Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

دنیا میں مختلف نظام حکومت پائے جاتے ہیں کون سے سانظامِ حکومت بہتر ہے 1۔ جمہوریت 2۔ ملوکیت 3۔ اشتراکیت یا کوئی اور نیز بتائیں کہ حضرت امیرِ معاویہؓ کا نظام حکومت کونسا تھا؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   حیدر

جواب:

بہترین نظامِ حکومتِ خلافت ہے اس میں حکم اور قانون کا سرچشمہ الله رب العزت کو مانا جاتا ہے حکمران اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول خاتمﷺ کی ماتحتی اور نیاسبت میں انتظامِ سلطنت کرتے ہیں حکمران کا انتخاب اس معیار کے مطابق جو کتاب و سنت میں دیا گیا ہے عوام کرتے ہیں لیکن جب تک وہ نظمِ سلطنت کرتا ہے عوام اسے اتار نہیں سکتے عوام کو ہر طرح سے چشمہ اقتدار مانا جائے یہ جمہوریت ہے اور اسے صحیح سمجھتنا اور حق جاننا کفر ہے۔

خلافت کے بعد ملوکیت کا درجہ ہے یہ نظام بدترین تو ہوسکتا لیکن کفر نہیں بادشاہ اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی بادشاہت یا ملوکیت بذاتِ خود کوئی بری چیز نہیں پیغمبروں نے بھی بعض اوقات اس کے درجہ ضرورت کو قبول کیا ہے بنو اسرائیل نے سموئیل پیغمبر کے دور میں ان سے گذارش کی کہ ہم پر کوئی ایسا بادشاہ مقرر کردیں جس کے ماتحت ہم جہاد کریں انہوں نے باذنِ الٰہی انہیں بتایا کہ الله تعالیٰ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ مقرر کیا ہے اور اس کا تقرر اصولِ سلطنت کے علم اور وجاہتِ شخصی پر ہوا ہے اگر ملوکیت میں باعتبار ذات کوئی عیب ہوتا تو نہ وہ پیغمبر ان کے لیے کسی بادشاہ کی درخواست کرتے نہ الله تعالیٰ لفظ ملک سے ان کی پذیرائی کرتے بلکہ صاف کہہ دیا جاتا ہے کہ ملوکیت ایک بری چیز ہے تم اس کی طلب کیوں کرتے ہو قرآنِ کریم میں ہے:

اَلَمۡ تَرَ اِلَى الۡمَلَاِ مِنۡۢ بَنِىۡٓ اِسۡرَآءِيۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مُوۡسٰى‌ۘ اِذۡ قَالُوۡا لِنَبِىٍّ لَّهُمُ ابۡعَثۡ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ‌ؕ قَالَ هَلۡ عَسَيۡتُمۡ اِنۡ کُتِبَ عَلَيۡکُمُ الۡقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوۡا قَالُوۡا وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ... اِنَّ اللّٰهَ قَدۡ بَعَثَ لَـکُمۡ طَالُوۡتَ مَلِكًا الخ۔

( سورۃ البقره آیت 246)۔

ترجمہ: کیا تم نے دیکھا ایک اسرائیلی جماعت کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد جب انہوں نے اپنے نبی سے کہا آپ ہمارے لیے ایک بادشاہ ٹھہرائیں تاکہ ہم لڑیں الله کی راہ میں ان کے نبی نے انہیں کہا کہ بے شک الله نے طالوت کو تمہارے لیے بادشاہ مقرر کیا ہے۔

اسی طالوت کے داماد حضرت داؤد علیہ السلام تھے جنہوں نے جالوت کو قتل کیا تھا حضرت داود علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس بادشاہی اسی طرح آئی تھی ظاہر ہے کہ ملوکیت میں اپنی ذات میں کوئی عیب نہ تھا ورنہ الله تعالیٰ لفظ ملوکیت کو کسی پہلو سے بھی پذیرائی نہ دیتے۔

الله تعالیٰ نے ایک اور موقعہ پر بنو اسرائیل پر اپنے احسانات ذکر فرماتے ہیں اور ان میں جس طرح بنو اسرائیل پہ احسان تھا کہ الله تعالیٰ نے ان میں انبیاء پر انبیاء بھیجے یہ بھی تھا کے اللہ تعالیٰ نے تم میں بادشاہ بھی بنائے یہ ملوکیت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کی نہیں ان سے پہلے کی ہے جب اسرائیل میں بادشاہت کا نظام چلتا رہا قرآنِ کریم میں ہے:

وَاِذۡ قَالَ مُوۡسٰى لِقَوۡمِهٖ يٰقَوۡمِ اذۡكُرُوۡا نِعۡمَةَ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ اِذۡ جَعَلَ فِيۡكُمۡ اَنۡۢبِيَآءَ وَجَعَلَكُمۡ مُّلُوۡكً ۖ وَّاٰتٰٮكُمۡ مَّا لَمۡ يُؤۡتِ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِيۡنَ۝۔ 

(سورۃ المائده رکوع 4 آیت 20)۔

ترجمہ: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو کہا اے قوم میرے انعامات کو یاد کرو جب میں نے تم میں نبی بھی بنائے اور بادشاہ بھی تم میں بنائے اور تمہیں وہ کچھ دیا جو نہ دیا تھا کسی کو جہان ہیں۔

مسلمانوں میں سلطان صلاح الدین ایوبی سے لے کر اورنگ زیب عالم گیر تک کتنے ایسے بادشاہ ہوئے جن کی بادشاہت آج کل کی جمہوریت سے لاکھوں درجہ اچھی تھی جلالۃ الملک عبدالعزیز پہلے شخص ہیں جنہوں نے سعودی عرب میں صدیوں کی کوتاہی کے بعد الله کی حدود پھر سے نافذ کیں ہم مسلمانوں کے نزدیک اصل قانون الٰہی کا انصرام اور حکمِ خداوندی کا انتظام ہے۔ نظام حکومت تو اس کے لیے محض ایک آلہ ہے نہ کہ اصل کہ ہم اپنی بحثوں میں الجھ کر رہ جائیں اور یہ نہ دیکھیں کہ اصل قانون ہے جس سے الله کی مخلوق کو اس کارخانہ کائنات میں اپنا حق ملتا ہے۔

ایک سوال اور اس کا جواب:

ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ملوکیت اچھی چیز نہیں حضورﷺ نے فرمایا میرے بعد خلافت تیسں سال تک رہے گی پھر بادشاہت ہوجائے گی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملوکیت ناجائز ہے؟۔

الجواب من الله الصدق والصواب:*ل اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ملوکیت ناجائز ہے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ نظامِ خلافت بہتر ہے اور اولیٰ ہے ملوکیت دوسرے درجے میں ہے ملوکیت میں اگر کوئی برا مفہوم پیدا ہوتا ہے تو لفظ عضوض سے نہ کہ ملوکیت کی ذات میں کوئی برائی ہے اور اس روایت میں جو جامع ترمذی سے نقل کی جاتی ہے یہ لفظ نہیں ہے اس میں بنو زرقاء کو شر الملوک کہہ کہ تو برا کہا گیا ہے لیکن لفظ ملوکیت کو عیب نہیں سمجھا گیا ہے۔

كذبوا بنو زرقاء بل هم ملوك من شر الملوك۔ 

(جامع الترمذی جلد 2 صفحہ 114)۔

نہایت افسوس ہے کہ اس روایت کو المصنف میں نقل کرتے ہوئے کسی راوی نے یہ الفاظ بھی بڑھا دیئے. واول الملوك معاويةؓ۔ 

(المصنف لابنِ ابی شیبہ جلد 14 صفحہ 132)۔ 

راوى اولهم کہہ کر بات بڑھاتا تو اس کی بات بن جاتی لیکن اول الملوک کہنے سے وہ اس میں کوئی برائی داخل نہیں کرسکا پھر اس نے اسے سفینہ کی رائے کے طور پر لکھا ہے حدیث کے الفاظ کے طور پر نہیں۔

 ایک اور سوال:

بعض احادیث میں بارہ خلفاء کا ذکر ملتا ہے اور بعض دوسری روایات میں کثرتِ خلفاء کی خبر دی گئی ان کے ہوتے ہوئے یہ تیس سال خلافت والی روایت درست معلوم نہیں ہوتی حضورﷺ نے فرمایا: لا نبی بعدى وستكون خلفاء فتكثر۔ 

(صحیح مسلم جلد 2 صفحہ 126)۔

ترجمہ: میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور خلفاء ہوں گے اور بہت سے ہوں گے۔

اس حدیث کی روشنی میں حضرت امیر معاویہؓ بھی خلفاء میں آتے ہیں ملوک میں نہیں اس کا جواب دعوت میں شائع فرمائیں؟۔

