Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

تاریخ میں شیعانِ علی کا ذکر کب سے ملتا ہے نیز بتائیں کہ اس نے ایک مذہبی فرقے کی صورت کب سے اختیار کی؟ یہ بھی بتائی کہ اب یہ کسی مذہبی گروہ کا نام ہے یا ایک سیاسی تحریک ہے جو عالم اسلام پر کبھی غلبے کے حق میں ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   (حافظ) محمد الیاس

جواب:

الحمدلله وسلام على عباده الذين اصطفى اما بعد:

تاریخ میں شیعانِ علی سب سے پہلے اس گروہ کو کہا گیا ہے جو حضرت علی المرتضیٰؓ کے خلافت پر آنے سے پہلے لوگوں میں بنو امیہ اور بنو ہاشم کے مابین سیاسی فاصلے قائم کرنا چاہتے تھے حضرت عثمانؓ بنوامیہ میں سے تھے اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بنو ہاشم میں سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاں دونوں ایک جیسے بزرگ تھے مگر کچھ لوگوں نے سیدنا علیؓ سے پوچھے بغیر ان کے گرد عقیدت کے ایسے دائرے کھینچ لیے تھے کہ خود سیدنا علیؓ کو ان سے پیچھا چھڑانا مشکل ہوگیا تھا پھر یہ لوگ برسرِ عام حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف اٹھے اور سیدنا علی المرتضیٰؓ سے پوچھے بغیر انہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کے جھنڈے اٹھالیئے اور بالآخر آپ کو شہید کر کے دم لیا

سیدنا علی المرتضیٰؓ اور حضراتِ حسنینؓ آخر دم تک سیدنا عثمانؓ کے ساتھ رہے یہ حضرات خود باغیوں کے خلاف اس لیے نہ اُٹھے کہ اسلام میں امیر المؤمنین کی اجازت کے بغیر کوئی فوجی کارروائی نہ ہوسکتی تھی اور حضرت عثمانؓ اپنی حمایت میں کسی کو لڑنے اور اپنے باغیوں کی سرکوبی کرنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ سیدنا علی المرتضیٰؓ نہ بلاشبہ سیدنا عثمانؓ کے وفاداروں میں رہے اور سیدنا عثمانؓ کی شہادت کے بعد بھی آپ نے ان کے خلاف کوئی ایک کلمہ نہ کہا آپ اپنی خلافت کو انہی حضرات سے متصل سمجھتے تھے اور اسے حضورﷺ سے بلافصل نہ جوڑتے تھے لیکن آپ کے اردگرد کچھ ایسے لوگ تھے جو سیدنا عثمانؓ کے خلاف شریکِ بغاوت رہے تھے اور اب وہ کھلے بندوں سیدنا عثمانؓ سیدنا امیرِ معاویہؓ اور سیدنا عمرو بن عاصؓ کو سبِّ وشتم کرتے تھے یہ لوگ اپنے آپ کو شیعانِ علی میں سے کہتے لیکن عملاً انہیں خاندانِ علی سے کوئی عقیدت نہ تھی یہ شیعانِ علی کا آغاز ہے اور سیدنا علیؓ یقیناً ان سے کھلے فاصلے پر تھے۔

عبداللہ بن سبا یہودی نے صرف اسلام کو توڑنے کے لیے سیدنا عثمانؓ کے دورِ خلافت کے آخر میں بغاوت کے کچھ کانٹے بکھیرے اس نے سیدنا علیؓ کی طرف داری محض اس لیے کی کہ اس کے بغیر صف اسلام کو توڑنا ممکن نہ تھا اسے حبِّ علی سے فرض نہ تھی بنوامیہ سے بعض درکار تھا اور شوکتِ اسلام کو توڑنا اس کا نقطہ انقلاب تھا۔ 

