Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

قرآن پاک کی آیات اس کے اپنے دعویٰ کے مطابق دو قسم کی ہیں محکمات اور متشابہات اسی اختلاف سے امت میں تمام مختلف فرقے پیدا ہوئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے سارے قرآن کو ہی محکمات کی صورت میں کیوں نہ اتارا آیاتِ متشابہات نے بہت سی اختلافات کی راہیں کھول رکھی ہیں اگر کل آیات ہی محکمات ہوتیں تو امت کسی اختلاف کا شکار نہ ہوتی آیات کی اس تقسیم میں آخر کون سی حکمت ملحوظ تھی نیز یہ بھی بیان فرمائیں علم تفسیر کی ضرورت کیا ہے قرآنِ کریم کے ترجمے کو دیکھ لینا کیوں کافی نہیں؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   عبد الحفیظ از کوہاٹ

جواب:

قرآن عزیز بہترین انسانی زندگی کا آخری نصب اور ایک جامع ضابطہ حیات ہے جب تک یہ دنیا آباد ہے کائنات اس کی شدید محتاج ہے جب اس میں ہر ضرورت کا حل اور ہر طلب کا جواب ہے تو ظاہر ہے کہ یہ محدود آیات اور محدود جزئیات ان تمام ضروریات کا احاطہ نہیں کرسکتیں پس لازمی طور پر ان مواقع میں جہاں قرآنی ہدایت ایک واضح جزئی کی شکل میں موجود نہیں ہم قرآن عزیز کی عمومی ہدایت اور بیان سنت کی طرف رجوع کریں گے۔ اس صورت میں غیر منصوص کو منصوص کی طرف یا مجمل کو مفصل کی طرف لوٹانا ضروری ہوگا اور یہی انداز اجتہاد ہے جس سے قرآن پاک کے ایک مکمل ضابطہ حیات ہونے کا دعوےٰ قائم ہوتا ہے۔ اجتہاد استدلال کے اس طریق کو اگر نظر انداز کر دیا جائے تو قرآنی ہدایت حالات پر پیش افتادہ میں نہایت محدود ہوکر رہ جائے گی۔

خدا کی حکمت ہماری اس اساسی ضرورت کی طرف متوجہ ہوئی اور قرآن عزیز اپنے پہلے اظہار میں ہی محکمات و متشابہات میں تقسیم ہوگیا تاکہ متشابہات کو محکمات کی طرف لوٹانے میں علمی تیقظ بصیرت اور قوتِ اجتہاد پیدا ہو اور امت کی مذکورہ بالا بنیادی ضرورت کی راہیں ابتداء ہی سے ہموار ہوجائیں وہ علمائے ربانی جو ان دونوں قسموں کا اپنے اپنے درجہ میں حق ادا کریں اور ہر دو قسم کی آیات پر پختہ ایمان رکھیں ایسے ہی اولوالالباب کا ذکر و شعور مسائل پیش افتادہ کو حل کرسکتا ہے اور یہی لوگ حقیقت میں راسخین فی العلم ہیں۔

وَالرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ۝۔ 

(پارہ 3 سورة آل عمران آیت 7)۔

اگر اس منقولی اجتہاد (متشابہات کو محکمات کی طرف یا مجملات کو مفصلات کی طرف لوٹانا) کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس ضرورت کیا تھی آیات سب محکمات ہونی چاہیئے تھیں تو کیا تفکر و تدبیر کے معقول اجتہاد کے متعلق بھی یہ سوال بعینہ پیدا نہیں ہوتا کہ قرآنِ پاک اپنی ہر بات میں اتنا واضح اور صاف آخر کیوں نہیں کہ فکر و تدبر کی بھی کوئی ضرورت اصلاً در پیش نہ ہو افسوس اس بات کا ہے کہ منقولات میں غور و فکر تو قابلِ اعتماد نہیں سمجھا جاتا اور جو فکر و تدبر ان سے پورا بے نیاز ہو اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے حالانکہ غور و فکر صرف وہی معتبر ہے جو بیانِ سنت کی روشنی میں ہو۔

