Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

حضورﷺ کا دعائے ابراہیمی سے مبعوث ہونا نصِ قرآنی سے ثابت ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد میں رسول کے مبعوث ہونے کی دعا فرمائی تھی جس کا ثبوت قرآنِ پاک میں بیّن ہے اسی طرح امت کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا فرمائی تھی کہ میری اولاد میں ہی سے امام ہو جس طرح حضورﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے حضراتِ حسنین کریمینؓ کے بغیر کسی امام کا ہونا از روئے قرآن و شریعت ثابت نہیں لہٰذا امام اعظمؒ کا امام ماننا محض باطل ہے آپ کی امامت عند الشریعت قرآن و حدیث سے ثابت نہیں امام اعظمؒ چونکہ دوسری قوم و نسل سے ہیں اس واسطے ان کا امام ماننا غلط ہے از روئے کتاب و سنّت اس پر روشنی ڈالیں؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   محمد فضل الرحمٰن عفى اللہ عنه

جواب:

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو منصبِ امامت عطا ہوا وہ مدارجِ نبوت کا ہی ایک درجہ علیا تھا اللہ رب العرت نے نبوت کو مختلف درجے عطا کر رکھے ہیں کبھی نبوت رسالت کی شان سے سرفراز ہوتی ہے اور کبھی یہ نبوتِ محضہ کے درجہ میں ہوتی ہے کبھی نبوت کو امامت کا مقام ملتا ہے اور کبھی نبوت اس شانِ امامت کے بغیر جلوہ گر ہوتی ہے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جو درجۀ امامت ملا وہ امامت فی النبوت کا مقام تھا۔ ایسی امامت جو ثبوت کے بغیر ہو اس کی امامتِ ابراہیمی سے کوئی نسبت نہیں یہ صحیح ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی ذرّیت کے لیے اس مرتبہ امامت کی استدعا کی تھی اور اس کا ثبوت قرآنِ عزیز میں موجود ہے لیکن اس سے مراد اسی امامت فی النبوت کے مرتبے کی طلب ہے امامت بغیر نبوت کے منصب کی استدعا نہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اسی دعا کا ثمرہ تھا کہ ان کی ذرّیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت داؤدؑ علیہ السلام حضرت سلیمانؑ علیہ السلام وغیرهم من الانبیاء اور بالآخر حضور خاتم الانبیاءﷺ امامت فی النبوت کی شان سے فائز ہوئے امامت فی النبوت بے شک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذرّیت میں محصور ہے لیکن امامتِ محضہ (جو بغیر نبوت کے ہو) ہرگز نسلِ ابراہیمی سے خاص نہیں یہ منصبِ امامت ہر مردِ مومن کو مل سکتا ہے اور یہ کوئی آسمانی منصب نہیں بلکہ ایک اکتسابی مرتبہ ہے قرآنِ عزیز کی رو سے ہر مردِ مومن اس مرتبے کا طلبگار اور اُمید وار ہے ہم سب یہ قرآنی دعا بار بار پڑہتے ہیں۔

 وَٱجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِينَ إِمَامًا۝۔  

(پارہ 19 سورۃ الفرقان آیت 74)۔

ترجمہاے اللہ! ہمیں پرہیزگار لوگوں کی امامت سے نواز۔

 مشہور شیعہ مفسر علامہ علی بن ابراہیم قمی اس دلیل سے بہت پریشان ہیں انہیں اس بات کا غم ہے کہ جس طرح امامتِ نبوت نسلِ ابراہیمی سے خاص ہے امامتِ محضہ کیوں نسلِ ابراہیمی سے خاص نہیں اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لیے علامہ قمی ہمارے اس استدلال کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ آیتِ شریفہ ہی تحریف کا شکار ہے ان کے عقیدے میں یہ آیت اصل میں یُوں تھی۔

 واجعل لنا من المتقين اماماً۔

(تفسیر قمی صفحہ 284)۔

ترجمہ: اے اللہ پرہیز گار لوگوں کو ہمارا امام بنا۔

 سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کو جب ہم امام کہتے ہیں تو اس سے یہی اکتسابی امامت مراد ہے کوئی آسمانی مرتبہ امامت ہرگز نہیں آسمانی مرتبہ امامت حضور ختمی مرتبتﷺ کی ذاتِ اقدس پر ختم ہے اور وہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مذکورہ بالااستدعا کے آخری مصداق ہیں حضرات حسنین کریمینؓ کی امامت کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا سے کوئی تعلق اور رابطہ نہیں۔ 

 ہم اہلِ سنت و الجماعت جب حضرت امام اعظمؒ یا امام مالکؒ کو امام کہتے ہیں تو اس سے یہی مراد ہوتا ہے اکتسابی مرتبہ امامت ہے جو اِن حضرات کو علم و اجتہاد میں کمالِ استعداد اور ہمہ تن انہماک کی بدولت حاصل ہوا حضرت امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ فنِ حدیث میں مرتبہ امامت پر فائز تھے اورامام ابوالحسن اشعریؒ اور ابو المنصور ماتریدیؒ کو علمِ کلام میں شانِ امامت حاصل تھی۔ 

حاصل اینکہ سیدنا حسنؓ ہوں یا سیدنا حسینؓ امام اعظمؒ ہوں یا حضرت امام مالکؒ امام بخاریؒ ہوں یا امام مسلمؒ اور امام اشعریؒ ہو یا حضرت ماتریدیؒ سب کے سب امتِ محمدیہ کے روشن چراغ اور اپنے اپنے اکتساب و محنت پر اپنے اپنے درجہ میں شانِ امامت سے سرفراز تھے۔

 ان حضرات قدسیہ میں آسمانی مرتبہ امامت جس سے مراد وہ امامت فی النبوت کا مقام ہے کسی بزرگ کو حاصل نہ تھا کیونکہ حضور اکرمﷺ‎ خاتم النبین ہیں پس ان حضرات کی امامت کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امامتِ مطلوبہ سے کوئی واضح تعلق نہیں۔

 اس تفصیل سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت امام اعظمؒ کا دوسری نسل سے ہونا ان کی شانِ امامت سے ہرگز متصادم نہیں بلکہ ان کے علم و ایمان کی بشارت کے طور پر آنحضرتﷺ کا ایک علیحدہ مستقل ارشاد موجود ہے جو اُن کی امامت فی العلم کی ایک واضح شہادت ہے آنحضرتﷺ نے فرمایا:

 لو كان الدين عند الثريا لذهب به رجل من ابناء فارس حتى يتناوله۔

(صحیح مسلم جلد 2 صفحہ 312)۔

ترجمہ: اگر ایمان ثریا ستاروں تک بھی دور چلا جائے تو فارسی نسل لوگوں میں ایک ایسا شخص ہوگا جو اسے وہاں سے بھی لے آئے گا۔ 

اس حدیث کی تشریح میں امام سیوطیؒ حنفی نہ ہونے کے باوجود فرماتے ہیں: 

قد بشرﷺ بالامام ابى حنيفة فی الحديث۔  

(تبییض الصحیفہ صفحہ 120)۔

ترجمہ: آنحضرتﷺ نے اس حدیث میں حضرت امام ابوحنیفہؒ کے ہونے کی بشارت دی ہے۔ 

ان حقائق سے یہ حقیقت بالکل بے عبار ہو جاتی ہے کہ حضرت امام اعظمؒ کو امام مان لینا قرآن وحدیث کے خلاف بالکل نہیں۔ 

 واللہ اعلم بالصواب۔   

کتبہ خالد محمود عفا اللہ عنہ۔