گزاش یہ ہے کہ حدیث شریف کی کسی مستند کتاب میں عرضِ اعمال کی روایت آئی ہے اس کتاب کا نام کیا ہے صفحہ سند صحابی کا نام اور حدیث شریف (خواہ مرفوع ہو یا موقوف) اس کے اصل الفاظ مبارک کیا ہیں تحریہ فرمائیے؟۔
دوسری عرض یہ ہے کہ صحیح بخاری شریف کتاب التفسیر جلد 2 صفحہ 665 پر سیدنا ابنِ عباسؓ سے ایک مرفوع روایت یوں آتی ہے:
عن ابن عباسؓ قال خطب رسول اللہﷺ فقال یا ایھاالناس انكم محشورون إلى الله حفاة عراة غرلا ثم قال كما بداءنا اول خلق نعيده وعدا علينا انا كنا فاعلين إلى أخر الآية ثم قال الاوان اول الخلائق يكسى يوم القيامة ابراهيم الا وانه يجاء برجال من امتى يوخذبهم ذات الشمال فاقول رب اصحاب فيقال انك لا تدرى ما احدثوا بعدك فاقول كما قال العبد الصالح وكنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم فلما توفيتنى كنت انت الرقيب عليهم فقال ان هؤلاء لم يزالوا مرتدين على اعقابهم منذ فارقتهم۔
اگر حضرت نبی کریمﷺ پر ساری امت کے اعمال پیش ہوتے ہیں تو قیامت کے دن یہ کیوں کہا جائے گا انك لا تدرى ما احدثوا بعدك ان دونوں صورتوں میں تطبیق کی صورت کیا ہے؟۔
سوال پوچھنے والے کا نام: نجمجواب:
اس وقت ان خصوصیات کے ساتھ تو حدیث نہیں ملی البتہ نفسِ مقصود پر ایک حدیث ضرور دلالت کر رہی ہے اس کو نقل کرتا ہوں:
1۔ فی الجزء التاسع المجمع الزوائد وجمع الفوائد باب ما يحصل لأمة من استغفاره بعد وفاتهﷺ عن البزار و رجال الصحيح عن عبد الله ابن مسعودؓ قال قال رسول اللهﷺ تعرض على اعمالكم فما رأيت من خير حمدت الله عليه و مارأيت من شر استغفرت اللّٰه لكم ام مختصرا۔
2۔ معرض اعمال نام و نشان سے ہوتا ہے نہ کہ معرفت و حضور سے اور چہروں کی پہچان سے اور قیامت میں ان لوگوں کی صورتیں نظر آئیں گی جو عرضِ اعمال میں ہرگز سامنے نہ تھیں پس اس موقع محشر میں ان کی شکلیں نظر آنے سے یہ امر لازم نہیں آتا کہ ان صورت والوں کے کیا کیا اعمال تھے اس لیے ان میں کوئی تعارض نہیں پس تطبیق کی ضرورت پیدا نہیں ہوتی۔
واللہ اعلم بالصواب۔
کتبہ خالد محمود عفا الله عنہ 27 نومبر 64ء۔