حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرما دیا تھا "من کنت مولاہ علی مولاہ" جس کا میں مولا ہوں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بھی اس کا مولا ہے کیا یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہے؟ التماس ہے کہ ہفت روزہ دعوت میں اس کی تحقیق شائع کی جائے۔
سوال پوچھنے والے کا نام: مقصود احمد از چنیوٹجواب:
یہ روایت صحیح بخاری اور مسلم میں موجود نہیں شیعہ حضرات محض پروپگنڈے کے لیے اور اس روایت کے ضعف پر پردہ ڈالنے کے لیے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا نام لیتے ہیں ورنہ حق یہ ہے کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہونا تو درکنار یہ روایت کسی اور کتاب میں بھی سند صحیح اورثقہ راویوں سے مروی نہیں رئیس المحدثین حافظ زلمیعی (متوفی 762ھ) اپنی مایہ ناز کتاب نصب الرایہ میں بسم اللہ بالجہر کی بحث میں لکھتے ہیں:
واحادیث الجہر وان کثرت رواتہا لکنھا کلھا ضیعفہ و کم من حدیث کثرت رواتہ و تعددت طرقہ وھو حدیث ضعیف کحدیث الطیر و حدیث الحاجم والحجوم و حدیث من کنت مولاہ فعلی مولاہ قد لا یزید کثرہ الطرق الضعفاء۔
(نصب الرایہ جلد 1 صفحہ 360 مطبوعہ مصر)۔
یعنی نماز میں بسم اللہ جہر سے پڑھنے کی روایات اگرچہ بہت ہیں لیکن وہ سب کی سب ضعیف ہیں اور یہ اسی طرح ہے جیسے کہ حدیث من کنت مولاہ علی مولاہ بلکہ بعض اوقات کثرتِ طرق بجائے اس کے کہ نقصان ضعف کو جبر کرے اور پورا کرے اس ضعف کو اور بڑھا دیتا ہے حافظ ابنِ تیمیہؒ اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں:
فلا یصح من طریق الثقات اصلا۔
(منہاج السنتہ جلد 4 صفحہ 86 مطبوعہ مصر)۔
یعنی یہ روایت ثقہ اور معتبر طریقے سے ہرگز ثابت نہیں۔
واللہ عالم تحقیق الحال۔
کتبہ خالد محمود عفا اللہ عنہ۔