حضرت گنگوہیؒ کی اس بات کو کہ یزید سانحہ کربلا کے باعث فاسق ہوا بریلوی درست نہیں مانتے وہ اسے برملا کافر کہتے ہیں حضرت گنگوہیؒ کی تائید میں کیا کچھ ایسی شہادتیں مل سکتی ہیں کہ صلحا و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی کبھی اسے کوئی عزت دی ہو اذا مدح الفاسق اهتزله العرش جب کسی کھلے فاسق کی عزت کی جائے تو اس سے عرش کریم کانپتا ہے؟ حضرت گنگوہیؒ نے اسے ولی عہد ہونے کے وقت فاسق نہیں مانا اس کے لیے سیدنا امیرِ معاویہؓ کے شخصی تقدس اور مقامِ صحابیت کے احترام کے سوا کیا کوئی اور دلیل پیش کی جاسکتی ہے؟ بینوا بسند الكتاب
سوال پوچھنے والے کا نام: زبیر احمدالجواب ومن الله الصدق والصواب:
سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں بلادِ روم فتح ہوئے اور مسلمان قسطنطنیہ تک جا پہنچے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو بحری جنگوں کے لیے خاص طور پر مشاق کرایا تھا آپ نے 49ھ میں بلادِ روم سے جو جنگ کی اس میں امیر لشکر یزید تھا اس کے ساتھ اور کون کون تھے اس کے لیے حافظ ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
ومعه جماعة من سادات الصحابة منهم ابنِ عمروؓ ابن عباسؓ و ابن زبیرؓ و ابو ايوب الانصاریؓ رضی الله تعالیٰ عنهم۔
(البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 32)۔
ترجمہ: اور اس کے ساتھ ساداتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک بڑی جماعت بھی ان میں سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بھی تھے سیدنا عبداللہ بن عباسؓ بھی تھے سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ بھی تھے اور سیدنا ابو ایوب انصاریؓ بھی تھے۔
اب آپ کیا گمان کرسکتے ہیں کہ اتنے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کسی فاسق معلن کی قیادت میں جہاد جیسی عبادت میں نکلے ہوں اور پھر کیا سیدنا امیرِ معاویہؓ سے ممکن ہے کہ وہ ان اکابر اصحابِ رسولﷺ کو کسی فاسق کے جھنڈے تلے آنے کا مشورہ دیں معرکہ قسطنطنیہ میں ہی حضرت ابوایوب انصاریؓ کا انتقال ہوا اور یزید نے ہی آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی۔
وهو الذی صلى عليه۔
(البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 58)۔
اور یزید نے ہی (سیدنا ابوایوب انصاریؓ کی) نماز جنازہ پڑھائی۔
کیا اکابرِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی موجودگی میں ایک فاسق معلن ایک جلیل القدر صحابی کی نماز جنازہ پڑھا سکتا ہے؟ یہ اس وقت کی بات ہے جب یزید فاسق نہ تھا کیا یہ حضرت گنگوہیؒ کے ارشاد کی تائید نہیں؟ پھر ہم اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کرسکتے کہ قسطنطنہ کے اس غزوہ میں سیدنا حسینؓ بھی یزید کی قیادت میں جہاد میں شامل تھے ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
وقد كان فی الجيش الدين غزوا القسطنطينية مع ابن معاويةؓ يزيد فی سنة احدى و خمسين۔
(ایضاً صفحہ 151)۔
ترجمہ: اور سیدنا حسینؓ بھی ان لوگوں میں تھے جنہوں نے یزید کے ساتھ مل کر قسطنطنیہ کی جنگ لڑی یہ سن 51ھ کا واقعہ ہے۔
اب تابعینؒ کی شہادت بھی لیجئے حضرت محمد بن حنفیہؒ جو سیدنا علی المرتضیٰؓ کے صاحبزادے ہیں اکابرِ تابعین میں سے ہیں ان سے اس وقت کے لوگوں نے یزید کے خلاف کچھ باتیں کہیں اس پر آپ نے کہا:
ما رأيت منه ما تذكرون وقد حضرته واقمت عنده فرأيته مواظبا على الصلوٰة متحريا للخير يسأل عن الفقه ملازما للسنة۔
(ایضاً صفحہ 233)۔
ترجمہ: میں نے تو اس میں وہ باتیں نہیں دیکھیں جو تم بتلاتے ہوں میں اس کے پاس کتنی دفعہ گیا ہوں اس کے پاس ٹھہرا بھی ہوں میں نے تو اس کو نماز کا پابند اور نیکیوں کا متلاشی ہی پایا ہے مسائل کو پوچھتا تھا اور سنت کو لازم پکڑتا تھا۔
اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اس وقت یزید کا فسق کسی درجے میں نمایاں نہ تھا اگر ایسا ہوتا تو سیدنا امیرِ معاویہؓ اسے کبھی بھی اپنا ولی عہد مقرر نہ کرتے اور یہ رائے کہ یزید سانحہ کربلا سے پہلے فاسق نہ تھا صرف حضرت گنگوہیؒ کی نہیں دوسرے اکابر علمائے اہلِ سنت کی بھی یہی رائے ہے حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بھی لکھتے ہیں:
و قتیکه امیر معاویهؓ یزید را ولی عهد خود کردند فاسق معلن نبود اگر چیزے کہ کرده باشد در پرده باشد کہ امیر معاویهؓ را ازاں خبر نبود علاوه ازیں حسن تدبیر در جهاد آنچہ کہ از و مشهود شد معروف است۔
(تحقیق و اثبات صفحہ 72)۔
ترجمہ: جس وقت سیدنا امیرِ معاویہؓ نے یزید کو اپنا ولی عہد کیا اس وقت وہ فاسق معلن رکھتا اگر اس نے فسق کا ارتکاب کیا بھی ہو تو پردے میں کیا ہوگا سیدنا امیرِ معاویہؓ کو اس کی خبر نہ ہوگی اس کے علاؤہ جہاد میں حسنِ تدبیر جو اس سے دیکھنے میں آئی اپنی جگہ معروف ہے سیدنا امیرِ معاویہؓ مجتہد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے تھے آپؓ کے خلافت کے باب میں مسلک یہ تھا کہ جو انتظامِ سلطنت بہتر کر سکے اور جنگوں کو صحیح ترتیب دے سکے اسے ہی آگے کرنا چاہیئے اگر زہد و تقویٰ اور عزائم الامور میں اور حضرات افاضل موجود ہوں پھر بھی اگر کوئی شخص آپؓ پر اعتراض کرے تو وہ زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکے گا کہ آپؓ نے ترکِ اولیٰ کیا بہتر تھا کہ آپؓ اسے سیدنا عمرؓ کی طرح ایک کمیٹی کے سپرد کر جاتے ہم اس کے جواب میں کہہ سکتے ہیں ہوسکتا ہے سیدنا امیرِ معاویہؓ کا یہ گمان ہو کہ کمیٹی اس مسئلے کو مؤثر درجے میں حل نہ کر سکے گی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
استخلاف افضل افضل است نہ واجب لیکن این قدررا گناه نتواں گفت کہ بسبب و شتم امیرِ معاویہؓ پیش آںٔیم۔
(مکتوبات مولانا محمد قاسم نانوتویؒ صفحہ 39)
ترجمہ: افضل شخص کو خلیفہ بنانا افضل تو ہے لیکن واجب نہیں اور اتنی بات کو (غیر افضل کو خلیفہ بنانے کو) گناہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسے دلیل بنا کہ ہم سیدنا امیرِ معاویہؓ کو برا بھلا کہنے لگ جاویں۔
سو اس پہلو سے کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ نے یزید کو ولی عہد بنایا آپ کو قطعاً برا بھلا نہیں کہا جا سکتا آپؓ سیاست میں نہایت مدبر اور دینی سمجھ میں اُونچے درجے کے فقیہ تھے آپؓ نے حالات پیش آمدہ کے تحت جو کیا وہ ان کا اجتہاد تھا آپ ایک نیک جذبہ سے کلمہ امت کو ایک رکھنا چاہتے تھے اس کا کسی طرح انکار نہیں کیا جاسکتا آپ کو استخلاف یزید کے وقت اس کی کسی ایسی بات کا علم نہ تھا جو اہلِ بیتِ خلافت کے منافی ہو اور غیب کا علم الله تعالیٰ ہی کو ہوتا ہے بدوں اس کے بتلائے کوئی کیسے غیب کی بات جان سکے اس نے غیب دانی کی چابی کسی کے ہاتھ میں نہیں دی وہ بڑے سے بڑا ولی کیوں نہ ہوا اور جلیل القدر صحابی کیوں نہ ہو۔
واللہ اعلم وعلمہ اتم و احکم۔