حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بیٹے عامر کہتے ہیں حضرت امیرِ معاویہؓ نے میرے والد حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا والد صاحب سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے عقیدت رکھتے تھے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا آپ ابو تراب کو گالی کیوں نہیں دیتے مالك لا تسب ابا تراب والد صاحب نے کہا میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے حق میں تین باتیں ایسی سنی ہیں کہ اب میں انہیں کسی طرح برا نہیں کہہ سکتا حضرت امیرِ معاویہؓ نے یہ سب باتیں سنیں اور کوئی جواب نہ دے سکے کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: (مولوی) اسد اللہ از جھنگ صدرجواب:
سیدنا امیرِ معاویہؓ اور سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کی یہ ملاقات غالباً مکہ میں ہوئی ہے اس میں سیدنا امیرِ معاویہؓ نے حضرت سعدؓ سے وجہ پوچھی کہ وہ سیدنا علیؓ کے بارے میں خاموش کیوں ہیں اور میرے ساتھ کیوں نہیں ہوتے خونِ سیدنا عثمانؓ کے بارے میں سیدنا علیؓ نے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر پائے آپ انہیں برا بھی نہیں کہتے اور اس کی وجہ کیا ہے سبّ کا معنیٰ گالی دینا ہی نہیں برا کہنا اور لا تعلق ہونا بھی اسی ذیل میں آتا ہے اور یہ لفظ عام ہے:
ابو عبدالله محمد بن خلفہ الوشستانی شرح مسلم میں لکھتے ہیں:
يحمل السبّ على التغيير فی المذهب والراى فيكون المعنىٰ ما منعك من ان تبين للناس خطاءه وان ما نحن عليه اسدرا صوب ومثل هذا یسمی سبا فی العرف۔
(اکمال اکمال المعلم)۔
ترجمہ: یہاں لفظ سبّ اپنے موقف اور رائے کو بدلنے پر محمول کیا جائے گا گالی کے معنیٰ پر نہیں پس اس کا مطلب یہ لیا جائے گا آپ کو کس چیز نے روک رکھا ہے کہ لوگوں کے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خطاء بیان نہ کریں اور یہ بات کہنے سے کہ جس بات پر ہم ہیں وہ زیادہ صحیح اور بہتر ہے عرب عرف میں ایسے موقف کو بھی لفظ سبّ سے ذکر کر دیتے ہیں۔
(اور ظاہر ہے یہ گالی کا معنیٰ نہیں ہے)۔
لغتِ حدیث کی مشہور کتاب مجمع البحار میں ہے:
المعنىٰ ما منعك ان تخطئه فی اجتهاد وتظهر للناس حسن اجتهادنا۔
(مجمع البحار جلد 2 صفحہ 83)۔
ترجمہ: اس کا معنیٰ یہ لیا جائے گا کہ آپ کو کس چیز نے سیدنا علیؓ کے خطاء فی الاجتہاد اور ہمارے صواب فی الاجتہاد کو لوگوں کے سامنے لانے سے روک رکھا ہے
پھر اس روایت میں سیدنا امیرِ معاویہؓ نے سیدنا سعدؓ کو سبّ کرنے کے لیے نہیں کہا سبّ کرنے کی وجہ پوچھی ہے کہ یہ از راہ تقویٰ و تورع ہے یا کسی خوف کے باعث ہے یا کوئی اور وجہ ہے اگر تورع اور احتیاط ہے تو پھر صحیح ہے اور اگر کوئی اور وجہ ہے تو بتلائیں میں اس کا جواب دے کہ آپ کو مطمئن کروں گا۔
