Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

حضرت حسن رضی اللہ عنہ جب فوت ہوئے تو اس کا حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ پر طبعی اثر کیا رہا؟ ایک صاحب نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ جب حضرت امیرِ معاویہؓ کو حضرت حسنؓ کی وفات کی خبر پہنچی تو آپ کے پاس مقدام بن معدیکرب اور ان کے ساتھ دو اور ساتھی تشریف فرما تھے سیدنا مقدام نے یہ خبر سن کہ انا للہ وانا اليه راجعون پڑھا ایک شخص نے اس پر تعجب کیا اور کہا کیا تم اسے کوئی مصیبت خیال کرتے ہو؟ دوسرے نے کہا یہ ایک چنگاری تھی جسے خدا نے بجھا دیا ہے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ روایت صحیح ہے تو کیا سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ وفاتِ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے خوش ہوئے تھے اس کی تفصیل درکار ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   عصمت اللہ خانیوال

جواب:

یہ غلط ہے جب سیدنا حسنؓ کی وفات کی خبر سیدنا امیرِ معاویہؓ کو ملی تو آپ کے پاس سیدنا عبدالله بن عباسؓ بیٹھے تھے آپ ہاشمی ہونے کے ناطے سیدنا حسنؓ کے اقرباء میں سے تھے سیدنا امیرِ معاویہؓ نے یہ خبر سنتے ہی سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے تعزیت کی اور سیدنا ابنِ عباسؓ نے بھی بہت اچھے کلمات جواباً کہے۔ اس روایت کے ہوتے ہوئے کسی کمزور اور بے بنیاد روایت پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔

حافظ ابنِ کثیرؒ دمشقی (774ھ) جو اہلِ دمشق کو زیادہ جاننے والے ہیں روایت کرتے ہیں:

فلما جاء الكتاب بموت الحسن بن علىؓ اتفق كون ابن عباسؓ عند معاويةؓ و عزاه فيه باحسن تعزية ورد عليه ابن عباسؓ رد احسنا كما قد منا۔ 

(البدایہ جلد 8 صفحہ 304)۔ت

ترجمہ: جب سیدنا حسن بن علیؓ کی وفات کا خط آیا تو اتفاق سے سیدنا ابن عباسؓ امیر معاویہؓ کے پاس موجود تھے سیدنا معاویہؓ نے ان سے سیدنا حسنؓ کی وفات پر بڑے اچھے الفاظ میں تعزیت کی اور سیدنا عبداللّٰه بن عباسؓ نے بھی نہایت اچھے الفاظ میں اس کا جواب دیا جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔

امیر معاویہؓ نے سیدنا ابن عباسؓ کو یہ بھی کہا ۔

لا يسںٔوك اللّٰه ولا يحزنك في الحسن بن على فقال ابن عباس لمعاوية لا يحزنني اللّٰه ولا يوني ما ابقى اللّٰه امير المؤمنين۔ (ایضاً صفحہ 138)

ترجمہ: تمہیں خدا تکلیف سے بچائے اور سیدنا حسن بن علیؓ کے بارے میں غمگین نہ ہونے دے اس پر سیدنا ابنِ عباسؓ نے کہا اللہ تعالیٰ مجھے غمگین نہ ہونے دیں گے اور مجھے کوئی تکلیف نہ ہونے دیں گے جب تک امیر المؤمنین (سیدنا امیرِ معاویہؓ) زندہ ہیں۔

مقدام بن معدیکرب (87ھ) کی روایت جو آپ نے لکھی ہے بقیہ ابن الولید سے مروی ہے وہ جس سے عن (سے) کہہ کر روایت کرے محدثین اس کا اعتبار نہیں کرتے۔

قال ابو مسهر احاديث بقية ليست نقيه فكن منها على تقية قال ابن خزيمه لا احتح يبقيه۔ 

(میزان الاعتدال جلد 1)۔ 

ترجمہ: بقیہ کی روایت کردہ احادیث ستھری نہیں اُن سے بچ کر رہنا ابنِ خزیمہ کہتے ہیں میں بقیہ کی روایت سے سند نہیں لیتا۔

اور امام بیہقیؒ کہتے ہیں:

اجمعوا على ان بقية ليس بحجة۔ 

(تہذیب التہذیب جلد 1 صفحہ 478)۔

 ترجمہ: محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ بقیہ روایت میں لائق احتجاج نہیں ہے۔

پھر یہ کہنے والا کہ کیا تم سیدنا حسنؓ کی وفات کو مصیبت سمجھتے ہو؟ کون تھا روایت میں جو اسے قال فلاں سے ذکر کیا گیا ہے اسے سیدنا امیرِ معاویہؓ کا قول بتانا کیسے صحیح ہوسکتا ہے پھر معلوم نہیں یہ کہنے والا کون تها جمرة اطفاءالله اتنا تو پتہ چلتا ہے کہ وہ بنو اسد میں سے تھا لیکن کون تھا اس کا پتہ نہیں مل سکا معلوم ہوتا ہے یہ تینوں باتیں ان تین آنے والوں کے مابین ہی ہوئی ہیں سیدنا امیرِ معاویہؓ ان میں شامل نہیں ہوئے

