حضرت عبدالرحمٰن بن عبدربِ کعبہ کہتے ہیں سیدنا امیرِ معاویہؓ ہمیں باطل طریقے سے مال کھانے اور لوگوں کو بےجا قتل کرنے کا حکم دیتے ہیں کیا کسی صحابی سے ممکن ہے کہ وہ لوگوں کو لوٹ کھسوٹ اور قتل و قتال کی دعوت دے بتائیں کیا اس حدیث پر سب محدثین کا اتفاق ہے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: محمد صدیق کھوکھر لاہورجواب:
سیدنا عمرو بن عاصؓ کے بیٹے سیدنا عبداللہؓ ایک دفعہ کعبہ کے سائے میں احادیث سنا رہے تھے اور لوگ آپ کے گرد جمع تھے آپ نے ایک حدیث بیان کرتے ہوئے حدیث کا یہ حصہ پڑھا:
و من بايع اماما فاعطاه صفقة يده و ثمرة قلبه فليطعه ما استطاع فان جاء احد ينازعه فاضربوا رقبة الأخر۔
(سنن نسائی جلد 2 صفحہ 165)۔
ترجمہ: اور جس نے کسی امام کی بیعت کی اور اس کے ہاتھ میں دست وفا اور دل کا خلوص دیا اسے چاہیے کہ اس کی پوری اطاعت کرے جہاں تک کرسکے پھر اگر کوئی حکمران اٹھے جو اس کے خلاف ہو تو تم اس دوسرے کی گردن مار دو۔
یہ اس دور کی بات ہے جب سیدنا علیؓ رضی الله عنہ اور سیدنا امیرِ معاویہ رضی الله عنہ میں اختلاف زوروں پر تھا عبدالرحمٰن بن عبدرب کعبہ حضرت علی المرتضیٰ رضی الله عنہ سے بیعت کئے ہوئے تھے ان کے ذہن میں یہ بات آئی کہ پھر حضرت امیرِ معاویہ رضی الله عنہ کی ساری مہم اور ان کا اپنے لشکروں پر مال خرچ کرنا یہ سارا سلسلہ اکل اموال بالباطل اور بےجا قتل و قتال کے ذیل میں آتا ہے ہم جب ایک امام کی بیعت کرچکے تو اب ہم دوسرے کی کیوں سنیں یہ تو اس کی دعوت ہے کہ ہم اپنے آپ کو یونہی ضائع کریں اور فوجی اپنے وظیفے غلط لیتے رہیں عبدالرحمٰن بن عبدربِ کعبہ نے اسی ذہن سے حضرت عبداللہ بن عمروؓ (67ھ) سے اس وقت جب وہ مذکورہ حدیث بیان کرچکے کہا:
هذا ابن عمك معاويهؓ يامرنا ان ناكل اموالنا بالباطل وتقتل انفسنا۔
(صحیح مسلم جلد 2 صفحہ 126)۔
ترجمہ: یہ آپ کا چچا زاد بھائی ہمیں کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے اموال غلط طور پر کھاتے ہیں اور اپنی جانیں یونہی لڑاتے ہیں۔
اب ظاہر ہے کہ عبدالرحمٰن کا اشارہ سیدنا امیر معاویہؓ کے نظم مملکت اور مالی نظام کے غلط ہونے کی طرف نہ تھا اس سیاسی اختلاف کی طرف تھا جو سیدنا امیرِ معاویہؓ سیدنا علیؓ کے خلاف اختیار کئے ہوئے تھے اور وہ سیدنا عثمانؓ کے مظلومانہ قتل کے خلاف ایک اصولی آواز تھی یہ مسںٔلہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں مجتہدفیہ تھا اور دونوں طرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین موجود تھے اب جن وجوہ سے ہم سیدنا امیرِ معاویہؓ کو اس اجتہادی موقف کا حق دیتے ہیں اسی جہت سے ان کا اپنے لشکروں پر خرچ کرنا اور لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کی دعوت دینا لا تاكلوا أموالكم بينكم بالباطل اور ارشادِ خداوندی وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ الخ۔
(سورۃ النساء آیت 29) کے ظاہر سے نکل جاتا ہے کیونکہ ان کے پاس اپنے اس موقف کی تائید میں بہت سی وجوہ ہیں جن کی بناء پر انہیں بطورِ مجتہد اجتہاد کا حق پہنچتا ہے۔
سو یہ الفاظ کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ ہمیں حکم دیتے ہیں ان ناکل اموالنا بیننا بالباطل وتقتل انفسنا اپنے ظاہر پر مبنی نہیں یہ راوی عبدالرحمٰن کا اپنا اعتقاد تھا کہ پھر سیدنا امیرِ معاویہؓ کے موقف کی حمایت سے یہ بات لازم آتی ہے نہ یہ کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کھلے لفظوں میں اکل اموال بالباطل کی تعلیم دے رہے تھے حاشا و کلا ایسا کہ کسی صحابی سے کیسے ممکن ہے؟ ہرگز نہیں سو یہ سننے والے کا اپنا اندازہ ہے جو ان لفظوں میں بول رہا ہے۔ شارحین حدیث نے یہاں صاف اسے راوی کا اپنا عقیدہ قرار دیا ہے:
فاعتقد هذا القائل هذا الوصف فی معاويةؓ لمنازعته علياؓ۔ (شرح نوی جلد 2 صفحہ 162)۔
ترجمہ: اس کہنے والے کے ذہن میں سیدنا امیرِ معاویہؓ کے بارے میں یہ بات تھی بایں وجہ کہ وہ سیدنا علیؓ سے لڑ رہے تھے۔
پھر یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ عبدالرحمٰن اور اور حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے مابین یہ بات آخری بات کانوں کان ہورہی ہے حدیث بحدیث کے ختم ہونے پر عبدالرحمٰن ان کے قریب گئے (فدنوت منه) اور ان سے پوچھا واقعی آپ نے یہ حدیث حضورﷺ سے سنی ہے؟ اس کے بعد انہوں نے اپنے احساسات اُن سے کہے اور انہوں نے کہا آپ سیدنا امیرِ معاویہؓ کی صرف انہی باتوں میں تعمیل کریں جو طاعتِ الٰہی کے تحت ہوں یعنی اگر آپ پہلے سیدنا علیؓ سے بیعت کیئے ہوئے ہیں تو اب بے شک سیدنا امیرِ معاویہؓ کے لشکروں میں شامل ہوں۔
یہ عبد الرحمٰن بن عبدرب کعبہ صحابی نہیں انہوں نے جو بات کہی یہ ان کے اپنے سیاسی احساسات ہیں ان کی کبھی ملاقات سیدنا امیرِ معاویہؓ سے ہوتی ہو اور انہوں نے انہیں یہ اکل اموال بالباطل کی ترغیب دی ہو یہ کہیں ثابت نہیں اب محض اتنی وجدانی بات سے ایک جلیل القدر صحابی کی دیانت کو مجروح کرنا کون سا انصاف ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اس آخری حصے کے نقل کرنے پر سب محدثین متفق نہیں ہیں امام نسائیؒ نے پوری حدیث بیان کی ہے اور عبدالرحمٰن اور سیدنا عبداللہ بن عمروؓ کی اس گفتگو کو نقل نہیں کیا اور حدیث بیان کر کے لکھ دیا ہے الحدیث متصل۔
(سنن نسائی جلد 2 صفحہ 165)۔
یہ اشارہ ہے کہ اسکے آگے حدیث کا کوئی جزو نہیں سنن ابنِ ماجہ میں بھی یہ ٹکڑا نہیں ملتا۔
(سنن ابن ماجہ صفحہ 293)۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے رواۃ میں کوئی ایسا راوی ہے جو کبھی اسے روایت کرتا ہے اور کبھی نہیں پھر عبدالرحمٰن اسے بلفظ جمع نقل کرتا ہے يأمرنا ان نأكل اموالنا بالباطل ونقتل انفسنا اور اس کی تصدیق میں عبدالرحمٰن کے سوا ہمیں ایک شخص بھی نہیں ملتا جس نے یہ کہا ہو کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ نے ہمیں یہ بات کہی ہے عبد الرحمٰن سے نیچے اس کا راوی زید بن وہب کوفی ہے علماء نے گو اسے ثقہ بھی لکھا ہے لیکن یہ بھی تصریح کی ہے:
فی حديثه خلل کثیر اس کی روایت میں بہت خلل واقع ہوتے ہیں۔
(تہذیب التہذیب جلد 3 صفحہ 427)۔
اب اس کی روایت سے سیدنا امیرِ معاویہؓ کی دیانت پر جرح کرنا کس طرح درست ہوسکتا ہے اور پھر جب سیدنا حسنؓ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کی حکومت کو صحت خلافت کی سند دے دی تو پھر کیا یہ صورت باقی رہی جس کی عبد الرحمٰن بن عبد خبر دے رہے ہیں، اور کیا حضورﷺ کا ارشاد العبرة بالخواتیم صحیح نہیں اور کیا سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ اکل اموال بالباطل کے مرتکب تھے؟ ہرگز نہیں پھر آپ سوچیں کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کے اموال اور بیتُ المال کو کس طرح اموالِ باطلہ کہا جاسکتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب۔