حضور رسولِ برحقﷺ کے تین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت ابوالدردا رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمٰن بن غنم اشعری رضی اللہ عنہ حضرت امیرِ معاویہؓ رضی اللہ عنہ کو خلافت کا اہل نہیں سمجھتے تھے جب پہلے دونوں حضرات سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے بطورِ قاصد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور واپسی پر راستے میں بمقامِ حمص حضرت عبدالرحمٰن بن غنم رضی اللہ عنہ سے ملے تو سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ طلقاء میں سے ہیں هو من الطلقاء الذين لا تجوز لهم الخلافة اس پر دونوں حضرات نے اپنی رائے سیدنا عبدالرحمٰن بن غنم اشعریؓ کے ساتھ کرلی اب سوال یہ ہے کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سیدنا امیرِ معاویہؓ کے سپرد کر کے حضرت ابو ہریرہؓ حضرت ابو الدرداءؓ اور حضرت عبدالرحمٰن اشعریؓ کی اس رائے سے کیوں اختلاف کیا خلافت اگر سیدنا امیر معاویہؓ کو شرعاً نہیں دی جاسکتی تھی تو حضرت حسنؓ نے اس کے خلاف کیوں کیا اور اگر انہیں جائز تھا تو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کے لیے تسلیم کرلیا کہ خلافت طلقاء کو نہیں مل سکتی؟
سوال پوچھنے والے کا نام: تسلیم الرحمٰن خان گڑھجواب:
سیدنا ابو ہریرہؓ اور سیدنا ابوالدرداءؓ کی سیدنا عبدالرحمٰن بن غنمؓ سے یہ ملاقات بے شک بعض مؤرخین نے نقل کی ہے لیکن یہ صحیح نہیں عویمر بن عامر ابو الدرداءؓ کا اس سے بہت پہلے دورِ عثمانی میں انتقال ہوچکا تھا آپ نے سیدنا علیؓ اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کے اختلاف کا دور نہیں پایا حافظ ابنِ عبدالبر الاستیعاب میں لکھتے ہیں کہ گو بعض اہلِ اخبار نے کہا ہے کہ سیدنا ابوالدرداءؓ جنگِ صفین کے بعد فوت ہوئے لیکن صحیح یہ ہے کہ آپ نے سیدنا عثمانؓ کے دورِ خلافت میں وفات پائی۔
وللاكثر والأشهر والاصح عند اهل الحديث انه توفى فی خلافة عثمانؓ بعد ان ولاه معاويةؓ قضاء دمشق۔(الاستیعاب جلد 3 صفحہ 17)۔
*ترجمہ:* اکثر اور زیادہ مشہور اور زیادہ صحیح بات محدثین کے نزدیک یہ ہے کہ آپ نے خلافت عثمانی میں وفات پائی بعد اس کے کہ انہیں سیدنا امیرِ معاویہؓ نے دمشق میں قاضی مقرر کیا ہوا تھا ابنِ اثیر جزری بھی لکھتے ہیں:
ان ابا الدرداءؓ تقدمت وفات من الوقت الذی بويع فيه علىؓ فی اصح الاقوال۔
(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 319)۔
ترجمہ: زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ سیدنا ابو الدرداءؓ کا انتقال اس سے پہلے ہوچکا تھا جب سیدنا علیؓ کے لیے بیعتِ خلافت کی گئی تھی۔
حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے بھی تہذیب التہذیب جلد 8 صفحہ 172 پر عویمر بن عامر ابو الدرداءؓ کے ترجمہ میں آپ کا سنِ وفات 33 ھ لکھا ہے سو یہ قصہ ہی غلط ہے کہ ان تین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو خلافت کے لاںٔق نہیں سمجھا تھا اس مسئلے میں سیدنا حسنؓ کی رائے بالکل صحیح ہے اور لسانِ رسالت سے بھی اس کی تائید موجود ہے آپ نے فرمایا الله تعالیٰ میرے اس بیٹے سیدنا حسنؓ کے ذریعہ میری اس امت کے دو عظیم گروہوں میں میں صلح کراۓ گا سیدنا حسینؓ بھی اس مسںٔلہ میں سیدنا حسنؓ کے ساتھ تھے سو سیدنا امیرِ معاویہؓ پر اس مفروضہ واقعہ سے کسی قسم کا اعتراض کرنا ہرگز درست نہیں ہے۔
کتبہ خالد محمود عفا الله عنہ۔