عبداللہ بن سبا نے جن بڑے لوگوں کو سیدنا عثمانؓ کے خلاف اکسایا ان میں محمد بن ابی بکر بھی آگیا یہ سیدنا علیؓ کا پروردہ تو تھا مگر سیدنا عثمانؓ کی مخالفت میں بالکل بے راہ ہوگیا تھا سیدنا علیؓ کے راستے پر نہ تھا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقابلے میں جب تک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نہ لایا جائے عبداللہ بن سبا کی کوئی بات سنی نہ جاسکتی تھی اور کوئی اس کے پھندے میں نہ آسکتا تھا اس نے یہی کیا کہ حضرت علی المرتضیٰؓ کا نام لے کر یہ اپنی کاروائی کرتا رہا محمد بن ابی بکر کو سیدنا عثمانؓ کے خلاف اکسانے کے لیے سیدنا عثمانؓ کے ایک خط میں کچھ جعلی کاروائی کی گئی سیدنا عثمانؓ نے محمد بن ابی بکر کو مصر کا والی بنا کر روانہ کیا تو اہلِ مصر کے نام خط لکھا کہ محمد بن ابی بکر کو والی تسلیم کرو سازش سے خط یوں بنا ڈالا گیا کہ محمد بن ابی بکر کو پہنچتے ہی قتل کردو محمد نے یہ خط پڑھ لیا اور سیدنا عثمانؓ کے خلاف ہوگیا تاہم آپ کے آخری وقت میں اُسے شرم آگئی اور وہ پیچھے ہٹ گیا۔

شیعت کی ابتداء ہوچکی تھی سیدنا علیؓ اور ان کے بیٹے سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ سیدنا عثمانؓ کے وفاداروں اور پہرے داروں میں تھے اور ان کا ربیب محمد بن ابی بکر سبائیوں کی سازش کا شکار تھا جب یہ مصر میں مارا گیا تو سیدنا علیؓ نے فرمایا اگر میں ہاشم بن عتبہ کو مصر کا والی بناتا تو وہ اہلِ مصر کو کبھی ہلنے نہ دیتا افسوس کہ محمد بن ابی بکر ان کے سامنے ٹھہر نہ سکا۔

وقد اردت تولية مصر هاشم بن عتبة ولو وليته اياها لما خلى لهم العرصة ولا انهزم الفرصة۔ 

(نہج البلاغہ جلد 1 صفحہ 116)۔

ترجمہ: میں نے ہاشم بن عتیہ کو مصر کا والی بنانا چاہتا تھا اور اگر میں اسے مصر کا والی بنا دیتا تو یہ انہیں (اہلِ مصر کو) کوئی راہ نہ دیتا اور ایک لمحہ بھی پیچھے نہ ہوتا۔

جس طرح محمد بن ابی بکر سبائیوں کے ہاتھ چڑھا طبقہ تابعین کے اور کئی لوگ بھی ان کی سازشوں میں شریک ہوگئے ان میں ایک شخص حجر بن عدی بھی تھا جو بظاہر صالح اور پرہیزگار تھا مگر اندر سے وہ سبائی فتنے کا شکار ہوچکا تھا اس وقت تک یہ فتنہ محض ایک سیاسی فتنہ تھا ابھی تک اس نے مذہب کی شکل اختیار نہیں کی تھی۔

حجر بن عدی کوفہ کے قبیلہ کنڈی میں سے تھا اور تابعی (الاصابہ جلد 1 صفحہ 313) تھا بعض لوگوں سے اسے صحابی بھی کہا ہے مگر بیشتر محدثین اسے صحابی تسلیم نہیں کرتے (البدایہ جلد 8 صفحہ 50) اس کے اردگرد کچھ اور لوگ بھی تھے جن کا کام سیدنا عثمانؓ کے والیوں کو برا بھلا کہنا تھا یہ شیعانِ علی تھے مگر سیدنا علیؓ نہ ان کے ساتھ تھے اور نہ ان میں سے تھے حافظ ابنِ کثیرؒ لکھتے ہیں: 

انهم كانوا ينالون من عثمانؓ ويطلقون فيه مقالة الجور وينتقدون على الامراء ويسارعون فی الانكار عليهم ويبالغون فی ذلك ويتولون شيعة على و يتشددون فی الدين۔ 

(البدایہ جلد 8 صفحہ 54)۔

ترجمہ: وہ سیدنا عثمانؓ کی شکایت کرتے اور ان کے بارے میں زیادتی کی بات کہتے تھے ان کے امراء پر تنقید کرتے اور ان سے انکار میں جلدی کرتے اس میں مبالغہ کرتے اور ان لوگوں سے دوستی رکھتے جو اپنے آپ کو سیدنا علیؓ کی پارٹی بتاتے اور دین میں تشدد کرتے۔

