Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

آپ نے کسی گذشتہ اشاعت میں لکھا ہے کہ خلفاءِ راشدین مباح امور میں تحرز و اجتناب کی پالیسی اختیار کرتے تھے اور ان کی نظر ہمیشہ عزیمت پر ہوتی تھی لیکن حضرت امیرِ معاویہؓ بعض ایسے مواقع پر توسع اختیار فرمالیتے تھے اور رخصت پر عمل کرتے تھے اس پر کوئی حوالہ پیش کریں اور بتائیں کہ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ نے کبھی رخصت پر عمل کیا ہو اور افضل کو چھوڑ دیا ہو؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   السائل عبد القادر حسن ابدال

جواب:

صاحبِ نبراس حضرت علامہ عبدالعزیز پر ہاروی لکھتے ہیں:

ونحن نعترف بان معاویهؓ وان کان عالما وعادلا دون الخلفاء الاربعة فی العلم والورع والعدل کما تری من التفاوت بین الاولیاء بل الملںٔکة والانبیاء فامارته وان كانت صحيحة باجماع الصحابة وتسليم الحسن الا انها ليست على منهاج خلافة من قبله فانه توسع فى المباحات وتحرز عنها الخلفاء الاربعة۔ 

(النہایۃ عن طعن معاویہؓ صفحہ 40۔41 طبع ملتان)۔

ترجمہ: اور ہم تسلیم کرتے ہیں کہ سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ باوجودیکہ بڑے عالم بڑے پرہیزگار اور بڑے انصاف پسند تھے تاہم وہ خلفاءِ اربعہ سے ان امور میں ان سے نیچے تھے یہ اسی طرح ہے جس طرح تم اولیاء و ملائکہ اور پیغمبروں میں فرق دیکھتے ہو پس سیدنا امیر معاویہؓ کی امارت اگرچه اجماعِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سپرداری حضرت حسنؓ کے باعث بالکل صحیح تھی لیکن وہ پہلی خلاقتوں کے منہاج پر نہ تھی کیونکہ آپ مباحات شرعیہ میں توسیع اور گنجائش سے کام لے لیتے اور خلفاءِ اربعہ اس سے بچتے (ہمیشہ زیادہ تورع اور احتیاط کی جانب اختیار کرتے)۔

حضرت عمرؓ نے وفات سے پہلے خلافت ایک شورےٰ کے سپرد فرمائی تھی بیٹے کو باوجود اہل ہونے کے اس کمیٹی میں نہ رکھا تھا یہ تقویٰ کی انتہاء تھی سیدنا امیرِ معاویہؓ نے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے کہنے اور مشورہ دینے سے اپنے بیٹے کو جانشین نامزد کیا گو بیٹے کو بنانا اسلام میں منع نہیں اور اس کے انکار پر کتاب وسنت میں کوئی نکیر وارد نہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ افضل کام اس مہم کو شورےٰ کے سپرد کرنا تھا جیسا کہ سیدنا عمرؓ نے کیا تھا سیدنا امیرِ معاویہؓ نے اسی موقعہ پر جو کیا اس میں آپ نے افضل کو چھوڑ دیا اور افضل کو چھوڑ کر مفضول کو اختیار کرنا شریعت میں منع نہیں ہے سو یہ کسی امر ممنوع کا ارتکاب نہیں نہ اس پر سیدنا امیرِ معاویہؓ کو علامت کیا جاسکتا ہے۔

علامہ ابو الحسن علی بن محمد الماوردی (450ھ) لکھتے ہیں:

وقال الاكثر من الفقهاء والمتكلمين تجوز امامته و صحت بيعته ولا يكون وجود الافضل مانعاً من امامة المفضول اذا لم يكن مقصرا عن شروط الامامة۔ 

(احکام السلطانیۃ صفحہ 6)۔

ترجمہ: اکثر فقہاء اور متکلمین کہتے ہیں (زیادہ درجے کے لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی) مفضول کی امامت اور اس کی بیعت جائز ہے اور افضل کا پایا جانا مفضول کی امامت میں رکاوٹ نہیں بنتا بشرطیکہ وہ مشروط امامت پورا کرنے سے قاصر نہ ہو۔

اور قاضی ابویعلی محمد بن الحسین الفترا (458ھ) اپنی کتاب الاحکام السلطانیہ میں لکھتے ہیں: 

و يجوز ان يعهد الى من ينتسب اليه بابدة او بنوة اذا كان المعهود له على صفات الائمة لان الامامة لا تنعقد للمعهود اليه بنفس العهد و انما تنعقد بعهد المسلمين۔

(احکام السلطانیۃ صفحہ 9)۔

ترجمہ: اور جائز ہے کہ خلیفہ اسے ولی عہد بنائے جو اس کا باپ یا بیٹا ہو بشرطیکہ وہ ولی عہد ان شرطوں کو پورا کرلے جو اںٔمہ میں ہونی چاہئیں کیونکہ امامت صرف اس نامزدگی سے قائم نہیں ہوتی وہ مسلمانوں کی بیعتِ عام سے ہوتی ہے (یعنی ولی عہد بنانا صرف ایک تجویز اور اپنی صوابدید کا اظہار ہے)۔

