مسلمانوں کے جو بنیادی عقائد بتلائے گے ہیں ان سے اور امنت باللّٰه و ملاںٔکته و کتبه ورسله الخ۔ اور کلمہ طیبہ وغیرہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہم کو عقیدہ توحید عقیدہ رسالت، عقیدہ قیامت کی تعلیم دی گئی ہے حشر میں ہم سے ان کے علاؤہ اور کس چیز کی پرستش نہیں ہوگی قرآنِ مجید پر ہمارا ایمان ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پرعمل کرنا ہم اپنا فرض سمجھے ہیں پھر کیا ضروری ہے کہ ہم حضرات خلفاء ثلاثہؓ کی تعریف و توصیف کے غلغلے بلند کر کے اپنے کو پریشانی و ملامت میں گرفتار کریں جب ہم سے ان ہستیوں کے متعلق کچھ پرسش ہی نہیں ہوگی تاہم اُن کے اچھا اور برا سمجھنے کے خواہ مخواہ مکلف کیوں نہیں؟
سوال پوچھنے والے کا نام: سید رضا حسینجواب:
معاف کیجئے گا ہمیں آپ کی تحریر اور نوعیت سوال دیکھ کر کچھ اور خیال دامن گیر ہوگیا ہے مگر چونکہ کچھ بظاہر تحقیق حق مقصود دکھائی دیتی ہے اس لیے نیت پر بھی حملہ نہیں کیا جاسکتا۔
مگر مشکل یہ ہے کہ اتنے بڑے اور اہم مسںٔلہ کے اوپر ہمارے اس باب میں گنجائش کیسے ہوگی اور ہم اس کے اوپر متصل طریقہ پر بحث کیسے کرسکیں گے بہرحال چند موٹی موٹی باتیں عرض کی جاتی ہیں:
حضرات خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجعین کو مومن بلکہ مومن کامل سمجھنا جزو ایمان اور مدار السلام ہے کوئی شخص اس وقت تک جب تک ان حضرات کو مسلمان نہ یقین کرلے نہ قرآن پر اس کا ایمان ہوسکتا ہے اور نہ آنحضرتﷺ کی نبوت و رسالت اور آپ کی مقدس تعلیمات پر اس کے بغیر ایمان ہوسکتا ہے ان حضرات کو اگر ہم اچھا نہ سمجھیں تو حضرات کا کچھ نہیں البتہ ہمارا ایمان خود خطرہ میں ہے۔
لفظی حیثیت سے آپ کا یہ فرمانا بالکل صحیح ہے کہ قیامت کے دن ان حضرات کے متعلق ہم سے پرستش نہیں ہوگی مگر اصلیت منکشف ہوجانے کے بعد غور فرمایئے تو جب تک ہم ان حضرات کو مومن کامل اور ان کے اعمال جلیلہ کو واجب القبول والعمل خیال نہ کریں تو آنحضرتﷺ کی رسالت کے عقیدہ پر ہمارا اکمل یقین ہوگا اور نہ قرآنِ مجید سے ہمارا کوئی تعلق باقی رہے گا واقعات اور تاریخی معلومات و ذخائر سے قطع نظر کر کے ان حضرات کے اسلام کا انکار کرنے کے بعد نہ معلوم کتنی آیات قرآنیہ کو غلط ٹھرانا پڑے گا اور نہ معلوم کتنے جلیل القدر ارشادات حضرت ختمی مرتبتﷺ مہل ماننا پڑیں گے۔
در صورتیکہ نعوذ باللہ من ذلک یہ حضرات مومن کامل نہ یقین کئے جائیں کون ہمیں اطمینان دلا سکتا ہے کہ آنحضرتﷺ کی حیات طیبہ میں عموماً اور آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد سلطنت و خلافت اور حکومت مل جانے پر قرآنِ مجید اور عقائد اسلامیہ بےکم و کاست ہم تک پہنچے ہیں؟ یقیناً ایسی صورت میں ان چیزوں کا محفوظ رہ جانا بالکل بعید از عقل ہے۔
