حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت مشہور واقعہ قرطاس کی حقیقت کیا ہے اور اس میں سیدنا عمر رضی الله عنہ پر جو اعتراض کئے جاتے ہیں ان کی تفصیل اور تحقیق کیا ہے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: محمد شریف اختر نواں کوٹ لاہورجواب:
حضور انورﷺ نے اپنی آخری بیماری میں وفات سے چار روز قبل پنچ شنبہ کے دن دیا اپنے اصحاب سے فرمایا کہ قرطاس یعنی کاغذ لاؤ میں ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوگے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضورﷺ کو اس وقت بیماری کی تکلیف زیادہ ہے لہٰذا آپکو تکلیف نہ دینی چاہیے اور ضروری احکام کے لیے کتابُ الله کافی ہے اور بعض نامعلوم الاسم لوگوں کی یہ رائے ہوئی کہ لکھ لینا چاہیئے اس اثناء میں کسی نے جن کا نام کسی روایت میں مذکور نہیں کہا اھجر رسول اللهﷺ استفھموہ یعنی کیا آپﷺ کی جدائی کا وقت آگیا ہے آپﷺ سے پوچھو تو سہی پھر اس وقت نہ حضورﷺ نے اس تحریر کے لکھوانے کا قطعی حکم دیا اور نہ اس کے بعد کسی اور وقت میں اس کے متعلق امر فرمایا حالانکہ چار روز تک اس کے بعد دنیا میں تشریف فرما رہے۔
واقعہ قرطاس صرف اتنا ہی منقول ہے جو اوپر بیان ہوا۔ مگر بعض لوگوں بڑی بے باکی سے حضرت عمرؓ پر تین اعتراض کئے ہیں:
- سیدنا عمرؓ نے رسول اللہﷺ کے متعلق کہا کہ یہ شخص ہذیان کہتا ہے (نعوذ باللہ من ذلک) ہجر کے معنیٰ ہذیان بکنے کے لیتے ہیں اور اسے سیدنا عمرؓ کا مقولہ قرار دیتے ہیں۔
- ایسی ضروری تحریر جس کے بعد قیامت تک گمراہی کا اندیشہ نہ رہتا سیدنا عمرؓ نے نہ لکھنے دی۔
- سیدنا عمرؓ نے حسبنا کتاب الله فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کی ضرورت نہیں۔
اعتراض اول کا جواب:
1۔ لفظ ہجر سیدنا عمرؓ کا قول ہیں کتبِ اہلِ سنت میں کوئی ایک صحیح روایت بھی اس افتراء کے ثبوت میں نہیں مل سکتی حافظ ابنِ حجر عسقلانی فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ کسی روایت میں یہ نہیں کہ یہ لفظ سیدنا عمرؓ کا مقولہ ہے شاہ عبدالعزیزؒ نے بھی تحفہ اثناء عشریہ میں یہی لکھا ہے شیعہ علماء بھی جنہیں تجسس و عیب جوئی کی خاص مشق ہوتی ہے درجنوں کے درجنوں کئی سو برس سے ایسی روایت کی تلاش میں ہیں مگر مطالبات کے باوجود آج تک کوئی حدیث روایت نہیں پیش کرسکے اگر کسی عالم اہلِ حق نے اسے مقولہِ سیدنا عمرؓ تسلیم کیا ہو تو انہیں دھوکہ ہوا جس کی وجہ یہ ہے کہ بعض مخالفین نے اپنی انشاء پروازیوں کو کچھ اس طرح شہرت دی اور عوام میں اس قدر پھیلایا کہ اس عام شہرت سے بعض خواص مغالطہ میں آگئے جس کی بہت سی نظائر موجود ہیں مثلاً امام مالکؒ کے مذہب میں متعہ کا جواز اس قدر مشہور کیا گیا کہ صاحبِ ہدایہؒ جیسے محقق دھوکہ کھا گئے کسی بڑے سے بڑے عالم کا دھوکہ میں آجانا کچھ مستبعد نہیں اسی وجہ سے ہم نے کہا ہے کہ کوئی معتبر روایت بسند صحیح اس میں وارد نہیں اور ہر شخص کا بلا سند کوئی بات کہہ دینا روایت معلق نہیں ہوسکتا معلق اسے کہتے ہیں کہ کوئی محدث روایت کرتے وقت کسی چیز کہ بلا ذکر سند کے بیان کرے پھر ہر روایت معلق کا صیحیح ہونا بھی غلط ہے ورنہ پھر سند تو ایک بیکار شئے ہوجائے گی۔
مولانا عبد الحی صاحبؒ ظفر الامانی فرماتے ہیں:
تلك الأخبار لا يعتبر بها ما لم يعلم سندها و مخرجها الى ان قال المرسل انما هو ما ارسله راوی الحديث وترك الواسطة بينه وبين النبیﷺ لا مجرد قول كل من قال قال رسول اللہﷺ والالزم ان يكون قول العوام والسرقة قال رسول اللهﷺ كذا مرسلا و الوجه فيه ان الارسنال والانقطاع نحو ذلك من صفات الاسناد و تضعيف الحديث به بواسطته فحيث الاسناد فلا ارسال ولا انقطاع ولا اتصال وانما هو مجرد نقل اعتمادا على غير۔
(ظفر الامانی صفحہ 189)۔
2۔ ہجر کے معنیٰ محض ہذیان کے نہیں بلکہ یہ لفظ جدائی کے معنیٰ میں بھی آتا ہے قال تعالیٰ وَ اهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِیْلًا۔
(سورۃ المزمل آیت 10)۔
یہ معنیٰ علماءِ لغت و شراح حدیث بھی لکھتے ہیں
فتح الباری میں ہے:
و يحتمل ان يكون قوله اهجر فعلا ماضیا ای اهجر بفتح اولہا و سکون الجیم و المفعول محذوف الى الحياة وذكره بلفظ الماضی مبالغة لما راى من علامات الموت۔
(فتح الباری جلد 5 صفحہ 101)۔
اور علامہ محمد طاہر گجراتی مجمع البحار (جو خاص حدیث کی لغت ہے) میں فرماتے ہیں:
و يحتمل ان يكون معناه هجركم رسول اللهﷺ من المهجر ضد الوصل۔
(مجمع البحار جلد 2 صفحہ 475)۔
بلکہ تحقیق یہ ہے کہ اس لفظ کے اصل معنیٰ جدا ہونے کے ہی ہیں ہذیان کے معنیٰ میں بھی اسی مناسبت سے آتا ہے کہ اس میں عقل سے جدائی ہوتی ہے اور یہی معنیٰ زیادہ مشہور متباور میں اردو میں بھی ہجر بمقابلہ وصل بولا جاتا ہے اور حدیث قرطاس میں یہی معنیٰ چسپاں ہوتے ہیں ہذیان کے معنیٰ وہاں دو وجہ سے نہیں بنتے۔
(الف)۔ ہذیان کا شبہ اس بات پر ہوتا ہے جو خلافِ عقل ہو ایک پیغمبر اپنے آخری وقت میں فرماتے ہیں کہ کاغذ لاؤ میں ایک ضروری ہدایت نامہ لکھ دوں اس میں کون سی بات خلافِ عقل ہے جیسے ہذیان کہا جاسکے۔
(ب)۔ روایت میں ہجر کے بعد استفھموا کا لفظ آیا ہے یعنی آپ سے پوچھو اگر ہجر بمعنیٰ ہذیان لیا جائے تو استفھموا سے رابط بالکل غلط ہوجاتا ہے کیونکہ جسے ہذیان ہوگیا ہے اب اس سے پوچھنا بالکل خلافِ عقل ہے اب دیکھئے جدائی کے معنیٰ کس خوبی سے بنتے ہیں جب حضور اکرمﷺ نے حالتِ مرض ہدایت نامہ لکھوانے کو فرمایا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قلوب پر ایک بجلی سی گر گئی کہ شاید قیامت کی گھڑی آگئی ہے۔
حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد روئے گل سیر ندیدیم و بہار آخر شد۔
کیونکہ ایسی تحریر آخری وقت میں لکھوائی جاتی ہے لہٰذا انہوں نے کہا اھجر استفهموا یعنی کیا حضرت محمدﷺ جدا ہو رہے ہیں آپ سے پوچھو تو یہ لفظ ہجر جس نے کہا کمال محبت اور جذب عشق میں کہا مگر جن کے قلوب درودِ محبت سے نا آشنا ہیں وہ اس کی کیا قدر کر سکتے ہیں۔
چو دل بمہر نگارے نہ بستہ اے مہ تراز سوز دروں و نیاز ماچہ خبر۔
(ج)۔ بفرض محال اگر یہ لفظ معنیٰ ہذیان ہی ہو تو یہ ہمزہ استفہام کے ساتھ ہے اور استفہام انکاری ہے ممکن ہے کہ یہ قول اس جماعت کا ہو جو تحریر لکھوانے کی مؤید تھی اس نے اپنی رائے کو تقویت دینے کے لیے کہا کہ حضورﷺ کے حکم کی تکمیل میں توقف کیوں کرتے ہو کیا حضورﷺ کو معاذ الله ہذیان ہوگیا ہے؟ یعنی ہذیان نہیں ہوا یہ مطلب بھی شراح حدیث نے بیان کیا ہے بخاری میں یہ روایت سات جگہ پر ہے کتاب الجہاد کے سوا باقی چھ مواضع میں یہ لفظ ہمزہ استفہام کے ساتھ ہے اور بخاری کے علاؤہ دوسری کتب میں بھی ہمزہ موجود ہے پس اگر ایک روایت میں ہمزہ نہ ہو تو حرج نہیں ایک ہی واقعہ کی متعدد اسانید میں اگر ایک لفظ کسی روایت میں ہو اور کس میں نہ ہو تو یقیناً یہی سمجھا جائے گا کہ جس میں نہیں ہے اس میں راوی سے چھوٹ گیا ہے اسی لیے محافظ فتح الباری جلد 8 صفحہ 101 میں فرماتے ہیں۔م الواجح فیه اثبات الهمزة علاؤہ ازیں بلاواة استفہام کے بھی استفہام ہوتا ہے ان تینوں جوابوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ اول تو لفظ ہجر سیدنا عمرؓ کا مقولہ نہیں دوسرے بالفرض اسے تسلیم بھی کر لیا جائے تو ہجر بمعنیٰ ہذیان نہیں بلکہ جدائی کے معنیٰ میں ہے جو خاص محبت کا کلمہ ہے نہ کہ گستاخی کا تیسرے بالفرض ہجر بمعنیٰ ہذیان ہو تو ہمزہ استفہام کے ساتھ ہے اور استفہام انکاری ہے اب اربابِ عقل غور کریں کہ اس اعتراض میں کیا جان باقی رہ گئی۔ جب تک یہ لوگ ان تین باتوں کا جواب نہ دے دیں یعنی کسی روایت میں اس کا مقولہِ سیدنا عمرؓ ہونا دکھائیں پھر یہ ثابت کریں کہ ہجر کے معنیٰ سوائے ہذیان اور کچھ نہیں ہیں یا یہاں سوائے ہذیان کے اور معنیٰ چسپاں نہیں ہوتے ان کی بات میں کوئی وزن نہیں ان تمام ابواب میں ان حضرات کا دامن خالی ہے ان کے ذمہ ہے کہ یہ ثابت کریں کہ یہ لفظ ہمزہ استفہام کے ساتھ نہیں ہوسکتا اس کے بغیر اس اعتراض کا نام لینا بہت بے اصولی بات ہے۔
اعتراضِ ثانی کا جواب:
اس کے جواب سے قبل چند امور غور طلب ہیں:
1ـ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ الخ
(سورۃ المائدہ آیت 3)۔
بالاتفاق اس قصہ قرطاس سے پہلے نازل ہوچکی تھی پس اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی ایسی ضروری تحریر باقی تھی تو اس سے پہلے دین ہرگز کامل نہیں ہوسکتا تھا اور یہ آیت معاذ الله غلط ثابت ہوتی ہے۔
