اس بارے میں اہلِ سنت والجماعت کا مسلک کیا ہے ؟
سوال پوچھنے والے کا نام: Muhammad Huzaifaجواب:
خلفائے راشدینؓ چار ہیں انہیں ائمہ اربعہ بھی کہتے ہیں ان کی خلافت مطلق حکومت نہیں خلافتِ نبوت تھی حضور انور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جس پیش گوئی میں 12 مضبوط حکمرانوں کی خبر دی گئی ہے وہ مطلق حکمران ہیں جن میں اچھے اور برے دونوں طرح کے ہو سکتے ہیں ہاں غیر مسلموں کے مقابلے میں وہ مضبوط حکومت کے مالک ہوں گے ان 12 میں پہلے چار کی حکومت خلافت علی منہاج النبوۃ تھی سیدنا حسنؓ کی حکومت تو راشدہ تھی لیکن غیر تامہ تھی آپ اس سے دستبردار ہو گئے تھے سیدنا امیرِ معاویہؓ کی حکومت بے شک ایک مضبوط حکومت تھی نظامِ عدل کتاب و سنت کے موافق تھا مگر آپ کا عقد حکومت استخلافاً نہیں صلحاً وجود میں آیا تھا آپ کے بعد پھر عبدالملک بن مروان ایک مضبوط حکمران بنا یہ چھ پہلے مضبوط حکمران ہیں عبدالملک کی اولاد سے پھر چھ مضبوط حکمران پیدا ہوئے یہ صحیح نہیں کہ 12 حکمرانوں کی اس روایت میں ہر ایک کی حکومت عدل و انصاف اور قرآن و سنت پر مبنی بتلائی گئی ہے خلفائے راشدینؓ ان چھ میں سے چار ہیں جو آیتِ استخلاف کا مصداق ہیں
ابوبکر باقلانی (403 ھ) اہلِ سنت والجماعت کے تعارف میں لکھتے ہیں!:
یعرفون حق السلف الذین اختارھم اللہ سبحانہ لصاحبہ نبیہﷺ و یاخذون بفضائلھم و یمسکون عما شجر بینھم صغیرھم وکبیرھم ویقدمون ابابکرؓ ثم عمرؓ ثم عثمانؓ ثم علیاؓ رضوان اللہ علیہم و یقرون انھم الخلفاء الراشدون المھدیون افضل الناس کلھم بعد النبیﷺ و یصدقون بالاحدیث التی جاءت عن رسول اللہﷺ۔
(کتاب التمہید صفحہ 295)۔
ترجمہ: اہلِ سنت و الجماعت ان اسلاف کا حق پہچانتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صحبت کے لیے پسند کیا ہوا تھا ان کے فضائل سے وہ تمسک کرتے ہیں اور جو ان میں اختلافات چلے چھوٹوں میں یا بڑوں میں وہ ان اختلافات سے اپنے آپ کو دور رکھتے ہیں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو سب سے مقدم سمجھتے ہیں پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو پھر سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو اور پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اور اقرار کرتے ہیں کہ یہی خلفائے راشدینؓ مہدیین ہیں اور یہ سب لوگوں سے حضورِ انورﷺ کے بعد افضل ہیں اور اہلِ سنت ان تمام احادیث کو سچ مانتے ہیں جو حضور سرور کائناتﷺ سے ہم تک پہنچی ہیں۔
2۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سب کے سب جنتی ہیں بشرط یہ کہ خاتمہ ایمان پر ہو ایمان پہ خاتمہ کس کس کا ہوگا یہ بات اللہ کے علم میں ہے ہاں حضور انورﷺ نے جن جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جنت کی بشارت دے دی یا معراج کی رات ان کے محلات جنت میں دیکھے وہ سب قطعی جنتی ہیں وہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جنہیں آپ جنابﷺ نے ایک ہی مجلس میں جنتی ہونے کی بشارت دی عشرہ مبشرہ کہلاتے ہیں ان کے علاوہ بھی متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں جن کے آپﷺ نے جنتی ہونے کی نشانی بتلائی سیدنا بلالؓ کے قدموں کی جنت میں آواز سنی۔
3۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں حق کا نشان یہی ائمہ اربعہ ہیں جنہیں خلفائے راشدینؓ کہا جاتا ہے جہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اختلاف ہوئے ان ابواب میں شرع کا تقاضا ہے کہ بحث نہ کی جائے حضورﷺ نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے حضورﷺ کے حکم کے خلاف اختلافات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر بحث کرنا اور کسی کو برا بھلا کہنا کوئی تاریخ کی خدمت نہیں شرعاً ایک بہت بڑا گناہ ہے۔
حافظ ابنِ عساکر الدمشقی (571 ھ) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اہلِ سنت و الجماعت کا عقیدہ ان الفاظ میں لکھتے ہیں:
و تدین بحب السلف الذین اختارھم اللہ بصحبۃ نبیہ و نثنی علیھم بما اثنی اللہ علیھم و نتولاھم ونقول ان الامام بعد رسول اللہﷺ ابوبکرؓ و ان اللہ اعزیہ الدین واظھرہ علی المرتدین و قدمہ المسلمون لامامة کما قدمہ رسول اللہﷺ ثم عمر بن الخطابؓ ثم عثمانؓ نضراللہ وجھہ قتلہ قاتلوہ ظلما و عدوانا ثم علیؓ بن ابی طالب فھولاء المائمہ بعد رسول خداﷺ بالجنہ ونتولی سائر اصحاب النبیﷺ ونکف عما شجر بینہم و تدین ان الائمہ الاربعۃ راشدون مھدیون فضلاء لا یوازیھم فی الفضل غیرھم و نصدق بجمیع الرویات التی ثبتھا اھل النقل۔
(تبیین کذب المفتری صفحہ 160۔161)۔
ترجمہ: ہم سلف کی محبت کا دین رکھتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کی صحبت کے لیے چنا تھا اور ہم ان کی صفت و ثنا کرتے ہیں جیسے اللہ نے ان کی صفت و ثنا کی اور ہم ان سے تولا کا تعلق رکھتے ہیں (تبرا کا نہیں) اور ہم کہتے ہیں کہ حضورﷺ کے بعد امام برحق سیدنا ابوبکرؓ تھے ان کے ذریعے دین کو غلبہ دیا اور انہیں مرتدین پر غالب کیا اور مسلمانوں نے انہیں اسی طرح خلافت میں آگے کیا جس طرح حضورِ انورﷺ انہیں نماز میں آگے کیا تھا پھر امام برحق سیدنا عمرؓ ہیں پھر سیدنا عثمانؓ آپ کے چہرے کو اور رونق بخشے آپؓ کو آپؓ کے قاتلوں نے ظلم اور تعدی سے قتل کیا پھر امام برحق سیدنا علیؓ بن ابی طالب ہیں سو حضورﷺ کے بعد یہی ائمہ ہیں اور ان کی حکومت خلافتِ نبوت تھی اور ہم ان دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے جنت کی شہادت دیتے ہیں جن کے لیے رسول اللہﷺ نے جنت کی شہادت دی اور ہم سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے تولہ (درستی) کا تعلق رکھتے ہیں اور ان میں جو اختلافات چلے ان سے اپنے آپ کو (اپنی زبان اور قلم کو) روکتے ہیں اور ہم اللہ کے حضور اقرار کرتے ہیں کہ یہ ائمہ اربعہ ہی راشدون ہیں ہدایت یافتہ ہیں اور علم و فضل کا پیکر ہیں کوئی بھی فضیلت میں ان کے برابر نہیں اور ہم ان تمام احادیث کو مانتے ہیں جنہیں محدثین نے ثابت مانا ہے۔
واللہ اعلم وبا الصواب۔