حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے شمر ذی الجوشن کے سلسلہ سے ماموں ہیں پوری وضاحت کی جائے شیعہ حضرات کے نزدیک چھ سال کے بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی یا نہیں؟
سوال پوچھنے والے کا نام: محمد فاروق عثمان علی صدیقی از عباسی منزل تلہ گنگجواب:
خاص سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی سوتیلی والدہ ام البنین بنتِ حرام حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی چوتھی بیوی تھی قبیلہ بنی کلاب سے تھی ان کا نکاح سیدنا عقیلؓ کی تجویز سے ہوا تھا سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عقیلؓ سے کہا تھا:
برائے من زنی خطبہ کن کے برادر انش از شجعان عرب باشند۔
(عمدۃ طالب و منتخب التواریخ صفحہ 121 ایران)۔
ترجمہ: یعنی میرے نکاح کے لیے کوئی ایسی عورت تجویز کرو جس کے بھائی عرب کے بڑے بہادروں میں سے ہوں اس پر حضرت عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ تجویز فرمائی تھی شمر ملعون انہیں میں سے تھا اور بنی کلاب میں سے تھا انہی میں سے سیدنا عباسؓ علمدار تھے جو سیدنا حسینؓ کے بھائی اور حضرت علیؓ کے بیٹے تھے شمر اس رشتے کے تعلق سے اپنے بھانجوں کے لیے ابنِ زیاد سے امان بھی لکھوا لایا تھا جس کی تفصیل کا موقع نہیں بہرحال اس لحاظ سے یعنی سوتیلی والدہ حضرت ام البنین کے واسطے سے شمر ذوالجوشن سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا رشتے میں ماموں تھا۔
واللہ اعلم تحقیق الحال۔
حضرت جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ اپنے اباؤ کرام سے یہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
ءورث الصبیو یصلی علیہ اذااسقط من بطن امہ دا ستھل صار خاوا ذلم یستھل صارخا لم یورث و کم یصل علیہ۔(تہذیب الاحکام جلد 1 صفحہ 214)۔
ترجمہ: یعنی وہ بچہ جو ماں کے پیٹ سے نکلے اور اس کی آواز سنائی دے جائے تو اس کے لیے وراثت بھی ثابت ہوگی اور اس کی نماز جنازہ بھی پڑھی جائے گی اور اگر اس نے اس دنیا میں سانس نہیں لیا تو نہ اس کے لیے وراثت ثابت ہوگی اور نہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔
یصلی علیہ علی کل حال الا ان یسقط غیر تمام۔
(ایضاً)۔
ترجمہ: ہر حال میں میت کی نماز جنازہ پڑھی جائے سوائے اس کے کہ ولادت ہی نہ تمام ہو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے نواسے اور سیدہ امِ کلثومؓ کے بیٹے زید (جب کہ ماں بیٹے کا انتقال ایک ہی وقت میں ہوا) کی نماز جنازہ اسی ضابطہ کے تحت والدہ کے جنازے کے ساتھ اکٹھی پڑھی گئی تھی تحفۃ العوام میں جو یہ لکھا ہے کہ نماز جنازہ ہر بالغ میت پر واجب ہے اور اس بچے کی جو چھ برس کا ہو چکا تھا تو اس سے مراد غالباً درجہ وجوب ہے یہ نہیں کہ اس سے چھوٹے بچے کی نماز جنازہ جائز ہی نہیں تحفۃ العوام کا یہ فتویٰ ویسے بھی نجفِ اشرف کے مجتہد ملا کاظم خراسانی کے فتویٰ کے صریح خلاف ہے وہ فرماتے ہیں:
نماز میت ہر میت شیعہ اثنا عشری پر مطلقاً واجب ہے خوا شہید ہو خواہ قصاص میں مارا جائے یا خود اس نے اپنے آپ کو مار ڈالا ہو یا ختنہ نہ کیا گیا ہو یا ان کے علاوہ اربابِ کبائر میں سے ہو اسی طرح سنی پر واجب ہے خواہ تقیہ کی حالت میں ہو خواہ نہ ہو اور کفار پر نماز میت جائز نہیں خواہ اصلی کافر ہو یا غیر اصلی اور جو مردہ بلاد اسلام میں پایا جائے وہ مسلمان کے حکم میں ہے اسی طرح بچہ اور دیوانہ جو کہ مومن یا مومنہ سے پیدا ہوئے ہوں مسلمانوں کے حکم میں ہے۔
(ذخیرہ العباد فتاویٰ مجتہد اعظم نجف اشرف صفحہ 100)۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ تحفۃ العوام کی مجتہدین غلط اور تفرقہ انگیز راہ پر چل نکلے ہیں جنازہ ہر مسلمان کا پڑھنا چاہیے خواہ بچہ ہو یا بڑا اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشاد کی رو سے صرف وہی بچہ مستشنیٰ ہے جو ماں کے پیٹ میں مر گیا ہے اور جس نے کہ اس دنیا میں ایک سانس بھی نہ لیا ہو۔