2ـ فقہ قرطاس پنچ شنبہ کے روز واقع ہوا اور حضور کریمﷺ کی وفات دو شنبہ کو ہوئی تو چار روز تک حضورﷺ اس قصہ کے بعد اس عالم میں تشریف فرما رہے پس اگر کوئی ایسی ضروری تحریر باقی ہوتی تو آپﷺ کو اس کے لکھوانے کا کافی موقع ملا تھا اس کے باوجود آپﷺ نے نہ لکھوائی یہ ایک بہت بڑا اور سخت الزام حضورﷺ پر عائد ہوگا نعوذ باللہ من ذلک سیدنا عمرؓ کے منع کرنے سے یا ان کے خوف سے نہ لکھوانا کوئی مسلمان باور نہیں کرسکتا کیونکہ ایسے حال میں کسی اور کے خوف سے تقیہ کرنا نبوت کو زیب نہیں کیونکہ اسی طرح کسی کے خوف سے اگر انبیاء تبلیغ سے رک جائیں تو دین سے امان اُٹھ جائے گا اور نبوت ایک بازیچہ اطفال ہوجائے گی خیال کیجئے جب کفار نے آپﷺ سے کہا کہ اگر آپ کو سلطنت کی خواہش یا کسی حسین عورت کی طلب ہے تو تمام عرب سے حسین عورت آپ کو لا دیتے ہیں مگر ہمارے معبودوں کو برا مت کہو کفار کے بائیکاٹ کے وقت ابوطالب نے آپ کو پیغام پہنچایا اور سمجھایا کہ اے بھتیجے تو اس تبلیغ سے باز آجا میں اکیلا سارے عرب کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے چچا اگر میرے ایک ہاتھ میں آفتاب اور دوسرے میں چاند بھی رکھ دیا جائے تب بھی بھی اس کلمہ حق سے ہرگز نہ رکوں گا غرضیکہ جس وقت آپﷺ تمام عرب سے دین کی خاطر برسرپیکار تھے اس وقت تو آپ نے ضروریاتِ دین کو نہیں چھوڑا تو اب ایسی اہم چیز کو کیسے چھوڑ سکتے تھے؟ پھر ان پانچ دن میں دن کو یا رات کو کسی وقت تو سیدنا عمرؓ اُٹھ کر گئے ہوں گے اس وقت آپ لکھوا دیتے۔
3۔ اتنی ضروری تحریر کو اگر سیدنا عمرؓ نے منع کیا تھا تو سیدنا علیؓ اور دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا فرض تھا کہ لکھواتے مگر کس نے بھی اس طرف توجہ نہ کی پس سیدنا عمرؓ سے زیادہ الزام حضرت علیؓ پر ہوگا اس لیے کہ بزعمِ مخالفین انہیں حضورﷺ کا تقرب سب سے زیادہ تھا نیز ایسا اہم حکم عموماً گھر والوں کو ہوتا ہے جس سے ظاہر ہے کہ سیدنا علیؓ کو ہی یہ حکم دیا گیا ہوگا جس کی انہوں نے تعمیل نہیں کی۔ مزید بریں مسند احمد کی روایت میں تصریح موجود ہے کہ یہ خطاب صرف سیدنا علیؓ کو ہی تھا۔
4ـ اتنا بڑا واقعہ اور تمام طبقہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کوئی مقنض سوائے سیدنا ابنِ عباسؓ اس کی روایت نہیں کرتا پھر سیدنا ابنِ عباسؓ کے سینکڑوں شاگردوں میں سے صرف ان کے بیٹے سیدنا عبیداللہؓ اور سیدنا سعید بن جبیرؓ اس کے ناقل ہیں اور کوئی اسے روایت نہیں کرتا۔
ان امور پر غور کرنے کے بعد عقلِ سلیم دو امور میں سے ایک کے تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