جو لوگ سیدنا امیرِ معاویہؓ کے استخلاف یزید سے خوش نہیں وہ سیدنا امیرِ معاویہؓ پر صرف ترک افضل کا الزام لگا سکتے ہیں یہ نہیں کہ آپ نے کسی ممنوع شرعی کا ارتکاب کیا ہے۔ 

قاضی ابوبکر بن العربی (543ھ) لکھتے ہیں:

انا نقول ان معاويةؓ ترك الافضل فى ان يجعلها شورى والا يخص بها احدا من قرابته فكيف ولدا۔ 

(العواصم من القواصم صفحہ 222)۔

ترجمہ: ہم کہتے ہیں سیدنا امیرِ معاویہؓ نے اس افضل کو ترک کیا کہ خلافت کو (سیدنا عمرؓ کی طرح) شوریٰ میں رکھتے اور یہ اپنے قرابت میں سے کسی کو نہ دیتے چہ جائیکہ بیٹے کو سیدنا امیرِ معاویہؓ کی رائے اس موضوع میں یہ تھی کہ خلافت کے لیے اس شخص کو آگے کیا جانا چاہیئے جو قوت کا مالک ہو صاحب الرائے ہو حالات اور وقت کے تقاضوں کو اچھی طرح جانتا ہو گو اسلام لانے میں اور حضرات اس سے سبقت لے گئے ہوں اور زہد و عبادت میں اس سے بڑھے ہوں۔

حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں:

و كان رای معاويةؓ فی الخلافة تقديم الفاضل فی القوة والراى والمعرفة على الفاضل فی السبق إلى الاسلام والدين والعبادة فلهذا اطلق انه احق۔ 

(فتح الباری جلد 8 صفحہ 324)۔

ترجمہ: سیدنا امیرِ معاویہؓ کی رائے خلافت میں اس شخص کو آگے کرنا تھی جو سلطنت سنبھالنے کی قوت تدبیر اور حالات کو جاننے میں ان سے آگے ہو جو اسلام لانے میں دیانت ہیں اور عبادت میں اس سے آگے ہیں اور اسی لیے آپ نے اطلاق رکھا کہ زیادہ حقدار وہی ہے۔

علامہ ابنِ خلدونؒ بھی لکھتے ہیں:

و عدل عن الفاضل الى المفضول حرصاً على الاتفاق واجتماع الاهواء الذی عند الشارع و ان كان لا يظن بمعاويةؓ غير هذا فعدالته وصحبته مانعة من سوى ذلك۔

(مقدمہ ابنِ خلدون صفحہ 311 فصل 30)۔

ترجمہ: اور سیدنا امیرِ معاویہؓ نے فاضل سے مفضول کی طرف رجوع کیا تاکہ امت زیادہ سے زیاد متفق رہ سکے اور زیادہ سے زیادہ اجتماع آراء قائم ہو اور سیدنا امیرِ معاویہؓ سے اس کے علاؤہ اور کسی چیز کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا آپ کا عادل ہونا اور صحابی رسول ہونا یہاں کسی بدگمانی کو جگہ دینے سے مانع ہے۔

بقول علامہ ابنِ خلدون سیدنا امیرِ معاویہ کو یہی صورت پیش آئی تھی اور انہوں نے اسی لیے اپنے بیٹے کو نامزد کیا کہ ان کی رائے میں بنوامیہ کو اکٹھا رکھنے کی اس کے سوا کوئی اور راہ نہ تھی کسی اور کو نامزد کرتے تو بنوامیہ اس پر اتفاق نہ کرتے اور نہیں کہا جاسکتا کہ پھر حالات کا رخ کیا ہوتا اندیشہ تھا کہ شیرازہ اسلام کہیں بالکل تار تار نہ ہو جائے علامہ ابنِ خلدونؒ لکھتے ہیں:

والذی دعا معاويهؓ لا يثار ابنه يزيد بالعهد دون من سواه انما هو مراعاة المصلحة فی اجتماع الناس واتفاق اهوائهم باتفاق اهل الحل والعقد عليه حينئذ من بنی اميه اذ بنواميه يومئذ لا يرضون سواهم وهم عصابة قريش واهل الملة اجمع و اهل الغلب منهم فاثره بذلك دون غيره ممن يظن انه اولی بها۔ 

(مقدمہ ابنِ خلدون صفحہ 373)۔ 

ترجمہ: وہ بات جس نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو اپنے بیٹے یزید کے ولی عہد بنانے پر آمادہ کیا اور آپ کسی اور کی طرف نہ گئے وہ لوگوں کو اکٹھا رکھنے اور اس وقت بنوامیہ کے اہل حل و عقد کے اس پر متفق رہنے سے پوری قوم کی خواہشات کو مجتمع رکھنے کی مصلحت کے لیے تھا بنو امیہ اس وقت اپنے سوا کسی اور پر راضی نہ ہوسکتے تھے اور وہ قریش کی ایک بڑی قوت تھے اور ملت کی بڑی جمعیت تھے اور غلبہ انہی کا تھا سو آپ نے اس لیے اپنے بیٹے کو اس میں ترجیح دی اور کسی اور کو نہ چنا جس کے بارے میں گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ اس سے اولیٰ اور بہتر تھا۔