حضرت سعدؓ نے صاف صاف حضرت علیؓ کے فضائل ذکر کیئے 1۔ فتح خیبر کا علمبردار ہونا 2۔ ہارون امت ہونا۔ 3۔ اور حدیثِ کساء میں اہلِ بیت میں آنا ذکر فرمایا اور حضرت امیرِ معاویہؓ نے ان میں سے کسی کا مناقشہ نہیں کیا آرام سے سنا سیدنا سعدؓ ان سے بالکل مرعوب نہیں ہوئے اور بات صاف صاف کہہ دی اس سے پتہ چلا کہ سیدنا امیر معاویہؓ کسی کو سیدنا علیؓ کو برا کہنے پر مجبور نہیں کرتے تھے اور نہ انہیں سیدنا علیؓ کے فضائل سے انکار تھا یہ صرف سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے وفا تھی جو انہیں ان کے ناحق خون کے قصاص کے لیے اُٹھاںٔے ہوئے تھی اور وہ ہر ہر صحابی کو واقعات کی روشتی میں مطمئن کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے سیدنا سعدؓ رضی الله عنہ چونکہ اکابر میں سے تھے عشرہ مبشرہ میں سے تھے اور سیدنا عمر رضی الله عنہ کی مقرر کردہ کمیٹی کے اصحاب ستہ میں سے تھے اس لیے سیدنا امیرِ معاویہ رضی الله عنہ نے ان کو ہم خیال بنانے کے لیے بات چھیڑی اور وجہ پوچھی کہ آپ سیدنا علیؓ کے خطاء فی الاجتہاد کو لوگوں کو سامنے کیوں نہیں لاتے؟۔
اگر یہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کا حکم ہوتا تو سیدنا سعدؓ اس دلیری سے سیدنا علیؓ کے فضائل ذکر کرسکتے تھے اور کیا پھر سیدنا سعدؓ یونہی چلے جاتے افسوس ہمارے دوست بات سمجھتے نہیں اور پراپیگنڈہ جاری رکھتے ہیں کہ حضرت امیرِ معاویہؓ کے حکم سے سیدنا علیؓ کو صبح شام گالیاں دی جاتی تھیں استغفر اللّٰه لعظیم۔
امام نووی شافعی (672ھ) لکھتے ہیں:
نقول معاويهؓ هذا ليس فيه تصريح بانه امر سعدا بسبّه انما سأله عن السبب المانع من السبّ كانه يقول هل امتنعت منه تودعا او خوفاً او غير ذلك فان كان تورعا واجلالاً له عن السبب فانت مصيب وان كان غير ذلك فله جواب أخر۔
(نووی جلد 2 صفحہ 278)
ترجمہ: سیدنا امیرِ معاویہؓ کی اس بات میں یہ بات نہیں پائی جاتی کہ آپ نے سیدنا سعدؓ کو سبِّ سیدنا علیؓ کا حکم دیا ہو آپ نے محض اس کا سبب پوچھا کہ آپ سیدنا علیؓ سے لا تعلق کیوں نہیں ہوتے گویا آپ پوچھ رہے ہیں کہ آپ تورع اور احتیاط کی وجہ سے ایسا نہیں کرتے یا کوئی خوف مانع ہے یا اس کا کوئی اور سبب ہے اگر سبّ سے دور رہنا از راہ اور تورع و احتیاط ہے پھر تو آپ درست ہیں اور اگر کچھ اور بات ہے تو اس کا جواب دوسرا ہے۔
اگر سیدنا امیرِ معاویہؓ واقعی سیدنا سعدؓ کو سیدنا علیؓ کے بارے میں گالی دینے کا حکم دے رہے تھے تو پھر سیدنا سعدؓ ان کے ایسے معتقد کیوں ہوگئے کہ ان کے فصیلوں کو بالکل حق سمجھنے لگے آپ فرماتے ہیں:
ما رایت احدا بعد عثمانؓ اقضى بحق من صاحب هذا الباب یعنی معاویهؓ۔
(تاریخ دول الاسلام للذہبی جلد 2 صفحہ 321 البدایہ جلد 8 صفحہ 133)۔
ترجمہ: سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کہتے ہیں میں نے سیدنا عثمانؓ کے بعد حق کا فصیلہ کرنے والا سیدنا امیرِ معاویہؓ سے بڑھ کر کسی کو نہیں پایا۔
پھر ایک دفعہ آپ شام گئے تو سیدنا امیرِ معاویہؓ کے ہاں ایک رمضان گزارا ہے۔
(البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 72)۔
سیدنا سعدؓ اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کے یہ تعلقات بتاتے ہیں کہ آپ کا ان سے پوچھنا مالك لا تسبّ ابا تراب سیدنا علیؓ کو گالی دلوانے کے لیے نہیں تھا اور نہ یہ بات صحیح ہے کہ آپ کے حکم سے (معاذ اللہ) سیدنا علی المرتضیٰؓ کو برسر منبر گالیاں دی جاتی تھیں۔
واللہ اعلم وعلمہ اتم و احکم۔