خلاصہ اینکہ قرآنِ عزیز کی آیات کچھ محکمات ہیں کچھ متشابہات کچھ عام ہیں جہاں احکام عمومی شان رکھتے ہیں اور کچھ خاص جو کے خاص واقع یا جزںٔیہ پر شامل ہیں اسی طرح بعض آیات مجمل ہیں کہ صرف وصف عنوانی کا بیان ہے اور بعض مفصل کہ ان میں طریق عمل کا پورا نقشہ بھی موجود ہے اسی طرح ناسخ اور منسوخ کو بھی ایک مستقل موضوع کے ساتھ زیرِ بحث لایا جاتا ہے پھر عام آیات بھی بعض ایسی ہیں کہ ان سے بعض مخصوص افراد مستثنیٰ ہیں اور کچھ اپنے عموم پر اپنی پوری مجموعی شان سے باقی ہیں آیات قصص کی شان اور ہے اور آیات احکام کا انداز اور ہے پس ایک ایسے علم سے چارہ نہیں جو ان تمام تفہیمات اور باہمی فرق کے بیان میں فہمِ قرآن کی شان پیدا کرے یہی علم و علم تفسیر کہلاتا ہے اور انہیں تفسیری اصولوں کی روشنی میں علم تفسیر کے مدون اور مرتب ذخیروں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ان حقائق کی روشنی میں علم تفسیر کی ضرورت بکمال ہویدا ہے۔

ملحوظ رہے کہ سلف کے اختلافات اور موجودہ اختلافات میں زمین و آسمان کا فرق ہے سلف کے اختلافات ایسے ہرگز نہ تھے کہ تطبیق اور اتفاق کی کوئی صورت ہی پیدا نہ ہو اس کے لیے آپ مندرجہ ذیل اصولی بات کو پیش نظر رکھیں: 

تفسیرِ سلف میں اختلاف کی نوعیت اور مواردِ نزول میں اختلاف کی حقیقت:

ہمارے زمانے کے بعض وہ لوگ جو سلف صالحین کی تفسیر سے مستغنیٰ اور نصوصِ قرآنیہ میں الحاد کی راہ چلنے کے عادی ہیں یہ پراپیگنڈہ عام کرتے ہیں کہ سلف صالحین کے تفسیری ذخائر آپسں میں بہت مختلف ہیں ان پر اعتماد کیسے کیا جائے۔

جواباً گزارش ہے کہ یہ دعویٰ حقیقت کے مطابق نہیں سلف صالحین کا تفسیر میں بہت کم اختلاف ہے۔

قرآن کا بیان جو الاعتبار والتاویل کے درجہ میں ہو اس میں تو بےشک بہت سے عنوان مختلف ہیں لیکن جہان تک تفسیر کا تعلق ہے اس میں سلف کا اختلاف بہت کم ہے حافظ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:

سلف صالحین کے مابین تفسیر میں اختلاف کم ہوا ہے احکام میں تفسیر سے زیادہ اختلاف ہے اور تفسیر بھی جو اختلاف صحیح طور پر ان سے مروی ہے وہ تنوع کا ہے نہ کہ تضاد کا۔

(رسالہ اصول تفسیر حافط ابن تیمیہؒ)۔ 

مثال کے طور پر صراطِ مستقیم کو لیجئے بعض سلف کہتے ہیں کہ اس سے مراد قرآن ہے اور بعض دوسرے بزرگوں کا قول ہے کہ صراطِ مستقیم اسلام ہے صراط مستقیم کی یہ دونوں تفسیریں ظاہر میں مختلف معلوم ہوتی ہیں لیکن حقیقت میں مختلف نہیں بلکہ متفق ہیں اور ایک ہیں دینِ اسلام اتباعِ قرآن ہی کا دوسرا نام ہے اسی طرح صراطِ مستقیم کی تفسیر اہلِ سنت و الجماعت کے طریقے سے بھی کی گئی ہے اسے خدا اور رسولﷺ کی اطاعت کے نام سے بھی پیش کیا گیا ہے مگر یہ سب لفظ ایک ہی ذات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ان مفسروں میں کوئی اختلاف نہیں ہر ایک نے کسی ایک صفت کو بیان کر دیا ہے: قاله الحافظ رحمہ الله اِنَّآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ۝۔