سیدنا عثمانؓ کی شہادت کے بعد یہ لوگ سیدنا علیؓ کے گرد اس چال سے جمع ہوئے کہ یہ لوگ ان کی کوئی بات چلنے نہ دیتے تھے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو برسرِ عام برا بھلا کہتے اور سیدنا علیؓ انہیں کہتے کہ میں تمہارے ان اعمال سے سخت نالاں ہوں شریف رضی (404ھ) لکھتا ہے آپ نے انہیں برملا کہا کہ میں تمہارے اس سبّ وشتم سے سخت بے زار ہوں:

وقد سمع قوما من صحابه يسبون اهل الشام أيا مرحو بهم بصفين انى أكره لكم ان تكونوا سبابين ولو قلتم مكان سبكم اللهم احقن دمائنا و دمائهم واصلح ذات بيننا وبينهم۔ 

(نہج البلاغہ جلد 1 صفحہ 420)۔

ترجمہ: اور آپ نے اپنی پارٹی بننے والوں میں سے بعض کو اہلِ شام کے بارے میں برا بھلا کہتے سنا یہ جنگِ صفین کے دن تھے آپ نے کہا میں اسے ناپسند کرتا ہوں کہ تم اہلِ شام کو برا بھلا کہو کاش کہ تم انہیں برا کہنے کی بجائے یہ دعا کرتے اے الله ہماری اور ان کی جانوں کو بچا اور ہمارے اور ان کے مابین اچھے حالات پیدا کر شیعی مورخ دینوری لکھتا ہے کہ یہ لوگ حجر بن عدی عمرو بن اسحٰق اور ان کے ساتھی تھے انہوں نے الٹا سیدنا علیؓ سے کہا:

لم تمتعنا من شتمهم ولعنهم؟

آپؓ نے فرمایا:

كرهت لكم ان تكونوا شتامين لقانين ولكن قولوا اللهم احقن دمائنا ودماهم واصلح ذات بيننا وبينهم۔ 

(اخبار الطوال صفحہ 165)۔ 

ترجمہ: مجھے ناپسند ہے کہ لعنت کرنے والے اور (اہلِ شام کو) گالی دینے والے ہو اس کی بجائے تم یہ کہو اے الله ہمارے اور اُن کے خون بچا اور ہم میں اور ان میں حالات اچھے پیدا کر۔

اپنی زور آوری سے انہوں نے سیدنا علیؓ کا یہ حال کر رکھا تھا کہ آپ کو جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کہا کہ جن لوگوں نے سیدنا عثمانؓ پر چڑھائی کی آپ انہیں پکڑتے کیوں نہیں تو آپ نے فرمایا: 

انى لست اجهل ما تعلمون ولكن كيف لی بقوة والقوم المجلبون على حد شوكتهم يمكوننا ولا تملكهم۔ 

(اخبار الطوال صفحہ 315)۔

ترجمہ: میں اس سے ناواقف نہیں جو تم جانتے ہو لیکن میری طاقت ہی کب ہے (کہ میں انہیں پکڑ سکوں) اور وہ اپنی پوری شوکت سے چھائے ہوئے ہیں وہ ہم پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں ہم ان پر حکومت نہیں کررہے سیدنا علیؓ کی بے بسی تھی جو انہوں نے آپ کے پورے ماحول پر مسلط کر رکھی تھی لیکن یہ لوگ دل سے سیدنا علیؓ اور ان کے خاندان کے خیر خواہ نہ تھے اس خاندان کی خیر خواہی کا دم اسی حد تک بھرتے جس حد تک بنوامیہ کو برا بھلا کہنے کا انہیں موقع مل سکے جب سیدنا علیؓ سے غرض نہ تھی محض بغضِ سیدنا امیرِ معاویہؓ درکار تھا اور ایسی پالیسی تھی کہ قومی بے وفائی پر یہ آج تک ضرب المثل چلی آرہی ہے۔

جب سیدنا حسنؓ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ سے صلح کی اور خلافت ان کے سپرد کردی تو جو شخص سیدنا حسنؓ کو سب سے پہلے اعتراض کرنے کے لیے ملا وہ یہی حجر بن عدی تھا اس نے ان الفاظ میں حضرت حسنؓ کو مخاطب کیا:

یا ابن رسول الله لوددت انی مت قبل ما رأيت اخرجتنا من العدل الى الجور فتركنا الحق الذی كنا عليه ودخلنا فی الباطل الذی كنا نهرب منه و اعطينا الدينية من انفسنا وقبلنا الخسيسة التي لم تلق بنا۔ 

