ابوسفیان کا ایک بیٹا زیاد عہدِ جاہلیت کے زنا سے تھا قانونی بیٹا نہ تھا سیدنا امیرِ معاویہؓ نے اپنی سیاسی قوت بڑھانے کے لیے اسے صحیح النسب ثابت کرنے کی کوشش کی اور اپنا بھائی بنایا وہ بچہ جو عبید مولٰی ثقیف کے گھر پیدا ہوا اسے سیدنا ابوسفیانؓ کے نسب میں لانا حضورﷺ کے فرمان الولد الفراش و للعاهر الحجر کے خلاف ہے تاریخ میں اسے زیاد بن ابیہ کہتے ہیں یہ بھی ہے کہ اس کا نسب معلوم نہ ہو اسے زیاد بن سمیہ بھی کہا جاتا ہے یہ بھی اسی لیے کہ وہ ثابت النسب نہ تھا سیدنا امیرِ معاویہؓ نے اس حرامی کو اپنا مقرب کیوں بنایا اور اسے یہ عزت کیوں دی یہ استحاق جائز ہے یا ناجائزہ؟
سوال پوچھنے والے کا نام: قائم الدینجواب
زیاد مذکور ولد الزنا نہیں تھا عہدِ جاہلیت میں کچھ ایسے بھی نکاح بھی ہوتے تھے جو ہمارے قاعدہ نکاح پر پورے نہیں اترتے ایران میں بھی عہدِ اسلام سے پہلے ایک متعہ رائج تھا عہدِ جاہلیت میں اگر عرب بھی ایسا کرتے ہوں تو کون سی تعجب کی بات ہے الولد للفراش و العاهر الحجر قاعدہ اسلام کا ہے عہدِ جاہلیت کا نہیں ان کے ہاں شادی شدہ عورت سے کوئی متعہ کرے اور بچہ پیدا ہوجائے تو اگر پہلا شوہر اس بچے کے نسب کا دعویٰ نہ کرے اور متعہ کرنے والا اس کے نسب کا مدعی ہو تو اس نکاح جاہلیت کے بچے کو علی وجہ القطع الصراحۃ ولد الزنا نہ کہتے تھے اسلام نے دوسرے مذاہب کے پہلے نکاح وہ جس طرح کے بھی ہوں قائم رکھے ہیں
زیاد (کنیت ابوالمغیرہ) طائف میں فتح مکہ کے سال پیدا ہوا مؤرخ ابن خلدون لکھتے ہیں:
وكان ابو سفيانؓ قد ذهب إلى الطائف فی بعض حاجاته فاصابها بنوع من انكحة الجاهلية وولدت زياد ونسبته الى ابی سفيانؓ و اقولها بها الانه كان يخفيه۔
(تاریخ ابنِ خلدون جلد 3 صفحہ 14)۔
ترجمہ: سیدنا ابو سفیانؓ اپنے کسی کام کے لیے طائف گئے تھے کہ وہاں آپ نے سمیہ سے جاہلیت کا ایک نکاح کیا اور اس سے زیاد پیدا ہوا اس عورت نے اس کا نسب سیدنا ابو سفیانؓ کا بیان کیا سیدنا ابوسفیانؓ نے بھی اس کا اس کے لیے اقرار کیا ہاں سیدنا ابو سفیانؓ اس نکاح کو مخفی رکھتے رہے۔
یہ بات مخفی تو رہی لیکن کچھ جاننے والے لوگ موجود تھے اور سیدنا ابوسفیانؓ کئی لوگوں کے سامنے اس کا اقرار کرچکے تھے اور زیاد اپنے اعلیٰ دماغ اور سیاسی تدبر کے باعث ایسا بھی نہ تھا کہ اسے نظر انداز کیا جا سکے یہ غلط ہے کہ وہ سوسائٹی میں کوئی عزت نہ رکھتا تھا ایسا ہوتا تو سیدنا علی المرتضیٰؓ اسے اپنے ہاں کوئی عزت اور مقام نہ دیتے آپؓ نے اسے اپنے دور میں فارس کا والی بنایا۔
(اخبار الطوال لدینوری صفحہ 219)۔
اور اس نے عہدِعلوی میں آپؓ کے ساتھ مل کر بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیئے۔
زیاد صحابی نہ تھا تابعی تھا حافظ ابنِ حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
قال العجلی تابعی ولم يكن تیهم بالكذب۔
(الاصابہ جلد 1 صفحہ 563)۔
ترجمہ: عجلی کی رائے سے وہ تابعی تھا لیکن اس پر جھوٹ بولنے کا الزام نہیں ہے۔
اور یہ بھی لکھا ہے:
وكان يضرب به المثل فی حسن السياسية و وفور العقل وحسن الضبط لما یتولاہ۔
(ایضاً صفحہ 563)۔
ترجمه: زیاد حسنِ سیاست عقل کی پختگی اور اپنے ذمہ داریوں کے نظم و ضبط میں اس مقام پر تھا کہ اسے ان ابواب میں مثال کے طور پر پیش کرتے تھے وہ ضرب المثل شخصیت کا مالک تھا۔
سیدنا ابنِ عباسؓ اس کے بہت معتقد تھے جب فارس اور کرمان کے علاقوں میں شورشیں اٹھیں تو سیدنا ابنِ عباسؓ نے سیدنا علیؓ کو مشورہ دیا کہ زیاد بہت پختہ رائے ہے اور سیاسی امور کو جانتا ہے اس صورتِ حال سے نبٹنے کے لیے اسے کہیں سیدنا علیؓ نے ان کا یہ مشورہ قبول کیا اور زیاد نے ان علاقوں میں امن و امان بحال کر دیا یہ سن39ھ کے وقائع میں سے ہے سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ مغیرہ بن شعبہ اور عبد اللہ بن عامر کے ہاں اس نے مدتوں سیکرٹری کے کے فرائض سرانجام دیے۔
