قرآن مجید میں ہے مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ الخ۔
(سورة الفتح آیت 29)۔
يہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان کا بیان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی آپس میں رحیم اور کفار پر سخت تھے اگر یہ صحیح ہے تو پھر سیدنا امیرِ معاویہؓ اور سیدنا علیؓ کی آپس میں خانہ جنگی کیوں ہوئی جب کہ الله تعالیٰ خود فرما رہے ہیں کہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں نیز یہ آیت صرف خلفائے راشدینؓ کے حق میں نازل ہوئی ہے یا تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حق میں؟ بذریعہ "دعوت" تفصیل سے روشنی ڈال کر مطمئن فرمائیں؟۔
سوال پوچھنے والے کا نام: الٰہی بخش لیدر مرجنٹ کالا باغجواب: یہ آیت صرف خلفائے راشدینؓ کے لیے نہیں بلکہ بہںٔیت مجموعی تمام جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مدح و منقبت پر مشتمل ہے اگر اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے کسی خاص طبقے کی تخصیص ہوسکتی ہے تو وہ اصحابِ بیعت الرضوان میں جن کا ذکر آغاز سورت سے چلا آرہا ہے امت کے معاملات جب تک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کے سپرد رہے اسلامی معاشرہ بے شک اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ الخ۔
(سورة الفتح آیت 29)۔ کا مظہر بنا رہا لیکن یہ حالت اسی دور تک رہی جب تک امت مسلمہ زیادہ تر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت پرمشتمل تھی آنحضرتﷺ کی وفات شریفہ کا زمانہ جوں جوں دور ہوتا گیا امتِ مسلمہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعداد کم ہوتی گئی اور دوسرے مسلمان جو صحابی نہ تھے اکثریت بنتے چلے گئے اب ایسے دور کے مسلمان اگر رحماء بینھم کا مظہر نہ رہیں تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس صفت کی آئینہ دار نہیں رہی بلکہ دیکھا جائے تو ایسے دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مجموعی حیثیت یا تنظیم کسی محسوس صورت میں ملتی ہی نہیں وہ اگلے دور کے مسلمانوں میں اس طرح ملے جلے نظر آتے ہیں کہ اس دور کے فیصلے نہ جماعتِ صحابہ کے فیصلے سمجھے جاسکتے ہیں اور نہ ان کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اختلافات کہا جاسکتا ہے اس بات سے انکار نہیں کہ ان اختلافات نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ناموں سے شہرت حاصل کی لیکن یہ اختلافات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کا اختلاف نہیں کہلا سکتے کیونکہ اس وقت کی جماعتی زندگی غیر صحابہ کا غلبہ اور تسلط تھا یہ آیتِ شریفہ بہںٔیت مجموعی تمام جماعتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مدح پر مشتمل ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے انفرادی تاثرات بالخصوص جب کہ ان کے ساتھ غیر صحابہ بھاری اکثریت سے شامل ہوں ان صفات کے پابند نہیں۔
فَأَلَّفَ بَيۡنَ قُلُوبِكُمۡ فَأَصۡبَحۡتُم بِنِعۡمَتِهِ إِخۡوَٲنًا الخ۔
(سورۃ آل عمران آیت 103)۔
کا مصداق بھی وہی دور ہے جب کہ امت مسلمہ زیادہ تر جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر مشتمل تھی اور امت کے معاملات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کے ہی سپرد تھے حقیقت یہ ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کے دور میں جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بجائے غیر صحابہ کا غلبہ تھا اور وہ بھی زیادہ تر وہی لوگ تھے جو حضرت علی المرتضیٰؓ کے کہنے سننے میں نہ تھے ہمیں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے اس دور کے متعدد ایسے خطبے ملتے ہیں جن میں وہ اپنی مجبوری اور ان لوگوں کی سینہ زوری کے بہت شاکی نظر آتے ہیں سیدنا علی المرتضیٰؓ خود فرماتے ہیں:
يملكوننا ولا نملكلھم۔
(نہج البلاغہ جلد 2 صفحہ 98)۔
ترجمہ: یعنی یہ لوگ اپنا حکم ہم پر چلاتے ہیں اور ہماری نہیں سنتے۔
ایسے لوگوں کی معیت اگر بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بعض دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بدگمان کئے رکھے اور یہ لوگ ہر وقت ایسے مواقع کی تاک میں رہیں اور باہمی معاملات میں اختلاف و انشقاق کے کانٹے ہوتے رہیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں سیدنا علی المرتضیٰؓ اور سیدہ ام المومنینؓ کے واقعاتِ جمل یا سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کے تمام تر اختلافات و فساد نیت پر نہیں صرف غلط فہمیوں پر مبنی تھے بایں ہمہ ان حضرات میں رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ الخ۔ (سورة الفتح آیت 29)۔ کی جھلک پھر بھی کسی نہ کسی انداز میں موجود تھی جنگِ جمل کے بعد سیدنا علیؓ کا سیدہ ام المومنینؓ سے حسنِ سلوک اور سیدنا طلحہؓ کے ہاتھ کو اس لیے چومنا کہ اس ہاتھ نے جنگِ احد کے دن حضور ختمی مرتبتﷺ کے لیے ڈھال کا کام دیا تھا یہ تمام واقعات اس حقیقت کے شاہد ہیں۔
ثانیاً صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کفار کے مقابلہ میں بے شک رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ الخ۔ (سورة الفتح آیت 29)۔ کی شان سے ممتاز تھے قرآن عزیزہ اُن کی اس صفت کو اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ الخ۔ (سورة الفتح آیت 29)۔ کے ساتھ ملا کہ بیان کرتا ہے یعنی کفر کے مقابلے میں وہ بے شک ایک اور باہمی طور پر ایک دوسرے سے شفیق و رحیم ہیں سیدنا علی المرتضیٰؓ اور سیدنا امیرِ معاویہؓ اپنے اختلافات کی پوری شدت کے وقت بھی اس صفت رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ سے ممتاز تھے یعنی کفر کے مقابلے میں اختلافات کے باوجود وہ ایک وہ دوسرے سے شفیق و رحیم تھے یہی وجہ ہے کہ جب قیصرِ روم نے سیدنا علیؓ کے خلاف سیدنا امیرِ معاویہؓ کو امداد کی پیشکش کی تو آپؓ نے باہمی شدت اختلاف کے باوجود اسے یہ جواب دیا کہ تیری جو آنکھ سیدنا علیؓ کے خلاف اُٹھے گی وہ نکال دی جائے گی اور جو ہاتھ اُٹھے گا وہ کاٹ دیا جائے گا۔
ان واقعات کی روشنی میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ان بزرگوں کے اختلافات کی صفت سے متصف ہونے کے
وقت رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ الخ کی شان سے پوری طرح سے ممتاز تھے۔
واللہ اعلم بالصواب۔
کتبہ خالد محمود عفا الله عنه۔