اصولِ دین کتنے ہیں ان میں اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کا کیا اختلاف ہے کیا یہ صحیح ہے کہ سبائیت نے ہر ایک اصل دین کے ساتھ ایک ایک اپنی پیچ لگائی ہے اور اسلام کے ہر ایک اصول کو اختلافی بناکر رکھ دیا ہے اس کا کچھ تاریخی تجزیہ درکار ہے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: Muhammad Huzaifaجواب:
اصولِ دین تین ہیں:
- توحید
- رسالت
- آخرت۔
1: شیعہ حضرات نے توحید کے چشمہ صافی کو گول کرنے کے لیے اس کے ساتھ عدل کا اضافہ کیا ان کا عقیدہ ہے کہ کہ الله تعالیٰ پر عدل واجب ہے اہلِ سنت عقیدہ رکھتے ہیں الله تعالیٰ پر کوئی چیز واجب نہیں ضابطے اس کے ماتحت ہیں وہ خود کسی ضابطے کے ماتحت نہیں چاہے عدل فرمائے چاہے مجرموں کو چھوڑے کوئی اسکو پکڑنے والا نہیں بڑے بڑے نیکوں کو سخت آزمائش میں ڈال دے کوئی اس کو روکنے والا نہیں تقدیر اس کے تحت ہے یہ عدل کے خلاف نہیں۔
2ـ رسالت کو واحد سرچشمہ دین سمجھنے کے خلاف انہوں نے امامت کا عقیدہ قائم کیا بارہ امام مامور من الله قرار دیئے جن سے خدا تعالیٰ ہمکلام رہا ان کا ماننا پیغمبروں کی طرح فرض ٹھہرا ان کا انکار کفر قرار پایا اس عقیدے سے رسالت واحد سرچشمہ دین نہ رہا امامت نبوت کے متوازی ایک ویسا ہی منصب ہے اور اس عقیدے سے انسان ختمِ نبوت کا اعتقاد کھو بیٹھتا ہے۔
3ـ آخرت کے مقابل انہوں نے رجعت کا عقیدہ گھڑا کہ حشر سے پہلے بڑے بڑے لوگوں اور بڑے بڑے مجرموں کا پھر اس دنیا میں آنا ہوگا یہ دور امام مہدی کا ہوگا اس میں حضورﷺ بھی اس دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے اور امام مہدی کی بعیت کریں گے اس دور میں مجرموں کو پھانسیوں پر لٹکایا جائے گا اوران پر حدیں جاری کریں گے اور یہ عمل قیامت سے پہلے ہوگا عقیدہ رجعت سے اسلام کا عقیدہ آخرت بہت مخدوش ہوجاتا ہے۔
سو شیعہ کے اصولِ دین چھ ہوئے توحید، عدل، رسالت، امامت، رجعت اور آخرت مگر ان کے علماء عقائدِ رجعت کو اصول کا درجہ نہیں دیتے اور اصولِ دین صرف پانچ بیان کرتے ہیں رجعت پر اعتقاد رکھتے ہیں مگر اسے اصول میں شامل نہیں کرتے۔
اہلِ سنت کے تین اصولِ دین بڑی وضاحت سے قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر مذکور ہیں مگر شیعہ کے دو اضافی اصول عدل اور امامت قرآنِ کریم میں کہیں صراحت سے موجود نہیں کبھی یہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی امامت سے سیدنا علیؓ کی امامت ثابت کرتے ہیں لیکن ہرذی فہم جانتا ہے کہ ثابت کرنا اور بات ہے اور دکھلانا اور بات نصوص دکھلائی جاتی ہیں اور فقہی مسائل ثابت کیئے جاتے ہیں شیعہ حضرات کے یہاں جتنا یہ مسئلہ اہم ہے اتنا ہی ان کے علماء اسے قرآن سے دکھلانے میں بے مایہ ہیں بارہ اماموں کی امامت درکنا ان کے نام تک قرآن میں موجود نہیں۔
شیعہ علماء ان اںٔمہ کو امتی نہیں کہتے کیوں کہ ان کا تعلق خدا سے صرف حضورﷺ کے واسطے سے نہیں براہِ راست بھی قائم رہا ہے اور امتی وہی ہوسکتا ہے جو دین کی مراد اس پیغمبر سے لے کوئی علم جو دینی نوع کا ہو اور دوسروں کے لیے اس کا ماننا ضروری ہو اسے براہِ راست خدا سے نہ ملے جو ملے صرف نبوت سے ملے۔