جب قرآنِ کریم ہی مشکوک و غلط ٹہرا (العیاذبالله) تو پھر نہ آنحضرتﷺ کی رسالت باقی رہی اور نہ آپ کی تعلیمات کیونکہ آنحضرتﷺ کے بعد جتنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے بلااستثناء سب نے حضرات خلفائے ثلاثہؓ کو یکے بعد دیگرے اپنا پیشوا تسلیم کر کے انکے ہاتھ پر ہر برضا و رغبت بیعت کی تھی اگر ان حضرات کو مومن کامل نہ سمجھا جاوے گا تو پھر تمام گروہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر حرف آتا ہے اور اگر کہیں اس پوری جماعت پر اس قسم کے لایعنی احتمالات قائم کر لیے گئے تو گویا جن ہاتھوں سے ہم کو قرآن ملا اور جن زبانوں نے آنحضرتﷺ کی نبوت و رسالت کی روایت ہم تک پہنچاںٔی ہے اور جو اپنی چشم دید گواہی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے ہمارے سامنے نبوت کا دعویٰ فرمایا فلاں فلاں معجزات دکھائے یہ پاک تعلیمات ہم کو دیں سب معرض خطر میں پڑجائیں کی اور کس چیز کا بھی اعتبار نہیں رہے گا۔
2۔ حضرات خلفائے ثلاثہ رضوان الله علیہم اجمعین کے مومن کامل ہونے کا انکار کر دینا بظاہر کچھ زیادہ دشوار امر نہیں معلوم ہوتا لیکن نظر غائر سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے انکار پر ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کی ہستیاں اور ان کا ایمان و اسلام معرض خطر میں پڑجاتے ہیں اسی وجہ سے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒ تو تحریر فرماتے ہیں:
خلافت ایں بزرگواراں اصلی است از اصول دین تا وقتیکہ ایں اصل را محکم نگیرند ہی مسئلہ از مسائل شرعیہ حاصل نشود۔
3۔ قرآنِ مجید میں آنحضرتﷺ کے جہاں دلائل نبوت بیان فرمائے گئے ہیں وہاں ایک چیز بطورِ دلیل کے آپ کے شاگردوں کے کمالات بھی بیان کئے گئے ہیں اور جب یہ چیز مشکوک کردی جائے گی قرآنِ مجید کی یہ دلیل بالکل عبث اور مہمل ہو کر رہ جائے گی۔
4۔ قرآنِ مجید میں بیسیوں جگہ ان حضرات کی تعریف کی گئی ہے ان کے کمالات بیان ہوئے ہیں ان کے عمال کو دستور اساسی قرار دیا گیا ان کے مومن کامل ہونے کی شہادت دی گئی ہے ان کی جاں نثاریوں اور راستہ میں بڑی بڑی جاں فشانیوں کے واقعات کا اعتراف کر لیا گیا ہے۔
اگر ان حضرات کو مومن کامل نہ مانا جائے تو قرآنِ مجید کی یہ سب چیزیں غلط ہوجائیں گی جس کے دوسرے ہوجائیں گے کہ قرآنِ کریم میں خلاف واقع باتوں کی بھرت لازم آئے گی۔
5۔ ان حضرات کے مومن کامل نہ ماننے سے سارا مرکزِ ایمان خطرے میں پڑجاتا ہے جس کے بعد پھر نہ کوئی مسمان رہ سکتا اور کہلا سکتا ہے اور نہ درحقیقت اس کے ایمان و اسلام کو مستحکم کہہ سکتے ہیں۔
6۔ ما سوا ان تمام احادیث و آیات کے بے کار ہوجانے کے جن کے قلوب آنحضرتﷺ شیدائی اور سچی محبت سے معمور ہیں وہ تو ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ آنحضرتﷺ نے جس باغ کی میں اپنی پوری عمر صرف کردی اور جن پودوں کی سرسبزی و شادابی کے لیے 23 سال تک آبیاری فرمائی وہ بے کار اور ایک لایعنی کوشش تھی نہ آپ کی محبت کا ان پر اثر ہوا اور نہ ان میں ایمان و اسلام کی خوبو ہوئی نہ انہوں نے اچھے کام کئے اور نہ آنحضرتﷺ کے نقش قدم پر چلے اور جو کچھ آنحضرتﷺ کے حسنات و کمالات تھے وہ آپ کی وفات کے بعد آپ ہی کے ساتھ ہوگئے ان کا سلسلہ دراز نہ ہوسکا اور معلوم نہیں بات کہاں سے کہاں تک پہنچتی ہے معاذ الله ثم معاذ الله اب باتوں کا لازم نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نہ ہم مسلمان کہے جاسکتے ہیں اور نہ ہمارے پاس اپنے اسلام کی کوئی دلیل اور جو کچھ بھی ہے وہ مشکوک اور بالکل بے فروغ صرف ایک دعویٰ بلا دلیل ہے۔