(سورۃ الکوثر آیت 1)۔

میں بعض بزرگوں نے کوثر سے مراد قرآنِ کریم لیا ہے جو شانِ جامعیت اور کثرت کا حامل ہے اور بعض روایات کی رو سے یہ جنت کا ایک حوض ہے جس سے پینے والا پھر کبھی پیاسا نہیں ہوگا ان میں بھی کوئی حقیقی اختلاف نہیں قرآن کی معنویت آخرت میں جو صورتِ محسوسہ اختیار کرکے گی وہ جنت کا ایک حوض ہوگا جس سے وہی سعادت مند سیراب ہوں گے جو اس دنیا میں اس حوض سے جرعہ نوشی کرتے رہے ہوں گے یعنی قرآن کی دولت سے مستفید و مستفیض ہوتے رہیں گے یہاں محض تنوع کا اختلاف ہے تضاد کا نہیں۔

ان مثالوں پر غور کرنے سے تفسیرِ قرآنی کے دوسرے اختلافاتِ سلف بھی بہت حد تک سمٹتے نظر آئیں گے اور حقیقت میں سلف میں تفسیری اختلاف بہت کم ہوا ہے۔

اور وہ اختلاف بھی زیادہ تر تضاد کا اختلاف نہیں محض تنوع کا اختلاف ہے ایسے اختلافات کو اچھال کر سلف کے تفسیری سرمائے سے بدگمان کرنا ان لوگوں کا کام ہے جنہیں قیامِ ازل نے علم و فہم کا کوئی حصہ نہیں دیا اور وہ شاہراہ سلف میں شک کے کانٹے بچھا کر اپنے مخصوص الحاد ذہنی کے لیے راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ 

حافظ ابنِ تیمیہؒ اس قسم کے اختلاف کی مثال ہیں اس آیت کو پیش کرتے ہیں:

ثُمَّ اَوۡرَثۡنَا الۡكِتٰبَ الَّذِيۡنَ اصۡطَفَيۡنَا مِنۡ عِبَادِنَاۚ فَمِنۡهُمۡ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِهٖ‌ۚ وَمِنۡهُمۡ مُّقۡتَصِدٌ ‌ۚ وَمِنۡهُمۡ سَابِقٌۢ بِالۡخَيۡرٰتِ الخ۔

(سورۃ الفاطر آیت 32)۔

ترجمہ: پھر ہم نے کتاب کا وارث انہیں بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا تھا پھر ان میں ایسے بھی ہوۓ جو ظالم لنفسه تھے اور ایسے بھی تھے جو مقتصد تھے (میانہ رو تھے) ایسے بھی ہوۓ جو نیکیوں میں آگے بڑھ گئے سابق سابق بالخیرات ہوئے۔

اب ایک مفسر کہتا ہے کہ سابق سے مراد وہ ہے جو اول وقت نماز پڑہتا ہے مقتصد وہ ہے جو دورانِ وقت نماز پڑھتا ہے اور ظالم لنفسہ وہ ہے جو نماز عصر میں یہاں تک تاخیر کر دیتا ہے کہ دھوپ زرد پڑ جائے۔ 

دوسرا مفسر کہتا ہے کہ صدقہ دینے والا شخص جو واجبات کے ساتھ مستحبات بھی بجا لائے وہ سابق بالخیرات کا مصداق ہے سو دکھاوے والا یا زکوٰۃ روک لینے والا ظالم لنفسہ ہے اور مقتصد وہ ہے جو فرض ادا کرتا ہے اور سود نہیں کھاتا۔

اب دیکھئے کہ دونوں مفسر آیت کے عموم میں سے ایک ایک نوع کا تذکرہ کر رہے ہیں ان کا مقصود باہمی اختلاف نہیں بلکہ یہ سمجھانا ہے کہ آیت کے مفہوم میں یہ بات بھی داخل ہے جنات و طاعات یا ارتکاب محرمات وغیرہ میں سے کسی ایک نوع کا تذکرہ کردینا محض تنوع کا اختلاف ہے تضاد کا نہیں آیتِ کریمہ اپنی پوری وسعتوں کے ساتھ تمام متعلقہ جزئیات و انواع کو شامل ہے۔

 مواردِ نزول میں اختلاف کی حقیقت:

سلف کے تفسیری سرمایہ سے بدگمانی کرنے والے یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ ایک ہی آیت کے متعلق ایک مفسر سببِ نزول کوئی بیان کرتا ہے اور دوسرا اس کے شانِ نزول میں کچھ اور کہتا ہے اب ہم کسی پر یقین کریں اور کس کا اعتبار کریں۔