(ایضاً صفحہ 220)۔

ترجمہ: اے سیدنا حسنؓ میں اس کو پسند کرتا ہوں کہ میں مر جاتا اور اس صورت (صلح) کو نہ دیکھتا تو نے ہمیں عدل سے نکال کر ظلم کی طرف جھونک دیا ہے ہم نے اس حق کو جس پر ہم تھے چھوڑ دیا ہے ہم اس باطل میں داخل ہوچکے ہیں جس سے ہم بھاگتے تھے اور ہم نے اپنے نفوس کو کمینگی دی ہے اور ہم نے وہ خفت قبول کرلی ہے جو ہمیں اب تک نہ آئی تھی۔ 

ذرا غور کیجئے سیدنا حسنؓ کو اس نیک کام پر (جس پر حضورﷺ نے انہیں سید فرمایا اور کہا کہ الله تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرائے گا) جائر اور ظالم کہنے والا انہیں تارکِ حق کہنے والا انہیں داعی باطل کہنے والا کیا دل کی گہرائیوں سے اولادِ رسول کی تعظیم کرنے والا ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں پھر معلوم نہیں شیعہ علماء حجر بن عدی کے بارے میں کیوں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

حجر بن عدی کی یہ تمام کوششیں حبِ علیؓ یا خاندانِ رسول کی عظمت کے لیے ہرگز نہ تھیں یہاں حبِ علیؓ سے غرض نہ تھی صرف بغضِ معاویہؓ درکار تھا یا بنوامیہ اور بنوہاشم کے خاندانی فاصلوں کو اور بڑھانے کی ایک یہودیانہ سازش تھی۔

پھر اس شخص نے سیدنا حسنؓ کی مخالفت میں سیدنا حسینؓ کو کھڑا کرنے کی بھی کوشش کی حجر بن عدی عبیدہ بن عمرو کو ساتھ لے کر سیدنا حسینؓ کے پاس آیا اور کہا:

دع الحسن ما راى من هذا الصلح واجمع اليك شيعتك من اهل الكوفة و غير هاولنی و صاحبی هذه المقدمة فلا يشعر ابن هند الا ونحن نقارعه بالسيوف۔ 

(اخبار الطوال صفحہ 220)۔

ترجمہ: آپ حسنؓ کا ساتھ چھوڑ دیں اور انہوں نے جو یہ صلح کی ہے اُسے رہنے دیں کوفہ اور دوسرے علاقوں سے اپنے ساتھیوں کو جمع کریں اور مجھے اور میرے اس ساتھی کو یہ کام سپرد کریں سیدنا امیرِ معاویہؓ کو پتہ ہی اس وقت چلے جب ہم تلواریں لے کر اس پر جا پہنچیں۔

اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ شیعہ کا عقیدہ امامت اس وقت تک قائم نہ ہوا تھا ورنہ وہ لوگ سیدنا حسینؓ کو سیدنا حسنؓ کے مقابلہ میں لانے کی کوشش نہ کرتے عقیدہ امامت اس کی اجازت نہیں دیتا کہ دوسرے امام کو چھوڑ کر وہ تیسرے امام پر آجائیں آگے سیدنا حسینؓ کا جواب بھی سنیں:

سیدنا حسینؓ نے اس کی بات نہ مانی اور فرمایا:

انا قد بايعنا وعاهدنا ولا سبيل إلى نقض بيعتنا۔ 

(ایضاً صفحہ 220)۔

ترجمہ: بے شک ہم نے (سیدنا امیرِ معاویہؓ کی) بیعت کر لی ہے اور ان سے عہد باندھا ہے اب ہمارے پاس اپنی بعیت کو توڑنے کی کوئی راہ نہیں (اسے توڑنے کا کوئی جواز نہیں)۔

اس صورتِ حال سے پتہ چلتا ہے کہ حجر بن عدی باوجود لبادہ زہد و عبادت کے قانون کی نظر میں مفسد تھا دورِ اول کی شیعیت یہی تھی اور ان کا موضوع سیاست بنوامیہ اور بنوہاشم کے اختلافات کو بڑھانا اور بنوامیہ سے نفرت پھیلانا تھا سیدنا عمرؓ کے دور میں اس نے جنگِ قادسیہ میں حصہ لیا تھا اور جنگِ صفین میں سیدنا علی المرتضیٰؓ کے طرفداروں میں تھا لیکن سیدنا امیرِ معاویہؓ کے دور میں یہ مفسدین میں تھا اور سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کی پالیسی کو کھلے بندوں غلط کہتا اس کی ہر کوشش ہوتی کہ جس طرح بھی بن پڑے سیدنا حسنؓ کی صلح کو سبو تاژ کیا جائے۔