1ـ یا تو قصہ ہی سرے سے غلط ہے دین کامل ہوچکا تھا اور ہرگز کوئی ایسی ضروری تحریر باقی نہ تھی اور ہرگز آنحضرتﷺ نے آیتِ قرآنیہ کے خلاف کسی تحریر کے لکھوانے کا ارادہ ظاہر نہیں فرمایا تھا یہ قصہ محض بے بنیاد اور اعدائے دین کا خانہ زاد ہے اور محض اس لیے گھڑا گیا کہ آیتِ قرآنیہ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ الخ کی تکذیب ہوسکے اور حضورﷺ پر بھی تبلیغِ رسالت میں کوتاہی کرنے کا الزام قائم ہو اور سارا دین مشکوک ہو جائے مگر امام بخاریؒ جیسے محدثین کی تخریج اس نظریہ کی تردید کرتی ہے۔
2۔ یا پھر حضور کریمﷺ نے محض اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا امتحان لینےکے لیے فرمایا تھا کہ قلم و دوات اور کاغذ لاؤ تاکہ میں ایک ایسی ضروری و مفید تحریر لکھوا دوں کہ اس کے بعد کبھی گمراہ نہ ہوگے درحقیقت نہ کوئی اسی ضروری تحریر باقی تھی اور نہ واقع میں آپﷺ کا ارادہ تھا محض امتحان مقصود تھا کہ یہ لوگ ایمان میں کہاں تک راسخ القدم ہیں اگر کہیں خدا نخواستہ اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس تحریر کے لکھوانے پر مستعد ہوجاتے تو حضرت محمدﷺ کو بڑا رنج ہوتا اور فوراً فرماتے کہ آیت اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ الخ کے بعد اب بھی تم کسی تحریر کے منتظر ہو لکھوانے اور دین کو کامل نہیں سمجھتے مگر الحمدللہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس امتحان میں بدرجہ اعلیٰ کامیاب ہوئے اور اس کامیابی میں نمایاں کردار سیدنا فاروقِ اعظمؓ کا ہے چند نامعلوم الاسم لوگوں نے لکھوانے کی تائید کی قوی احتمال ہے کہ یہ حضرات جدید الاسلام ہوں گے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں کوئی ممتاز شخصیت یہ قول کرتی تو ان کا نام ضرور روایت میں مذکور ہوتا کما هو ظاهر من داب المحدثین پس ان جدید الاسلام لوگوں کا اختلاف حضورﷺ کو پسند نہ آیا جس کا اظہار قوموا عنی کے الفاظ سے فرمایا حضورﷺ کا یہ ارشاد بطریقِ امتحان تھا اس پر دو زبردست دلیلیں موجود ہیں:
1۔ جب کہ آیت اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ الخ اکمالِ دین اور اتمامِ نعمت کی خبر دے چکی تھی تو ناممکن تھا کہ حضورﷺ اس کے بعد کسی ایسی تحریر کی حاجت ظاہر فرما کر دین کو ناقص اور نعمتِ خداوندی کو ناتمام قرار دیتے۔
2۔ آپ نے جو صفت قرطاس والی تحریر کی بیان فرمائی ہے اسی صفت کی دو چیزیں جب آپ امت کے ہاتھ میں دے چکے تھے (جن کا ذکر حدیث ثقلین میں گزر چکا ہے) تو اب اس تحریر کی کیا حاجت تھی؟ اس کی حدِ ضرورت اس وقت ہوسکتی تھی جب ان دونوں چیزوں میں یہ صفت نہ ہو لہٰذا ناممکن ہے کہ حضورﷺ اپنی حدیث کے خلاف ایسی بات فرمائیں۔
