Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیرت کے جلسوں میں یہ بات عام طور پر سنی جاتی ہے کہ جناب پیغمبر اسلامﷺ‎ بعثت سے پہلے بھی اتنے اعلیٰ اخلاق رکھتے تھے کہ جب آپ نے دعویٰ نبوت فرمایا تو وہی اخلاقی بلندیاں آپﷺ‎ کے دعویٰ نبوت کی دلیل بن گیں بذریعہ "دعوت" مطلع فرمائیں کہ اس ماحول میں ان دنوں کیا کوئی اور شخص بھی ایسا تھا جو اخلاقی بلندیوں میں معروف تھا اور جس کی رفاقت حضورﷺ کے مشن کے لیے ممد و معاون بن سکتی تھی؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   سعید الرحمٰن از سرگودھا

جواب:

آنحضرتﷺ جو فضاںٔلِ اخلاق کا پیکر اور صدق و دیانت اور عفت و عدالت کی چلتی پھرتی تصویر تھے آپﷺ‎ کے اخلاقِ عالیہ نے بعثت سے پہلے ہی ان لوگوں کو اپنے بہت قریب کردیا تھا جو مزاج اور اخلاق میں آپ سے طبعی مناسبت رکھتے تھے۔

اس حقیقت سے کوئی صاحبِ بصیرت انکار نہیں کر سکتا کہ بعثت سے پہلے آنحضرتﷺ‎ کے اپنے گھر کی چار دیواری سے باہر صرف ایک ہی خاص دوست تھے اور وہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ تھے وہ آپﷺ‎ کے سفر حضر کے ساتھی اور مصاحب تھے جب حضورﷺ کی عمر شریف بیسں سال کے قریب تھی تو آپﷺ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی معیت میں شام کا دوسرا سفر کیا تھا سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان دنوں ان دونوں عظیم ہستیوں میں وجہ اقتراب اور موضوع ارتفاق کیا تھا؟ آغازِ وحی تو اس کے مدتوں بعد ہوا اس وقت ان دونوں ہستیوں میں فضائلِ اخلاق ہی وہ مشترک سر چشمہ تھے جنہوں نے ان دونوں کو ایک دوسرے کے بہت قریب کر رکھا تھا چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جس طرح حضورﷺ کے اعلانِ نبوت کے ساتھ ہی حضور اکرمﷺ‎ کے اخلاق عالیہ ایک دلیل بن کر سامنے آگئے اور کوئی مؤرخ اور سیرت نگار ان کے ذکر کے بغیر آگے نہیں چل سکتا اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے ذکر میں ہر سیرت نویس اور تذکرہ نگار سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی سابقہ دوستی کا ذکر کرنے پر مجبور ہے حضرت علامہ شیخ محمد خضری مصری نور الیقین فی سیرت سید المرسلین میں لکھتے ہیں:

آپﷺ‎ کے گھر کے لوگوں کے سوا جس نے سب سے پہلے آپﷺ‎ کی آواز کو قبول کیا وہ سیدنا ابوبکرؓ بن ابی قحافہ بن عامر بن کعب بن سعد بن مرہ تیمی قریشی تھے جو قبل نبوت بھی سرکار دوعالمﷺ‎ کے دوست تھے۔

(نور الیقین صفحہ 28)۔

مولانا شبلی مرحوم اپنی مشہور کتاب سیرت النبی میں آنحضرتﷺ‎ کے آغاز میں دعوت اور اسلام اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی شخصیت کا نقشہ ان لفظوں میں کھینچتے ہیں:

آنحضرتﷺ‎ نے جب فرضِ نبوت ادا کرنا چاہا تو سخت مشکلیں پیش نظر تھیں اگر آپ کا فرض اسی قدر ہوتا کہ مسیح علیہ السلام کی طرح صرف دعوتِ تبلیغ پر اکتفا کریں یا حضرت کلیم علیہ السلام کی طرح اپنی قوم کو لے کر مصر سے نکل جائیں تو مشکل نہ تھی لیکن خاتم انبیاءﷺ‎ کا کام خود سلامت رہ کر عرب اور نہ صرف عرب بلکہ تمام عالم کو فروغِ اسلام سے منور کر دینا تھا اس لیے نہایت تدبیر اور تدریج سے کام کرنا پڑا۔

