Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

کیا سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی نماز قضا ہونے پر سورج لوٹ کر آیا تھا؟ آپ کی یہ کرامت کس کتاب میں درج ہے؟ محدثین کے نزدیک اس کا کیا درجہ ہے کتاب مدارج النبوت کس کی تصنیف ہے نیز تعریف فرمائی کہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کا محدثین میں کیا درجہ ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   (مولوی) محمد طاہر لودھیانوی چک 151 ۔ج ۔ب ضلع جھنگ

جواب:

سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی نماز قضا ہونے پر سورج کا لوٹ کر آنا اگر روایت صحیح بھی ہو تو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا معجزہ ہے سیدنا علی المرتضیٰ کی کرامت نہیں حافظ ابی بشر ولابی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم ختمی مرتبت کا سر مبارک سیدنا علیؓ کی گود میں تھا اور وہی نازل ہونی شروع ہو گئی اسی اثناء میں حضرت علیؓ کی نماز عصر قضاء ہو گئی اس پر آنحضرتﷺ نے یہ دعا کی:

اللھم انک تعلم انہ کان فی حاجتک وحاجت رسولک فرد علیہ الشمس۔

اس پرسورج کچھ ظاہر ہوا اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے نماز ادا فرما لی اس روایت سے ظاہر ہے کہ سورج حضور ختمی مرتبتﷺ کی دعا سے واپس لوٹا پس یہ حضور سرور کائناتﷺ کا معجزہ شمار ہوگا اس سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی کرامت کہنا صحیح نہیں قاضی ایاز رحمتہ اللہ نے یہ روایت امام طحاویؒ کی نقل سے پیش کی ہے جو مشکل الآثار میں موجود ہے سیدنا ملا علی قاریؒ نے شرح شفا میں اس کی تفصیل فرمائی ہے یہ روایت قواعد محدثین کے مطابق صحیح نہیں اور اس کی کوئی ایسی سند نہیں ملتی جس میں وضاع وکذاب قسم کے راوی موجود نہ ہوں ملا علی قاریؒ موضوعات کبیر میں لکھتے ہیں:

 قال العلماء انہ حدیث موضوع و کم تردالشمس لاحدو انما جست لیوشع بن نون کذافی ریاض النصرہ۔ (موضوعات کبیر صفحہ 89 مطبع مجتبائی دہلی)۔

احقر کے نزدیک موضوع کی بجائے ضعیف کا حکم لگانا احتیاط کے قریب ہے۔ 

واللہ اعلم بحتحقیقۃ الحال۔

2۔ مدارج النبوت حضرت شیخ عبدالحق ممحدث دہلویؒ کی تصنیف کا درجہ معارج النبوت سے بہرحال اولی اور اعلی ہے معارج النبوت احقر کے نزدیک پائہ اعتبار سے ساقط ہے اور اس کا مصنف رفض باطن کا شکار ہے۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ محدثین ہند میں نہایت ممتازمقام رکھتے تھے مشکوٰۃ کی عربی شرح "لمعات التنقیح" اور فارسی کی شرح اشعۃ اللمعات آپ کی ہی تصنیفات ہیں علاوہ ازیں "اکتیبان فی ادلۃ مذہب الامام ابی حنیفۃ النعمان" آپ کی ایک اہم کتاب ہے آپ حضرت شیخ عبدالوہاب المتقیؒ اور حضرت امام ملا علی قاریؒ کے شاگرد تھے آپ کی وفات 1052ھ میں ہوئی آپ محدثین کے اس طبقے میں سے ہیں جو راویوں کی جرح و تعدیل میں مشتعل ہونے کی نسبت احادیث کی شرح و تفصیل میں زیادہ منہمک تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی تصنیفات میں راویوں کی تحقیق اور درجات روایات کی تنقیح بہت کم پائی جاتی ہے یہاں تک کہ بعض علماء انہیں قبول روایت میں بہت متساہل اور فراخ دل شمار کرتے تھے لیکن اس سے انکار نہیں کہ ان کی شخصیت ان کے انداز تصنیف سے بہت ارفع و اعلیٰ اور بلند پایا ہے قبول روایات میں وہ نرم ہوں تو یہ امر دیگر ہے لیکن اگر وہ کسی روایت پر باقاعدہ صحیح ہونے کا حکم لگائیں تو فنی اعتبار سے بلاشبہ لائق اعتماد ہے ہاں تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ محض ان کے نقل و قبول کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ اصول کی روشنی میں باقاعدہ حکم روایت دریافت کیے جائے اور راویوں کی پڑتال کر لی جائے۔

واللہ عالم بحتقیقۃ الحال۔

کتبہ خالد محمود عفا اللہ عنہ۔