علامہ ابنِ تیمیہؒ وغیرہ کا یہ خیال ہے کہ اس وقعہ پر حضورﷺ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے لیے خلافت نامہ لکھوانا چاہتے تھے اور صحیحین کی اس روایت کو اپنے اس خیال پر قرینہ بناتے ہیں کہ حضورﷺ نے اپنے اس آخری مرض میں سیدہ عائشہؓ سے فرمایا کہ اپنے والد اور بھائی کو بلاؤ تاکہ میں سیدنا ابوبکرؓ کے لیے تحریر لکھ دوں تاکہ لوگ میرے بعد اختلاف نہ کریں اس کے بعد آپ نے فرمایا اچھا رہنے دو يابی اللہ والمؤمنون الا لابی بکرام پس آپﷺ کو وحی سے مطمئن کر دیا گیا تھا اس لیے اس ارادہ کو ترک فرما دیا اگر بالفرض تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ممکن ہوجانے کے بعد بھی آپﷺ خلافتِ صدیق لکھوانا چاہتے تھے تاکہ لوگ اختلاف نہ کریں تو بعد میں آپﷺ کا سکوت سیدنا عمرؓ کی موافقت میں تھا جس میں راز یہ تھا کہ انتخابِ خلیفہ کا زریں اصول و تفویض اعلیٰ اہلُ الحل و العقد قائم کر جائیں اور ولی عہدی کی رسم جاہلیت کا تصور اسلام میں باقی نہ رہے کئی مواقع پر آپﷺ نے وحی الٰہی کے بعد سیدنا عمرؓ نے سے موافقت کی یہ وحی الٰہی سے موافقت تھی اسے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں چنانچہ ان کی نہایت معتبر کتاب فلک النجات صفحہ 326 جلد اول پر بھی یہ الفاظ موجود ہیں۔
واما سكوته عليه السلام بعد التنازع فما كان من عنده بل كان بوحی۔
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن۔
پس سیدنا عمرؓ کا یہ اختلاف اگر بالہامِ الله تعالیٰ اختلاف نظر تھا (کما وقع فی مواضع شتی) تو اس کا مناقب میں شمار ہونا بدیہی ہے اور اگر شدت مرض اور آپﷺ کی تکلیف کے مدِنظر یہ اختلاف سیدنا عمرؓ نے کیا تو اس کی نوعیت بعینہ صلح حدیبیہ کے موقع پر لفظ رسول اللہ مٹانے سے سیدنا علیؓ کے انکار جیسی ہوگی جسے یہ لوگ مناقب سیدنا علیؓ میں شمار کرتے ہیں۔
اعتراض ثالث کا جواب:
یہ تو بعینہ وہ قول ہے جس کو خود حضور کریمﷺ حجتہُ الوداع میں اس سے تین ماہ بیشتر لاکھوں کے مجمع میں فرما چکے تھے لن تضلوا ماتمسکتم به سیدنا فاروقِ اعظم رضی الله عنہ کے حسبنا کتاب الله کہنے کا اگر یہی مطلب ہے تو قرآن میں ہے حَسۡبُنَا ٱللَّهُ الخ۔ (سورۃ آلِ عمران آیت 173)۔ پس اس کا مطلب بھی یہ ہونا چاہیے کہ اللّٰه تعالیٰ کافی ہیں رسول کی ضرورت نہیں فهذا هو جوابنا وراجع له احسن الفتاویٰ من صفحہ 143۔149 نقله۔
پھر قرآنِ کریم میں ہے:
يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمۡ اَنۡ تَضِلُّوۡا الخ۔
(سورۃ النساء آیت 176)۔
الله تعالیٰ تمہارے لیے بیان کر رہے ہیں کہ کہیں تم گمراہ نہ ہوجاؤ سو گمراہی سے بچنے کی ضمانت قرآنِ کریم سے دی جارہی ہے اب کیا یہ ہوسکتا ہے کہ قرآنِ پاک کی اس ضمانت کو کافی سمجھا جائے حسبنا کتاب الله میں اسی طرف اشارہ تھا۔
کتبہ خالد محمود عفا اللّٰه عنہ۔