جواب: یہ حدیث سیدنا سفینہؓ کی تیس سال والی روایت کے خلاف نہیں اس حدیث میں کہ خلفاء بہت ہوں گے مطلق خلافت مراد ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے آپ کو خلیفہ کہے گا اور تیس سال والی روایت میں خلافتئ نبوت مراد ہے کہ اس دور میں اللہ رب العزت کی اطاعتِ نبوت کے منہاج پر کی جائے گی حافظ ابنِ حجر عسقلانی لکھتے ہیں:

انه اراد فی حديث سفينةؓ خلافة النبوة ولم يقيده في حديث جابر بن سمرهؓ بذلك۔

(فتح الباری جلد 13 صفحہ 180) ۔

ترجمہ: حدیثِ سفینہؓ میں آپ کی مراد خلافتئ نبوت ہے اور حدیثِ جابر بن سمرہں میں خلافت کو خلافتِ نبوت سے مقید نہیں کیا گیا۔

سیدنا امیر معاویہؓ کا دورِ حکومت خلافتِ راشدہ اور خلافتِ عامہ کے مابین ایک عبوری دور ہے آپ کی حکومت خلافتِ عادلہ تھی جس میں کتاب و سنت کو آئینی بالا دستی حاصل تھی اور عدل و انصاف کی حدود قائم تھیں لیکن اس کا معیار خلافتِ راشدہ کے دوسرے درجہ پر تھا خلفائے راشدین سیرتِ نبویﷺ کے بہت زیادہ قریب تھے روز مرہ کی زندگی میں صبر و ایثار ان کا پیمانہ تھا بشری تقاضوں میں وہ جہد و مشقت سے گزرتے تھے اور مباح امور میں وہ توسع اور فراخی کی راہ سے نہیں توکل اور تقویٰ کی راہوں پر چلتے تھے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو اپنے پورے دورِ خلافت میں کسی خلافِ شرع راہ پر نہیں چلے لیکن مباح امور میں وہ کبھی وسعت سے بھی کام لے لیتے تھے اور وقت گزرنے سے اس توسع کا اوپر کے حلقے میں آجانا ایک فطری امر تھا حق یہ ہے کہ آپ کا دورِ حکومتِ خلافت تھا آپ نے حکومت کسی سے وراثت میں نہ لی تھی سیاسی راہ سے آپ اقتدار پر آئے تھے آپ کا پہلا دورہِ حکومت سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ کی نیابت میں تھا اور دوسرا دور سیدنا حسنؓ کی صلح سے شروع ہوتا ہے جو ملک کی قومی اور سیاسی سطح پر قائم ہوا تھا ثم ملکاً (کہ خلافت پھر ملوکیت ہوجائے گی) میں لفظ (ثم پھر اس کے بعد) غور طلب ہے اور اس سے وہ حکومت مراد ہوگی جو اس تیس سال کے بعد شروع ہوا اور حضرت امیر معاویہؓ کی حکومت تو تیس سال کے اندر سے شروع ہوچکی تھی گو وہ خلافتِ تامہ کی صورت میں نہ تھی ہاں خلافتِ علی منہاج النبوۃ کے حکمران خلفاءِ اربعہ ہی ہیں خلافتِ راشدہ اور خلافتِ عادلہ کے اس باریک فاصلے کو عقائد نسفی کی شرح بنراس میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔

اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مباح امور میں خلفائے اربعہ تحرز اور اجتناب کی راہ سے چلے اور یہ عزیمت کی راہ تھی اور سیدنا معاویہؓ نے ایسے کئی مواقع پر توسع اور رخصت کی راہ اختیار فرمائی اور یہ کسی پہلو سے محلِ اعتراض اور موجبِ طعن نہیں افضلیت اور بات ہے۔

آپ کی حکومت کو اگر کسی پہلو سے ملوکیت بھی کہا جائے تو یہ ایسی ملکیت تھی جس سے خلافت کی نفی نہیں کی جاسکتی، اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حضرت حسن رضی الله عنہ خلافت کو ملوکیت کے سپرد کریں اس جہت سے تو ملوکیت کے بانی سیدنا حسن رضی الله عنہ ہوجائیں گے کہ انہوں نے خلافت کو ملوکیت کے سپرد کیا اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں ان کا یہ اقدام محلِ قدح ہوگا محلِ مدح نہ رہے گا حالانکہ حضور اکرمﷺ نے اپنی ایک پیشگوئی میں سیدنا حسنؓ کے اس اقدام کو محلِ مدح میں ذکر کیا ہے کہ اس امت کی دو فںٔہ عظیمہ آپؓ کے اس قدم سے ایک ہوجائیں گی۔  

واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