آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نصاریٰ نجران کو مباہلے کا چیلنج دیا تھا انہوں نے اسے منظور نہ کیا نہ مباہلہ ہوا سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی امتی بھی کسی کو مباہلے کا چیلنج دے سکتا ہے؟ اور کیا یہ چیلنج کسی مسلمان کو بھی دیا جا سکتا ہے یا صرف غیر مسلموں کے لیے ہی ہے؟
سوال پوچھنے والے کا نام:جواب:
ہاں امتی بھی اگر کسی موضوع پر اپنے آپ کو یقین پر تصور کرے اور دوسرے کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو کہ وہ حقیقت سمجھ رہا ہے مگر ضد کر رہا ہے تو پھر ایسے شخص سے بھی مباہلہ ہوسکتا ہے حافظ ابنِ کثیر (774ھ) آیتِ تطہیر کے بارے میں لکھتے ہیں:
وقال عكرمة من شاء باهلته انه نزلت في شان نساء النبیﷺ۔
(تفسیر ابنِ کثیر جلد 3 صفحہ 483)۔
ترجمہ: عکرمہ نے کہا یہ آیت حضورﷺ کی ازواج مطہراتؓ کے حق میں نازل ہوئی ہے جو چاہے میں اس سے مباہلہ کرنے کو تیار ہوں۔
حافظ ابنِ ہمام اسکندری (861ھ) التحریر میں ترجمان القرآن سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے نقل کرتے ہیں آپ کا ترک عمل پر دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سیدنا علیؓ نے اور سیدنا زید بن ثابتؓ سے اختلاف چلا آپ نے فرمایا:
من شاء باهلته ان الله تعالیٰ لم يجعل فی مال واحد نصفاً ونصفا وثلثا۔
(التحریر صفحہ 533 مصر)۔
ترجمہ: جو چاہے میں اس سے مباہلہ کرنے کو تیار ہوں الله تعالیٰ نے کسی مال کے حصے یوں نہیں ٹھہرائے نصف اور نصف اور تہائی۔
قرآنِ کریم میں حاملہ عورت کی عدت وضع حمل تک ہے۔ (دیکھئے سورة الطلاق آیت 6)۔
اور دوسری عورتیں جن کے خاوند فوت ہو جائیں ان کی عدت چار ماہ اور دس دن ہے۔
(دیکھئے سورة البقرہ آیت 234)۔
سیدنا عبد اللہؓ بن مسعودؓ ان لوگوں کے خلاف جو کہتے تھے کہ حاملہ عورت جس کا خاوند فوت ہو جائے اس کی عدت وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں سے جو زیادہ ہو اس کے مطابق ہوگی استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں ایسا نہیں سورة الطلاق (سورة النساء صغریٰ) نے پہلا حکم (چار ماہ اور دس دن والا) اس کے حق میں (حاملہ کے حق میں) منسوخ کردیا ہے علامہ سرخسی (490ھ) لکھتے ہیں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا میں اس پر مباہلہ کے لیے تیار ہوں:
قال ابن مسعودؓ فی عدة المتوفى عنها زوجها اذا كانت حاملا محتجاً به على من يقول انها تعتد با بعد الاجلين فانه قال من شاء باهلته ان سورة النساء القصرىٰ (واولات الاجمال اجلهن) نزلت بعد سورة النساء الطولىٰ (يتربصن بانفسهن) فجعل التاخر دليل النسخ۔
(اصول سرخسی صفحہ 20)۔
سورۃ النساء الطولیٰ سورۃ البقرہ کا ایک دوسرا نام ہے جیسے سورۃ الطلاق کو سورۃ النساء القصریٰ سے بھی موسوم کرتے ہیں۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ضروری نہیں کہ پیغمبر ہی مباہلہ کی دعوت دے امتی بھی بنا بریقینِ کامل اس کی دعوت دے سکتا ہے اور یہ دعوت مسلمانوں کو بھی دی جا سکتی ہے بشرطیکہ وہ بھی اپنے یقین اور قطعیت کے مدعی ہوں۔
مباہلے کا موقعہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نصاریٰ نجران سے پہلے مباحثہ کیا تھا؟ پھر انہیں مباہلہ کا چیلنج دیا تھا اس سے پتہ چلتا ہے کہ مباہلہ میں وہی آئے جو پہلے مباحثہ میں آچکا ہو جس شخص کو موضوع زیر بحث سے کوئی پالا نہ پڑا ہو نہ کوئی مناسبت رہی ہو نہ کبھی اس نے اس موضوع پر مباحثہ کیا ہو اس کا مباہلہ کے میدان میں اترنا ایک خودنمائی کے سوا کوئی درجہ نہیں رکھتا۔ صاحبِ واقعہ کسی کو اس قسم کا چیلنج دے یہ اور بات ہے قرآنِ کریم میں پہلے مباحثہ کا ذکر ہے پھر اس پر مباہلہ کی دعوت دی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا...ثُمَّ نَبْتَهِلْ الخ۔
( پارہ 3 سورة آلِ عمران آیت 61)۔
ترجمہ: سو پھر جو کوئی تجھ سے جھگڑا کرے اس میں بعد اس کے کہ آچکا تمہارے پاس علم تو آپ کہہ دیں آؤ بلادیں ہم اپنے بیٹے پھر ہم سب التجا کریں (الله سے) اور لعنت کریں ان پر جو چھوٹے ہیں۔