کیا یہ صحیح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ سیدنا امیرِ معاویہ رضی الله عنہ کو کسی کام کے لیے بلایا آپؓ نہ گئے تو حضورﷺ نے پھر دوسری بار بلایا آپؓ پھر بھی نہ آئے تو حضور اکرمﷺ نے فرمایا "لا اشبع الله بطنه" خدا کرے اس کا پیٹ نہ بھرے؟
- کیا یہ روایت ثقہ راویوں سے مروی ہے یا اس میں کوئی کمزور راوی ہے۔
- اگر یہ روایت صحیح ہے تو جواب دیں سیدنا امیرِ معاویہؓ پہلے آپ کے حکم پر کیوں نہ آئے۔
- جس طرح آپﷺ نے یہاں حضرت امیرِ معاویہ رضی الله عنہ کے لیے یہ جملہ کہا اس طرح کا کوئی اور جملہ آپﷺ نے کسی اور صحابی کے لیے کہا ہو۔
- اگر یہ روایت ضعیف ہے تو صحیح کیا ہے اور کہاں لکھا ہے؟۔
جواب:
روایت ضعیف ہے اس کے راویوں میں ایک راوی ابو حمزہ قصاب ہے اس کا نام عمران بن ابی عطاء تھا میزان الاعتدال میں اسے ضعیف لکھا ہے۔
(میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 239)۔
ابو زرعہ نے اسے لین الحدیث کہتے ہیں۔
پھر اس روایت میں یہ کہیں نہیں کہ بلانے والے (ابنِ عباسؓ) نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو اطلاع دی ہو کہ حضورﷺ آپ کو بلا رہے ہیں اور پھر حضرت امیرِ معاویہؓ نہ آئے ہوں جب آپؓ کو بلانے والے نے اطلاع ہی نہیں دی تو آپؓ کے ذمہ آنے کا الزام نہیں لگایا جاسکتا کسی روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ سیدنا ابنِ عباسؓ نے آپؓ کو کہا ہو کہ حضورﷺ آپ کو بلا رہے ہیں وہ خود ہی انہیں کھانا کھاتے دیکھ کر واپس لوٹتے رہے اور حضورﷺ یہ سمجھے کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ میرے بلانے کے باوجود نہیں آرہا اس پر آپ نے (بشرطیکہ روایت صحیح ہو) یہ جملہ کہا علم غیب خاصہ باری تعالیٰ ہے سیدنا ابنِ عباسؓ نے آپﷺ کو نہ بتلایا کہ میں نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو آپﷺ کو بلانے کی اطلاع نہیں دی صرف دیکھ کر آگیا ہوں اس صورت میں حضورﷺ نے اگر ایسا کیا بھی ہو تو یہ ایک محض غلط فہمی پر مبنی ہوگا یہ اسی طرح ہے کہ حضورﷺ کسی کو سزا دیں اور وہ اس کا مستحق نہ ہو تو حضورﷺ کا وہ فعل اس کے حق میں ایک دعائے رحمت اور منقبت بن جاتا ہے آنحضرتﷺ نے فرمایا:
انی اشترطت على ربی فقلت انما انا بشر ارضى كما يرضى البشر واغضب كما يغضب البشر فايما احد دعوت عليه من امتى بدعوة ليس لها باهل ان تجعلها له طهورا وزكاة و توبة تقربه بها منه يوم القيمة۔
(صحیح مسلم جلد 2 صفحہ 324)۔
ترجمہ: میں نے اپنے رب سے عہد لے رکھا ہے میں نے کہا میں بھی تو انسان ہوں خوشی اور ناراضگی دونوں حالتوں سے گزرتا ہوں جیسے انسان ان دونوں سے دو چار ہوتے ہیں بس اپنی امت میں سے جس کسی کے خلاف میں نے دعا کی ہو اور وہ اس کا مسحق نہ ہو تو اے الله تو اسے اس کے لیے سبب طہارت پاکیزگی اور موجب قرب بنادے جس سے تو اسے قیامت کے دن مقرب فرمائے۔
اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد امام مسلمؒ نے ابوحمزہ القصاب کی وہ روایت درج کی ہے جو سیدنا امیرِ معاویہؓ کے بارے میں ہے کہ خدا اس کا پیٹ نہ بھرے اس سے واضح ہوتا ہے کہ امام مسلمؒ کے نزدیک سیدنا امیرِ معاویہؓ اس دعا کے مستحق نہ تھے لیکن جب آپ نے لا اشبع اللہ بطنه کہہ دیا تو یہ جملہ آپؓ کے حق میں اب کلمہ دعاء اور کلمہ رحمت ہوگیا امام نووی لکھتے ہیں:
وقد فهم مسلم من هذا الحديث ان معاويةؓ لم يكن مستحقا للدعاء عليه فلهذا ادخله فی هذا الباب وجعله غيره من مناقب معاويةؓ لانه فی الحقيقة يصير دعاء له۔
(شرح نووی صفحہ 325)۔
ترجمہ: امام مسلمؒ اس حدیث سے یہی سمجھتے ہیں کہ سیدنا امیرِ معاویہ اس دعا کے مستحق نہ تھے سو آپ اس روایت کو اس باب میں لائے ہیں اور دوسروں نے اسے مناقبِ سیدنا امیرِ معاویہؓ میں لکھا ہے کیوں آپ کا یہ فرمانا اب حقیقت میں سیدنا امیرِ معاویہؓ کے لیے دعائے قرب بن گیا۔
امام نووی نے صحیح مسلم میں اس حدیث پر یہ باب باندھا ہے:
باب من لعنه النبیﷺ او سبه او دعا عليه وليس هوا هلا لذلك كان له زكوٰة واجرا و رحمة۔
(صحیح مسلم جلد 2 صفحہ 223)۔
ترجمہ: یہ باب اس کے متعلق ہے جس پر حضورﷺ نے زجر کی ہو یا اسے برا کہا یا اس کے خلاف دعا کی ہو اور وہ اس کا اہل نہ ہو تو آپﷺ کا اس کے خلاف ایسی بات فرمانا اس کے لیے گناہوں کے اُترنے اجر پانے اور رحمت کا مستحق ہونے کا سبب بن جاتا ہے۔
عربوں کا اسلوب ہے کہ جب وہ کوئی خلافِ توقع عمل دیکھیں تو بات کا رخ موڑنے کے لیے کوئی ایک آدھ سخت جملہ بول جاتے ہیں نہ اس کا مدلول نقطی مراد ہوتا ہے نہ اس کی تمنا صرف پہلی بات کی اہمیت پیش نظر ہوتی ہے سیدنا معاذؓ نے حضورﷺ کی خدمت میں عرض کی:
انا لمواخذون بما نتكلم به۔
ترجمہ: جو کچھ ہم بولتے ہیں کیا ہم اس پر پکڑے جائیں گے۔
آپﷺ نے فرمایا:
ثكلتك أمك يا معاذؓ وهل يكب الناس فی النار على وجوههم او على متاخرهم الا حصائد السنتهم۔
(رواہ احمد و ترمذی و ابنِ ماجہ مشکوٰۃ صفحہ 14)
ترجمہ: تیری ماں تجھ پر بین کرے اے سیدنا معاذؓ کیا جہنم میں لوگ منہ کے بل یا نتھنوں کے رُخ الٹائے جائیں گے ہاں مگر اپنی زبانوں کی کاٹ سے (یعنی زبان کو سنبھال کر رکھنا از حد ضروری ہے)۔
ظاہر ہے کہ حضورﷺ کی یہ طلب ہرگز نہ تھی کہ سیدنا معاذؓ کی والدہ اس پر روںٔے یا یہ کہ وہ فوت ہوں اس قسم کی بات میں اس کے واقع ہونے کی دعا نہیں ہوتی کبھی کہ دیتے ہیں تربت یداہ (اس کے ہاتھ سوکھ جائیں) اسی طرح کا اشبع الله بطنه (اس کا پیٹ نہ بھرے) کے الفاظ کو سمجھ لیجئے پھر بھی الفاظ میں کچھ سختی ہو تو حضورﷺ کے فرمان کے مطابق یہ ان الفاظ اس شخص کے لیے اُلٹا دعا اور اجر و رحمت بن جاتے ہیں ایسے کلمات اسلوبِ عرب میں بغیر قصد کے صادر ہوتے ہیں۔
عمدة المحدثین ملا علی قاری فرماتے ہیں:
هذا دعا ولا يراد وقوعه بل عادة العرب التكلم بمثله على سبيل التلطف لا للقصة الى وقوع مدلوله الأصلى والدلالة على التماسه۔
(مرقات جلد 5 صفحہ 372)۔
ترجمہ: یہ ایسی دعا ہے جس کا وقوع مراد نہیں ہوتا عربوں کی عادت ہے وہ ایسی بات از راہ تلطف کہتے ہیں اس قصد سے نہیں کہ اس کا مدلول اصلی واقع ہو نہ ایسا واقع ہونا ان کی تمنا ہوتی ہے۔
سو حق یہ ہے کہ ایسے الفاظ غیر ارادی کلمات کے زمرہ میں آتے ہیں اور یہ عربوں کا اسلوب بلاغت ہے کہ وہ ایسے موقعوں پر ایسی بات کہہ جاتے ہیں روٹی کھانا یا آہستہ آہستہ کھانا شرعاً ممنوع نہیں فعلِ مباح پر بددعا کسی ضابطہ اخلاق میں نہیں آتی سو اسے سنجیدگی پر محمول کرنے بجائے عرب اسلوب پر محمول کرنا ہی بہتر ہے ورنہ حضورﷺ دوسرے موقع پر سیدنا امیرِ معاویہؓ کے پیٹ کے لیے دعا نہ کرتے ایک دفعہ سیدنا امیرِ معاویہؓ حضورِ اکرمﷺ کے پچھے سوار تھے اور آپ کا پیٹ حضورﷺ کے بدن پاک سے لگ رہا تھا آپ نے دعا فرمائی۔ اے الله سیدنا امیرِ معاویہؓ کے پیٹ کو علم اور حلم سے بھرپور فرما امام بخاریؒ فرماتے ہیں ۔
كان معاويةؓ ردف النبیﷺ فقال يا معاويةؓ ما يلينی منك قال بطنی قال اللهم املاه علما وحلما۔
(تاریخِ کبیر جلد 4 صفحہ 18)۔
اب آپ ہی انصاف کریں کہ اس روایت کے ہوتے ہوئے لا اشبع الله بطنه کو اس کے ظاہر الفاظ پر کیسے محمول کیا جاسکتا ہے پھر جب دیکھا جائے کہ اس روایت کے ان طرق میں جن میں ابوحمزہ القصاب نہیں ہے یہ جملہ سرے سے ہے ہی نہیں تو بات یہاں آکر ٹہرتی ہے کہ کہیں یہ اس راوی کی زیادتی تو نہیں اس جملے کے بغیر یہ روایت مسند امام احمد جلد اول صفحہ 291 میں موجود ہے۔
اس روایت پر شیعہ اعتراض کرتے ہیں کہ علم کبھی پیٹ میں بھی ہوا ہے اس کا محل تو دل و دماغ ہیں پیٹ نہیں حضورﷺ نے یہ دعا کیسے کی ہوگی اے اللہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کے پیٹ کو علم سے بھر دے۔
ہم عرض کریں گے یہ اطلاق بطورِ محاورے کے ہے کیا شیعہ علماء نہیں جانتے کہ جب حضورﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا کا نکاح سیدنا علی المرتضیٰ رضی الله عنہ سے کرنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت فاطمہ رضی اللّٰه تعالیٰ عنہا نے شکایت کی حضورﷺ س حضرت علیؓ کا پیٹ بڑا ہے معلوم ہے آپ نے اس کا کیا جواب دیا؟ یہ ملاباقر مجلسی سے پوچھیئے وہ کہتا ہے حضور اکرمﷺ نے کہا تھا میری پیاری بیٹی ! کیا تو نہیں جانتی کہ وہ علم سے بھرا ہوا ہے۔
اما علمت انه قد ملئى علما۔
(بحار الانوار جلد 10 صفحہ 32)۔
سو اگر سیدنا علیؓ کا پیٹ علم سے بھرا ہوا تھا تو کیا سیدنا امیرِ معاویہؓ کا پیٹ علم سے نہیں بھر سکتا کچھ تو انصاف کیجئے یہ دونوں بزرگ حضورﷺ کے صحابی تھے یہ اس اعتراض کا جواب ہے جو شیعہ کے اس اعتراض کا ہے جو شیعہ امام بخاریؒ کی اس روایت پر کرتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب و علمہ اتم و احکم فی کل باب۔