سب سے پہلا مرحلہ یہ تھا کہ یہ پرخطر راز پہلے کس کے سامنے پیش کیا جائے اس غرض کے لیے صرف وہ لوگ انتخاب کیے جاسکتے تھے جو فیضیابِ صحبت رہ چکے تھے جن کو آپﷺ‎ کے اخلاق و آداب کے ایک ایک حرکات و سکنات کا تجربہ ہوچکا تھا جو پہلے تجربوں کی بناء پر آپ کے صدق دعویٰ کا قطعی فیصلہ کرسکتے تھے یہ لوگ سیدہ خدیجہؓ آپﷺ کی حرم محترم تھیں حضرت علیؓ تھے جو آپ کی آغوش میں پلے تھے سیدنا زیدؓ تھے جو آپ کے آزادہ کردہ غلام اور بندہ خاص تھے سیدنا ابوبکرؓ تھے جو برسوں سے فیضیاب خدمت تھے سب سے پہلے آپ نے حضرت خدیجہؓ کو یہ پیغام سنایا وہ سنتے ہی پہلی مؤمن تھیں پھر اور بزرگوں کی باری آئی اور یہ سب ہمہ تن اعتقاد تھے۔

سیدنا ابوبکرؓ نہ دولت مند ماہر النساب اور صاحب الرائے فیاض تھے ابنِ سعد نے لکھا ہے کہ جب وہ ایمان لائے تو اُن کے پاس چالیس ہزار درہم تھے غرض ان اوصاف کی وجہ سے مکہ میں ان کا خاص اثر تھا اور معززین شہر ان سے ہر بات میں مشورہ لیتے تھے ارباب روایت کا بیان ہے کہ کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے سیدنا عثمانؓ سیدنا زبیرؓ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ سیدنا سعد بن وقاصؓ فاتح ایران اور سیدنا طلحہؓ سب ان ہی کی ترغیب اور ہدایت سے اسلام لائے ان کی وجہ سے یہ چرچا چپکے چپکے اور لوگوں میں بھی پھیلا اور مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔

مشهر مستشرق سرولیم میور اپنی کتاب Muhammad and islam محمد اینڈ اسلام میں لکھتے ہیں جو لوگ اول اول ایمان لائے وہ اکثر جوان ہی تھے مگر ان میں سے ایک شخص سیدنا ابوبکرؓ نامی جو حضورﷺ کا جانی یار اور آپ سے عمر میں تین سال چھوٹا تھا پختہ عمر کا تھا یہ شخص نہایت سنجیدہ نرم مزاج صاحبِ تدبیر اور بڑا لائق تھا سیدنا ابوبکرؓ کی قسمت ازل سے پیغمبر صاحبﷺ کے ساتھ ہی پڑی تھی اور زندگی کے تمام تغیرات میں اخیر تک آپ کی قوت کا مضبوط ستون بنا رہا اور ان کی بیٹی سیدہ عائشہؓ جو آنحضرتﷺ کی بیوی تھیں کہتی ہیں کہ مجھے وہ وقت یاد نہیں جب میرے ماں باپ مسلمان نہ تھے اور نہ یہ یاد ہے کہ کب پیغمبر صاحبﷺ صبح و شام دو وقت ہمارے گھر نہ آتے تھے اور خود پیغمبر صاحبﷺ ہی فرمایا کرتے تھے کہ میں نے جس کسی کو اسلام کی طرف دعوت دی ہے ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہ ابتداء میں اس نے کچھ دیر اور تردد نہ کیا ہو سوائے سیدنا ابوبکرؓ کے کہ جب میں نے اس پر اسلام پیش کیا تو اس نے قبول کرنے میں مطلقاً کوئی تردد نہیں کیا سیدنا ابوبکرؓ اس وقت بہت اقبال مند اور خوشحال تاجر تھا اور اپنا مال مسلمان غلاموں کے خریدنے اور آزاد کر نے میں خرچ کرتا تھا جو اپنے کافر مالکوں سے بوجہ مسلمان ہو جانے کے ستائے جاتے تھے۔