علامہ ابنِ خلدونؒ ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:

وكذلك عهد معاويةؓ الى يزيد خوفا من اختراق الكلمة بما كانت بنوامية لم يرضوا تسليم الامر الى من سواهم فلوقد عهد إلى غيره اختلفوا عليه مع ان ظنهم كان به صالحا ولا يرتاب احد فی ذلك ولا یظن بمعاويةؓ غيره فلم يكن ليعهد اليه و هو يعتقد ما كان عليه من الفسق حاشا لله المعاويةؓ من ذلك۔ 

(ایضاً صفحہ 365)۔

ترجمہ: اور اسی لیے سیدنا امیرِ معاویہؓ نے یزید کو ولی عہد بنایا مبادا اس بات سے کہ بنوامیہ اپنے سوا کسی اور کو حکومت سپرد کرنے کے لیے راضی نہ تھے پوری امت کہیں ٹکڑے ٹکڑے نہ ہوجائے آپ کسی اور کو مقرر کرتے تو وہ (بنو امیہ) اس سے بگڑ جاتے اور یہ بھی ہے کہ ان کا پہلے کا گمان یزید کے بارے میں اچھا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کر سکتا اور نہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کے بارے میں اس کے سوا کوئی گمان کیا جا سکتا ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کو یزید کے فسق کا بھی پتہ ہو اور آپ پھر اسے مقرر کریں حاشا وکلا سیدنا امیرِ معاویہؓ ایسا ہرگز نہیں کرسکتے تھے۔

سیدنا امیرِ معاویہؓ سفرِ آخرت پر روانہ ہونے کو تھے جب آپ نے سلطنت اسلامی کا یہ اہم فصیلہ کیا آپ کے سامنے اس وقت دنیا کی کشش تھی؟ اس کے لیے آپ کے یہ الفاظ آج بھی تاریخ میں محفوظ ہیں جو آپ نے اپنی الوداعی دعا میں کہے:

اللّٰهم ان كنت انما عهدت ليزيد لما رايت من فضله فبلغه ما املت واعته وان كنت انما حملنی حب الوالد لولده و انه ليس باهل فاقبضه قبل ان يبلغ ذلك۔ 

(تاریخ دول الاسلام للذہبی جلد 2 صفحہ 267 البدایہ جلد 8 صفحہ 80 وقاںٔع صفحہ 56)۔

ترجمہ: اے اللّٰه! اگر میں نے یزید کو اس لیے ولی عہد بنایا ہے کہ میں نے اس میں قالبیت دیکھی ہے تو تو اسے اس درجے تک پہنچا جس کی میں نے اُمید باندھی ہے اور اس کی مدد فرما اور اگر مجھے اس پر اس محبت نے آمادہ کیا ہے جو باپ کو اپنے بیٹے سے ہوتی ہے اور وہ اس کا اہل نہیں ہے تو تو اسے اٹھالے اس سے پہلے کہ وہ اس تک پہنچے۔

کیا آپ اب بھی اس گہرائی تک نہیں پہنچے جس تک اُتر کر سیدنا امیرِ معاویہؓ نے اجتماع کلمہ امت کی فکر کی تھی کہ کہیں آپ کے بعد سلطنت اسلامی کسی غیر مسلم نرغے میں نہ آجائے اور کوئی بیرونی طاقت مسلمانوں کو نہ لپیٹ سکے۔

قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی رائے بھی یہی ہے کہ اس وقت تک یزید کا فسق کہیں ظاہر اور ثابت نہ تھا اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ جیسے جلیل القدر فقیہ الامت کاتبِ وحی صحابی کسی کھلے فاسق و فاجر کو اپنا جانشین مقرر کریں ایسے وقت (آخری وقت میں) تو گنہگار بھی تائب ہوجاتے ہیں اور آخرت نظر آتے ہوئے کون ایسا ارتکاب کرسکتا ہے کہ شریعیت کے ایک کھلے باغی کو امت کی گردنوں پر سوار کر جائے اور پھر یہ کام وہ شخص کرے جس کے دست حق پرست پر حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ دونوں بیعت کرچکے ہوں حاشا و کلا ایسا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

حضرت گنگوہیؒ لکھتے ہیں:

یزید مومن تھا بسبب قتل کے فاسق ہوا۔ 

(فتاویٰ رشیدیہ صفحہ 63)۔

سیدنا امیرِ معاویہؓ نے یزید کو خلیفہ کیا تھا اس وقت اچھی صلاحیت میں تھا۔ 

(ایضاً صفحہ 242)۔

یزید اول صالح تھا بعد حالات کے خراب ہوا تھا۔ 

(ایضاً صفحہ 262)۔