کوفہ میں سیدنا امیرِ معاویہؓ کے امیر سیدنا مغیرہ بن شعبهؓ (50ھ) صحابی رسول تھے جب وہ خطبہ دیتے تو یہ درمیان میں (دیکھںٔیے البدایہ جلد 8 صفحہ 50) بول پڑتا آپ درگزر سے کام لیتے سیدنا مغیرہؓ کے بعد زیاد والی کوفہ ہوا تو اس نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کر کے سیدنا امیرِ معاویہؓ کے پاس بھیج دیا اس پر الزام یہ تھا کہ اس نے خلیفہ وقت کو کھلم کھلا برا بھلا کہا ہے اور امیرِ کوفہ سے مقابلہ شروع کر رکھا ہے اور کہتا ہے کہ خلافت سیدنا حسینؓ کو دی جانی چاہیئے۔ (انہ سب الخلیفہ وانہ حارب الامیر وانہ یقول ان ہذا الامر لا یصلح الا فی آل علی ابن ابی طالب صفحہ 51) بنوامیہ اس پر کیوں مسلط ہوںٔے ہیں۔

ابنِ جریر طبری لکھتا ہے:

ان حجرا جمع اليه الجموع واظهر شتم الخليفة ودعا الى حرب امیر المومنین وزعم ان لهذا الامر لا يصلح الا فى ٰال على بن الطالب و وثب المصر واخرج عامل امير المؤمنين وان هؤلاء النفر الذين معه هم رووس اصحابه وعلى مثل راية۔ 

(طبری صفحہ 150 جلد 6)

ترجمہ: بے شک حجر بن عدی نے اپنے پاس لوگوں کو جمع کرلیا ہے خلیفہ وقت کو برا بھلا کہنا اعلانیہ شروع کر دیا ہے امیر المومنین سے جنگ کرنے کی دعوت دے دی ہے اور یہ عقیدہ بنائے بیٹھا ہے کہ حکومت سیدنا علیؓ کی اولاد کے سوا اور کسی طرف نہ جائے شہر پر وہ آدھمکا ہے اور امیر المومنین کے عامل کو وہاں سے نکال دیا ہے اور یہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں وہ بھی اسی رائے اور عقیدہ پر ہیں۔

اس پر سیدنا امیرِ معاویہؓ نے شہادت طلب کی سب نے گواہی دی کہ حجر بن عدی نے حکومت سے محاربہ قائم کر رکھا ہے:

فشهدوا كلهم ان حجرا اجتمع الجموع واظهر شتم معاويةؓ ودعا الى حربه۔ 

ترجمہ: سب گواہوں نے گواہی دی کہ حجر فوجوں میں آ لگا ہے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو کھلی گالی دیتا ہے اور اپنی علیحدہ پارٹی بنائی ہے۔

ان گواہوں میں سیدنا وائل بن حجرؓ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کے بیٹے سیدنا طلحہؓ کے بیٹے اور بھی کئی لوگ تھے قانونِ شریعت کی رو سے یہ اور اس کے ساتھی گردن زدنی تھے اسلام میں مسںٔلہ امن اور سلامتی سلطنت کو اولیت دی گئی ہے گو سیدنا امیرِ معاویہؓ بہت حلیم الطبع تھے اور سیاسی انتقام پسند نہ کرتے تھے لیکن اب ان باغیوں کے قتل کے سوا کوئی چارہ نہ تھا عذراء کے مقام پر ان چھ افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچا دیا گیا (یہ چھ حجر بن عدی شریک بن شعار صیفی بن غسیل، قبیصہ بن ضبعیہ معرز بن شہاب اور کرام بھی حسان تھے) سیدہ ام المومنینؓ کو اس صورت حال کا تفصیلی علم نہ تھا انہوں نے سیدنا امیرِ معاویہؓ سے حجر بن عدی کی سزا کا شکوہ کیا تو سیدنا امیرِ معاویہؓ نے فرمایا:

لست انا قتلتهم انما قتلهم من شهد عليهم۔ 

(طبری جلد 6 صفحہ 156)۔

ترجمہ: میں نے انہیں قتل نہیں کیا ان کے قتل کا باعث وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان پر (بغاوت کی) گواہی دی ہے۔

ایک اور روایت میں ہے:

وجدت فی قتله صلاح الناس وخفت من فسادهم۔ 

(تاریخ الاسلام ذہبی جلد 2 صفحہ 276)۔

ترجمہ: اس کے قتل میں عوام کا فائدہ تھا اور مجھے اندیشہ تھا کہ ان کا حال اور بگڑے گا۔

سیدہ ام المومنینؓ نے کہا:

اين غاب عنك علمك حين قتلت حجرا فقال حين غاب متى مثلك من قومی۔ 

(البدایہ جلد 8 صفحہ 55)۔

ترجمہ: اے سیدنا امیرِ معاویہؓ تمہارا علم (بردباری) کہاں گیا تھا جب تم نے حجر بن عدی کے قتل کا حکم دیا تھا؟ آپ نے کہا جب آپ جیسی ہستیاں دور تھیں تو یہی ہونا تھا۔

تاریخ گواہ ہے کہ پھر جو ہونا تھا ہوکر رہتا انما نحكم بظواهر الشريعة والله يتولى السرائر ان تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ شیعیت ابتداء میں صرف ایک سیاسی گروہ بندی کی صورت میں تھی اور امامت کا عقیدہ ابھی ان میں نہ آیا تھا حکومت کے آسمانی حق کا عقیدہ انہیں ایران سے ملا جو ساسانی بادشاہوں کو حکومت کا آسمانی حق دیتے تھے۔

شیعیت جب سیاسی میدان میں نہ ٹھہر سکی تو اس نے ایک مذہبی شکل اختیار کی اور خاندان داستان کے آسمانی حقِ امامت کا عقیدہ وضع کرلیا یورپ کے مستشرقین بھی لکھتے ہیں کہ شیعیت کی زیادہ تر دلالتیں عجمی ہیں ان کی اصل الاصول ان کی کتاب الکافی ہے جو محمد بن یعقوب الکلینی (329ھ) نے لکھی اُن کی دوسری حدیث کی کتابیں اس کے بعد کی ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مذہب باقاعدہ صورت میں چوتھی صدی میں مرتب ہونا شروع ہوا ان کے سلسلہ امامت کے گیارہویں فرد امام حسن عسکری تیسری صدی ہجری کے وسط میں فوت ہوئے اور ائمہ کی روایات ابھی جاری تھیں کہ بارہویں امام المولود (254ھ) بھی غیبتِ صغرےٰ میں چلے گئے اہلِ سنت کے ہاں یہ دور امام بخاریؒ (256ھ) اور امام مسلمؒ (262ھ) کا دور تھا اور ان کا دین اس سے ڈھائی سو سال پہلے مکمل ہوچکا تھا اور اس کے بعد وہ کسی آسمانی مامور کے قائل نہیں رہے۔

موجوده دور میں شیعہ زیادہ تر اثناء عشری ہیں اہلِ سنت رواۃ حدیث میں اگر کہیں کوئی شیعہ راوی ہے تو وہ اثناء عشری نہیں اثناء عشری شیعوں کی روایات اہلِ سنت محدثین قبول نہیں کرتے الا یہ کہ انہیں اس کے عقیدہ کا پتہ نہ چلے اس دور میں شیعہ کا تعارف زیادہ تر ایک مذہبی گروہ کی حیثیت سے ہے لیکن ان کی سیاسی سرگرمیوں کو نظر غائر سے دیکھا جائے تو یہ اب بھی ایک سیاسی تحریک کی صورت میں کام کرتے نظر آئیں گے اور یہ ہر وقت منتظر ہیں کہ کب امام مہدی کا ظہور ہو جو عالمِ اسلام پر عربوں کے موجودہ غلبے سے انہیں نجات دلائے ان کا بس چلے تو یہ حرمین شریفین میں بھی سیاسی نعرے لگادیں جو عبادت کی جگہیں ہیں جہاں داخل ہونے والا ہمیشہ کا امن پاتا ہے۔

یہ ایک مختصر تبصرہ ہے جو آپ کے سوال کے مختلف پہلوؤں کو شامل ہے وللتفصیل مقام آخر۔

واللہ اعلم و علمہ اتم و احکم۔