سیدنا ابوبکرؓ کے ایمان لانے کے اثنائے ذکر میں ان کی شخصیت کے متعلق ایسے شاندار ریمارک قریباً ہر سیرت نویس اور اسلامی تاریخ لکھنے والے نے تحریر کیے ہیں۔ اس کی جامع وجہ یہ ہے کہ آغاز کار میں اشاعتِ اسلام اور دعوت الی اللہ میں رسول خداﷺ کے ساتھ مال و جان سے رفیقِ حال میں ان کی خدمات سب سے زیادہ ممتاز ہیں توضیح اس کی یوں ہے کہ آنحضرتﷺ کی بعثت سے اصل مقصود الٰہی تبلیغِ حق اور دعوت الی اللہ ہے اور یہ امر سوائے مال و جان کو وقفِ خدمت کر دینے اور پیش آمدہ مزاحمتوں کا مقابلہ نہایت صبر و استقامت سے کرنے کے حاصل نہیں ہوسکتا پس دیکھنا چاہیے کہ آغاز کار میں اس خدمت کے لائق آنحضرتﷺ کے ساتھ کون ہوسکتا ہے؟۔

1۔ سیدہ خديجة الكبریٰ رضى الله عنہا:

بے شک سب سے پہلے ایمان لائیں اور اپنا سارا مال آنحضرتﷺ کے سپرد کردیا لیکن وہ آپ کی زوجہ محترمہ تھیں آپﷺ کے زیر اثر تھیں بیوی کا اپنے نیک خاوند سے ایسا سلوک کوئی تعجب کی بات نہیں ہے لیکن وہ عورت ذات تھیں تبلیغ و دعوت میں اپنی ذات سے آپﷺ کے ساتھ نہیں ہوسکتی تھیں۔

 2ـ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ:

بے شک یہ بھی شروع ہی میں ایمان لائے لیکن ابھی چھ یا دس سال کے نابالغ بچے تھے تکالیف شرعیہ کے مکلف نہ تھے بچپن کی وجہ سے ان صنادید قوم پر کوئی اثر نہیں رکھتے تھے جن سے آنحضرتﷺ کو واسطہ پڑنے والا تھا جن کا دستور و آئین یہ تھا کہ نابالغ بھائیوں کو جو گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو کر میدان میں نہ نکل سکیں وراثت پدری میں سے حصہ نہیں دیتے تھے کئی سال کے بعد سیدنا علی المرتضیٰؓ جوان ہو کر جو خدمات بجالائے وہ سب قابلِ قدر ہیں لیکن یہاں ابتدائے کار کا ذکر ہے علاؤہ اس کے وہ آنحضرتﷺ کے زیرِتربیت ہیں اور ساری عمر اسی طرح رہے ان کی خدمات بھی تعجب ناک نہیں۔

 3ـ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ:

آپ بھی شروع ہی میں نعمتِ اسلام سے مشرف ہوئے لیکن وہ قوم کے لحاظ سے غیر قریشی ہیں غلام آزاد کردہ ہیں مغرور و تکبر اور مالدار قریشیوں کے سامنے انکی کوئی وقعت نہیں ان کی جو کچھ بھی پوچھ گچھ ہوئی ہے وہ صرف آنحضرتﷺ کی وجہ سے ہے پھر یہ کہ آنحضرتﷺ کے پروردہ ہیں۔ 

انعمت عليه (پارہ22 احزاب) حضور کا ان پر اثر ہے۔ ان کی جان نثاری اور وفاداری بھی قابلِ قدر ہے لیکن موجب تعجب نہیں۔ 

4۔ حضرت امِّ ایمن رضی اللہ عنہا:

یہ بھی شروع ہی میں نور ایمان سے منور ہوںٔیں لیکن آپ کی موروثی کنیز ہیں عورت زاد ہیں ابوجہل و عتبہ اور امیہ و ولید جیسے سرکش ومتمول قریشیوں کے مقابلہ میں کیا کرسکتی ہیں۔

 5ـ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ:

یہ بھی پہلے ہی دن ایمان لے آتے ہیں کسی کو کلام نہیں نسب میں قریشیوں کے ہم ذات ہیں مال میں ان کے ہم سنگ ہیں مروت و احسان اور اخلاق وطہارت میں ان سے بڑھ کر ہیں اپنے پرائے سب کی نظر میں معزز و مقبول ہیں مساکین و مظلومین کی امداد میں مشہور ہیں۔

