کیا یہ صحیح ہے کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ لوگوں کو اپنے بیٹے کی بیعت کے لیے مجبور کرتے رہے اور حکومت کی طرف سے بیعت یزید کے لیے بھاری رشوتیں دی گئیں اور زیاد کا تعاون لینے کے لیے بہت حیلے کیئے گئے اور دھوکہ اور فریب سے کام لیا گیا اس کی تفصیل فرمائیں؟
سوال پوچھنے والے کا نام: ضمیر الدینجواب:
ہم اس سلسلے میں مشہور شیعہ مورخ احمد بن ابی یعقوب الکاتبت الیعقوبی کی شہادت پیش کرتے ہیں:
مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری
یعقوبی 49ھ کے واقعات کے تحت لکھتا ہے:
رحج معاويةؓ تلك السنة فتالف القوم ولم ويكرههم على البيعة۔
(تاریخ یعقوبی جلد 2 صفحہ 229)۔
ترجمہ: اور سیدنا امیرِ معاویہؓ نے اسی سال حج کیا آپ نے قوم کے دلوں کو جیتا اور ان سے جبراً (یزید کی) بیعت نہ لی۔
مخالفینِ سیدنا امیرِ معاویہؓ پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کو بھاری رشوت دے کہ اپنا ہمنوا بنایا ہے اسے ثابت کرنے کے لیے وہ بےسروپا روایات کا سہارا لیتے ہیں ان روایات کا ایک راوی مؤمل بن اسماعیل ہے حافظ ذہبی (848ھ) لکھتے ہیں:
قال البخاری منكر الحديث وقال ابو زرعة فی حديثه خطاء كثير۔
(میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 228)۔
اذا انفرد بحديث وجب ان يتوقف۔
(تہذیب التہذیب جلد 10 صفحہ 381)۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تیزکیہ قرآن و سنت سے ثابت ہے اور یہ عقیدے کا موضوع ہے جو روایات عقائد کی سرحدوں کو چھوتی ہوں وہ اعلیٰ معیار ثبوت کی ہونی چاہیں انہیں محض تاریخی روایات نہ سمجھنا چاہئیے ان کے اعتبار سے اسلامی عقائد کی وہ کڑیاں ٹوٹتی ہیں جو کتاب و سنت نے قائم کی ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب۔