جواباً گزارش ہے کہ اس غلط فہمی کا منشاء اسبابِ نزول کے متعلق متقدمین کی اصطلاح اور ان کی روش کو نہ پہچاننا ہے حقیقت یہ ہے کہ اس باب میں متقدمین اور متاخرین کی اصطلاح مختلف ہے اس اصول سے انحراف نہیں کیا جاسکتا کہ ہر دور کے علمی سرمائے کو سمجھنے کے لیے اسی دور کی اصطلاح اور روش کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے حضرت شاہ ولی الله محدث دہلویؒ ارشاد فرماتے ہیں:

والذی يظهر من استقراء كلام الصحابة والتابعين انهم لا يستعملون نزلت فی كذا البعض قصد كانت فى زمنهﷺ و هی سبب نزول الآية بل ربما يذكرون بعض ما صدقت عليه الآية مما كان فيه فی زمنهﷺ او بعدهﷺ ويقولون نزلت فی كذا او يلزم هناك انطباق جميع القيود بل يكفی انطباق اصل الحكم وقد يقدرون حادثة تحققت فی تلك الأيام المباركة واستنبطﷺ حكمها من أيته وتادها فی ذلك الباب ويقولون نزلت فی كذا۔ 

(الفوز الکبیر صفحہ 24)۔

ترجمہ: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین کے بیانات کے استقراء کرنے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ نزلت فی کذا (یہ آیت اس باب میں نازل ہوئی) کے الفاظ محض اس واقعہ کے لیے ذکر نہیں کرتے تھے جو حضورِ انورﷺ کے ساتھ پیش آیا اور نزولِ آیت کا سبب بنا ہے بلکہ وہ بسا اوقات ان مواقع میں بھی یہ الفاظ بول دیتے تھے جن پر کہ وہ آیت (اپنی دلالت کے اعتبار سے) صادق آرہی ہو ایسے مواقع آنحضرتﷺ کے سامنے ہوں یا آپﷺ کے بعد کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین ایسے تمام موقعوں پر بھی نزلت فی کذا کے الفاظ بولتے تھے ان مواقع میں تمام قیود کا انطباق ضروری نہ تھا صرف اصل حکم کا انطباق کافی سمجھا جاتا تھا اور پھر ایسا ہوتا تھا کہ خود آنحضرتﷺ کے سامنے کوئی واقعہ پیش آیا اور حضور اکرمﷺ نے اس خاص موقعہ کا حکم کسی آیت سے استنباط فرمایا (گو وہ آیت بہت پہلے سے نازل شدہ ہو) اور اس آیت کو تلاوت فرمایا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایسے مواقع کے لیے بھی نزلت فی كذا کے الفاظ بول دیتے۔ (گو وہ موقع اصل سبب نزول نہ ہو صرف آیت کے معنیٰ و مفہوم کا مصداق ہو)۔

حافظ ابنِ تیمیہؒ لکھتے ہیں:

جب سلف کہتے ہیں کہ یہ آیت فلاں معاملے میں نازل ہوئی تو ان کی غرض کبھی یہ ہوتی ہے کہ آیت کا سببِ نزول یہ ہے اور کبھی مقصد یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ وہ معاملہ اسی آیت کے حکم میں داخل ہے اگرچہ خود وہ معاملہ سببِ نزول نہ بھی ہو پھر یہ بھی یاد رہے کہ سلف میں سے ایک شخص جب کہتا ہے کہ آیت اس بارے میں نازل ہوتی ہے اور دوسرا شخص کسی اور بارے میں نزول بناتا ہے تو اس سے لازم نہیں ہوتا کہ دونوں میں اختلاف ہے جب کہ آیت کے مفہوم میں دونوں قول داخل ہوں اسی طرح جب ایک صحابی ایک سبب نزول بناتا ہے اور دوسرا صحابی دوسرا سبب بیان کرتا ہے تو اسے بھی اختلاف پر محمول نہیں کرنا چاہیئے۔ 

واللہ اعلم بحقيقة الحال۔

كتبہ خالد محمود عفا اللہ عنہ 7 اگست 64ء۔