علاؤہ بریں سابقاً آنحضرتﷺ کے ممنون و زیر اثر بھی نہیں ہیں سواۓ آنحضرتﷺ کے اخلاقی حالات کے علم اور صدق و صفا اور ایثار و جاں نثاری کے جذبات سے لبریز ہونے کے اور کوئی وجہ درمیان میں نہیں ہے پھر یہ کہ خدا تعالیٰ کی حکمت بین توفیق و سازگاری سے خدمت اسلام اور آنحضرتﷺ کی رفاقت کے لیے عملی طور پر ہر ہر خدمت میں غلامانہ کمر بستہ ہیں ایک ہاتھ میں مال و عیال اور دوسرے میں جان رکھ کر قربان کرنے کے لیے سب کچھ آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا ہے اور یہ میرا اور تمہارا کی تمیز اُٹھا دی ہے اور لطف یہ ہے کہ اس مال سے آنحضرتﷺ کو سوائے اس کے کہ آپﷺ اسے دینِ خدا کے لیے قبول فرمائیں کوئی واسط و تعلق نہیں اور اس بات کی قدر خود آنحضرتﷺ کے قلبِ پاک میں بھی بیش از بیش ہے۔ چنانچہ آپ سیدنا عمرؓ کی ایک بات پر بصیغہ جمع سب کو خطاب کر کے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی سابقیتِ اسلام اور مالی و جانی خدمات کا ذکر کر کے فرماتے ہیں:

ان الله بعثنى اليكم فقلتم كذبت وقال ابوبكرصدقؓ و ولسانی بنفسه وماله فهل انتم تارکوا الى صاحبی۔ 

(رواہ الترمذی جلد)۔

یعنی بے شک خدا تعالیٰ نے تم سب کی طرف سے مبعوث کیا (سو شروع دعوت میں) تم نے کہا کہ آپ نے (معاذ الله) جھوٹا دعویٰ کیا لیکن سیدنا ابوبکرؓ نے کہا کہ آپﷺ نے سچ کہا تو کیا تم میری خاطر میرے رفیق کا پیچھا چھوڑو گے کہ نہیں (یعنی چھوڑ دو) نیز فرمایا:

ما نفعنى مال احد قط ما نفعنى مال ابی بكرؓ الحديث۔

(رواہ النسائی جلد جامع الترمذی جلد 2 صفحہ 558 لکھنؤ)۔ 

یعنی مجھے دین کی خدمت میں کسی کے مال نے ایسا فائدہ نہیں دیا جیسا فائدہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے دیا نیز فرمایا:

رحم اللہ ابابكر زوجنى ابنته وحملنی الى دار الهجرة راعتق بلالاؓ من ماله و ما نفعنى مال فی الاسلام ما نفعنى مال إبى بكرؓ۔ 

(رواہ النسائی)۔

یعنی ابوبکرؓ پر خدا کی رحمت ہو اس نے اپنی (صغیرہ) بیٹی مجھے بیاہ دی اور مجھے سوار کر کے دارِ ہجرت (مدینہ شریف) میں لے گیا اور اس نے میرے (عاشقِ صادق) سیدنا بلالؓ کو اپنے ذاتی مال سے خرید کر آزاد کیا اور مجھے (خدمت) اسلام میں کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں دیا جتنا سیدنا ابوبکرؓ کے مال نے دیا بس یہی خصوصیات و امتیازات ان کے احق بالخلافہ ہونے کے نشان ہیں اور اسی نگاہ سے آنحضرتﷺ نے آپؓ کو امیرِ حج اور اپنی وفات شریف والی بیماری میں اپنی بجائے امام نماز مقرر کیا؟۔

سیرت المصطفیٰ میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے ان حالات سے پتہ چلتا ہے کہ ان دونوں عظیم شخصیتوں میں اگر طبعی مناسبت نہ ہوتی اور دونوں بزرگوں کا مزاج ایک دوسرے کے ہم رنگ نہ ہوتا تو زمانہ قبل از اسلام بعد از اسلام قبل از ہجرت بلکہ بعد الوفات تک یہ رفاقتِ عظمیٰ اور خلتِ خاصہ اس شان سے ہمیشہ جلوہ گر نہ رہتیں۔  

واللہ اعلم بحقيقة الحال۔ 

کتبہ خالد محمود عفا اللہ عنہ 21 جولائی 64ء۔