پھر اس روایت میں یہ بھی ہے کہ سیدنا مقدامؓ نے اس ناراضگی میں کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کی مجلس میں ایسی باتیں کیوں ہوئیں سیدنا امیرِ معاویہؓ پر کچھ الزامات لگائے جن میں ایک اعتراض کی ریشم پہنے کا تھا یہ الزام دوسری شہادت کے قطعاً خلاف ہےسیدنا امیرِ معاویہؓ نے خود کئی دفعہ خطبہ جمعہ میں بیان فرمایا کہ شرعیت میں مردوں کے لیے ریشم پہننا حرام ہے۔ (دیکھںٔیے مسند امام احمد جلد 4 صفحہ 92۔101 سنن نسائی جلد 2 صفحہ 243 المصنف لابنِ ابی شیبہ جلد 8 صفحہ 306) پھر یہ بات سیدنا مقدامؓ نے نہ صرف اس شخص کو غصہ دلانے کے ارادہ سے کہی جیسا کہ اس روایت میں تصریح ہے وہ اپنی بات سے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو خوش کرنا چاہتا تھا اور سیدنا مقدام اسے اس جسارت پر غمگین کرنا چاہتے تھے۔ واللہ اعلم

پھر روایت مذکورہ میں یہ الزام بایں الفاظ منقول ہے:

قال فوالله لقد رأيت هذا كله فی بيتك يا معاويةؓ۔

ترجمہ: سیدنا مقدامؓ نے کہا بخدا میں نے یہ سب کچھ آپ کے گھر میں ہوتا دیکھا ہے اے سیدنا معاویہؓ۔

یہ روایت امام بہیقیؒ نے بھی روایت کی ہے۔ 

(سنن کبریٰ جلد 3 صفحہ 277)۔

مگر اس میں یہ جملہ نہیں ہے کسی راوی نے یہ الفاظ بڑھا دیئے ہیں۔

اس صورت میں ہم اصولاً پابند ہیں کہ اس روایت کو ترجیح دیں جس سے صحابیہ کے بارے میں قرآنی فیصلے (کہ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے) کی تائید ہوتی ہو امام نووی فرماتے ہیں:

فان ما مورون بحسن الظن بالصحابة ونفى كل رذيلة عنهم واذا انسدت الطرق نسبنا الكذب إلى الرواة۔ 

(شرح مسلم جلد 2 صفحہ 90)۔

ترجمہ: ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں حسنِ ظن اور ان سے ہر برائی کی نفی کرنے کے مکلف ہیں اور جب کسی سند سے اس کی راہ نہ ملے تو اس الزام کو ہم کذب راوی پر محمول کریں گے سو بہتر یہی ہے کہ سیدنا مقدام کی اس روایت کو بقیتہ بن الولید راوی کی وجہ سے لائق اعتبار نہ مانا جائے اور حافظ ابنِ کثیر کی روایت کو ترجیح دی جائے کہ سیدنا حسنؓ کی وفات کو سیدنا امیرِ معاویہؓ نے واقعی ایک صدمہ جانا تھا۔

آپ سیدنا حسنؓ سے تو خوش تھے کہ انہوں نے خلافت اُن کے سپرد کردی تھی اور پھر کوفہ میں رہائش بھی ترک کردی تھی جو مفسدین کا مرکز تھا اپنے بھائی سیّدنا حسینؓ کو بھی آپ نے اس صلح سیدنا امیرِ معاویہؓ کا پابند کیا ہوا تھا آپ کی وفات سے آپ کو یہ اندیشہ تو لاحق ہوسکتا ہے کہ آئیندہ سیدنا حسینؓ ان کے بارے میں کسی پالیسی پر چلتے ہو اس میں آپ کے لیے خوشی کی کوئی بات نہیں جس اسدی نے یہ کہا کہ یہ ایک چنگاری تھی جو خدا نے بجھا دی ہے محض خوشامد کے طور پر کہی ہوگی اور ظاہر ہے کہ یہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کا انداز فکر نہ تھا۔ 

پھر یہ کہنا کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ نے اُسے روکا کیوں نہیں یہ صرف سیدنا مقدام کے احترام میں تھا کہ جب وہ ان کے ساتھ سیدنا امیرِ معاویہؓ کے پاس آیا ہے تو نامناسب ہے کہ آپ اسے ٹوکیں اس کی تردید آپ کے خیال میں سیدنا مقدام کے ذمہ تھی اور وہ آپ نے کی۔

سیدنا امیرِ معاویہؓ کے گھرمیں ریشم اور سونا کون پہنتا تھا اس کی نشاندہی کی جائے اس کی روایت میں وضاحت نہیں اور یہ بات مسلّم ہے کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ خود تو نہیں پہنتے تھے وہ تو علی الاعلان اس کے خلاف روایات پیش کرتے تھے۔ 

واللہ اعلم بالصواب۔