(دیکھئیے تہذیب الاسماء للنووی جلد 1 صفحہ 199 المعارف لابنِ قتیبہ صفحہ 151)۔
اب اگر سیدنا امیرِ معاویہؓ نے اسے اپنے ساتھ لے لیا اس کے نسب پر بحثیں شروع ہوگئیں۔
سیدنا امیرِ معاویہؓ نے اس وقت تک زیاد کو اپنے ساتھ نہیں ملایا جب تک زیاد بن اسماء حرمازی مالک بن ربیعہ سلولی منذر بن زبیر اور کئی دوسرے لوگوں نے یہ کوئی گواہی نہ دی کہ یہ واقعی سیدنا ابوسفیانؓ کا بیٹا ہے جو جاہلیت کے ایک نکاح سے پیدا ہوا ہے۔
منذر بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات خود سیدنا علیؓ سے سنی تھی آپ کہتے تھے میں گواہی دیتا ہوں کہ سیدنا ابو سفیانؓ نے زیاد کے اپنا بیٹا ہونے کا اقرار کیا تھا۔
سیدنا امیرِ معاویہؓ فقیہ تھے وہ الولد الفراش و للعاهر الحجر کو عہدِ اسلامی سے خاص سمجھتے تھے عہد جاہلیت کو وہ اس سے مستثنٰی کرتے خصوصاً جب کہ پہلا شوہر بچے کا مدعی نہ ہو اسلامی فصیلوں میں آپ نے خود اس حدیث پر عمل کیا ہے اور کرایا ہے۔
ایک شخص نصر بن حجاج السلمی نے سیدنا خالد بن ولیدؓ کے بیٹے عبدالرحمٰن کے خلاف مقدمہ دائر کیا دعویٰ عبداللہ بن رباح مولٰی عبدالرحمٰن بن خالدبن ولیدؓ کے بارے میں تھا نصر بن حجاج کا کہنا تھا کہ بیٹا میرا ہے اور عبدالرحمٰن نے کہا یہ میرے غلام کے فراش پر پیدا ہوا ہے اور میرا غلام ہے سیدنا امیرِ معاویہؓ نے عبدالرحمٰن کے حق میں فیصلہ دیا نصر بن حجاج نے کہا پھر زیاد کے حق میں آپ نے کیسے فیصلہ کرلیا تھا آپ نے فرمایا: قضاء رسول اللهﷺ خير من قضاء معاويهؓ۔
(مجمع الزوائد للہیثمی جلد 5 صفحہ 14 فتح الباری جلد 12 صفحہ 32)۔
ترجمہ: حضورﷺ کا فیصلہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کے فیصلے سے بدرجہا بہتر ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو اس مسئلے (الولد للفراش) سے انکار نہ تھا زیاد چونکہ ایک طرح کے جاہلی نکاح سے پیدا ہوا تھا اور کوئی دوسرا باپ اس کا مدعی نہ تھا اس لیے اس مسئلے کی نوعیت اور تھی آپ نے لمبی بحث کا دروازہ بند کرتے ہوئے فرما دیا کہ تم میرے اس فیصلے کو چھوڑ دو حضورﷺ کے فیصلے کو لو یہ بات الٹانا تھی کہ اگر میرا فیصلہ حضورﷺ کے فیصلے کے خلاف ہے تو اسے چھوڑنا چاہیئے نہ کہ حدیثِ رسول کو چھوڑو اور وہ خود استلحاق زیاد کو بوجوہ مذکورہ حدیث مذکور کے خلاف نہ سمجھتے تھے آپ فقیہ تھے اور یہ آپ کا اپنا اجتہاد تھا اسے بدعت نہیں کہہ سکتے بدعت کی حد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد سے شروع ہوتی ہے سیدنا امیرِ معاویہؓ خود کہتے ہیں:
وقال (معاويهؓ) إلى لا اتكثر بزياد من قلة ولا اتعزز به من ذلة ولكن عرفت حق الله فوضعته موضعه۔
(تاریخ ابنِ خلدون جلد 3 صفحہ 16 ابنِ جریر طبری جلد 6 صفحہ 123)۔
ترجمہ: اور آپؓ نے کہا میں بوجہ قلت کے زیاد کا اضافہ نہیں چاہتا نہ کسی ذلت کے باعث کسی اور عزت کا طلب گار ہوں میں نے الٰہی حق پہنچانا ہے اور میں نے اسے حق پر جگہ دی ہے۔
زیاد نے بھی اس موقعہ پر کہا:
ان كان ما شهد الشهود به حقا فالحمد لله وان يكن باطلا فقد جعلتهم بيني وبين الله۔
(الاصابہ جلد 1 صفحہ 563)۔
ترجمہ: گواہوں نے جو گواہی دی ہے وہ اگر سچ ہے تو میں اس پر الحمدللہ کہتا ہوں اور اگر یہ گواہی غلط ہے تو میں اپنے اور خدا کے مابین ان گواہوں کو ڈھال بناتا ہوں
یعنی اس کی (خدا کی) پکڑ آئے تو ان گواہوں پر آئے اس سے زیادہ اور کیا خشیتِ الٰہی کا عنوان ہوسکتا۔
واللہ اعلم بالصواب۔
كتبہ خالد محمود عفا الله عنه۔