7۔ قرآنِ مجید نے نہ معلوم کتنی جگہ ان حضرات کی عجب دل کش اور دل نشین انداز میں تعریف فرمائی ہے اس کے علاؤہ ذرا باب الاحادیث پر غور فرمائیے آنحضرتﷺ اپنے خصوص صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علاؤہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں بس اس کو سن کر ڈرنا چاہیئے۔ اس سے زیادہ اور ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے ارشاد ہوتا ہے:
اللّه الله فی اصحابی لا تتخذوهم من بعدى عرضا من أحبهم فحبى احبهم ومن ابغضهم فبغضى ابغضهم۔
یعنی میرے اصحاب سے محبت کرنا میری محبت کی وجہ سے ہے اور بعض رکھنا مجھ سے بغض رکھنے کی وجہ سے ہے یہ تو عام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق تھا باقی رہے خواص صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو ان کا کچھ اور ہی مقام تھا سیدنا ابوبکر صدیقؓ سیدنا فاروقِ اعظمؓ کو اپنا وزیر فرمایا ان کی اقتداء فرمانے کا حکم دیا ان کے ساتھ وہ برتاؤ قائم کیئے جو ایک دوست ایک آقا ایک بزرگ ایک نبی اپنے متبع اور جگری دوست کے ساتھ کرتا ہے۔
8۔ اکابر علمائے امت نے ان حضرات کے منکرین پر جو فتاویٰ دیتے ہیں مختصر ان کو بھی ملاحظہ فرمائیے:
علامہ شامی اپنے مجموعہ رسائل میں فرماتے ہیں:
وفی التتارخانيه ولو قال ابوبكر الصديقؓ لم يكن من الصحابة يكفر لان الله تعالیٰ سماه صاحبه يقوله اذ يقول لصاحبه لا تحزن۔
یعنی اگر کسی شخص نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی حمایت سے انکار کردیا تو وہ کافر ہوگیا اس لیے کہ خدا نے ان کو آنحضرتﷺ کا صاحب کہا اور فرمایا ہے۔
اذ يقول لصاحبه لا تحزن وفی الظهيريته ومن انكر امامة ابی بكرؓ فهو كافر على قول بعضهم وقال بعضهم مبتدع والصحيح انه كافر وكذا من انكر خلافة عمر بن خطابؓ۔
یعنی جس شخص نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی امامت و خلافت کا انکار کردیا اس کو بعض لوگ کافر کہتے ہیں اور بعض لوگ بدعتی اور اصح مذہب یہ ہے کہ وہ کافر ہے۔
وفی البزازية ومن انكر خلافة إبی بكرؓ فهو كافر فی الصحيح و من افكر خلافة عمرؓ كافر فی الاصح۔
انہی علامہ شامی نے ابو محمد بن زید کی ایک روایت نقل کی ہے کہ جو شخص حضرت ابوبکر صدیقؓ حضرت فاروقِ اعظمؓ حضرت عثمان غنیؓ حضرت علی المرتضیٰؓ کے متعلق یہ عقیدہ رکھے کہ وہ کافر یا گمراہ تھے اس پر حکم قتل ہے بہرحال فقہاء کی رائے یہی ہے گواحوط تتکلمین کا قول ہے۔
الغرض ان تمام مقدمات سے لازمی طور پر نتیجہ برآمد ہوجاتا ہے کہ بغیر حضرات خلفائے ثلاثہ کے مومن کامل مانے ہوئے نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ایمان واسلام ثابت ہوتا ہے اور نہ قرآن کے تحفظ کا یقین باقی رہتا ہے نہ آنحضرتﷺ کی نبوت و رسالت پر کوئی دلیل بیان کی جاسکتی ہے نہ آپ کے ساتھ کوئی مسلمان دعویٰ محبت میں صادق القول کہا جاسکتا ہے دین اسلام کی چھوٹی سے بات اور بڑے سے بڑا اہم مسئلہ انہی حضرات کی ذات سے وابستہ ہے ظاہر میں ان ہستیوں کے متعلق قیامت میں پرسش معلوم نہیں ہوتی مگہر باطناً ان کے اسلام کا انکار کردینے سے ساری چیزوں کا انکار اور عبث ہونا لازم آجاتا ہے اس لیے ان چیزوں کی پرسش کے ذیل میں ان ہستیوں کے متعلق پرشش بھی حاصل ہوجائے گی۔
نقلہ خالد محمود عفا الله عنه 27 مارچ 64ء۔