کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت علیؓ کا اپنے والیوں پر مکمل کنٹرول نہ تھا ان کے والی اپنے علاقوں میں ظلم کرتے تھے مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کو روکتے نہ تھے کیا یہ صحیح نہیں کہ آپ کے عامل جاریہ بن قدامہ نے نجران میں ان لوگوں کو جلا ڈالا جو امام مظلوم سیدنا عثمانؓ کے حق میں صدا بلند کرتے تھے کیا یہ جلانا سزا شرعی ہے؟ اگر نہیں تو کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ راشد کہا جاسکتا ہے؟ کیا وہ شخص خلیفہ کہلا سکتا ہے جس کی دشمنوں پر گرفت نہ ہو؟
سوال پوچھنے والے کا نام: خورشید عباس ملتانجواب:
یہ صحیح ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کا اپنی افواج پر مکمل کنٹرول نہ تھا ان میں وہ لوگ بھی گھس آئے تھے جو سیدنا عثمانؓ کے خلاف شریکِ بغاوت تھے اور سیدنا علیؓ ان سے سخت بیزار تھے مگر یہ ایک مجبوری تھی جو وقتی طور پر سیدنا علیؓ کی حکومت کو عارض ہوئی لیکن چونکہ آپ کی بیعت کرنے والے زیادہ تر وہ لوگ تھے جنہوں نے سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ کی بیعت کی تھی اس لیے آپ پر اس تسلسل سے مسلسل تھے اور اپنے وقت کے خلیفہ راشد تھے آپ سیدنا عثمانؓ کے قاتلوں سے ہرگز ہرگز راضی نہ تھے انہیں گرفت میں نہ لینا یا نہ لے سکنا یہ ایک وقتی مجبوری تھی آپ خود فرماتے ہیں:
كيف لى بقوة والقوم المجليون على حد شوكتهم يملكوننا ولا نملكهم۔
(نہج البلاغہ جلد 1 صفحہ 315)۔
ترجمہ: میرے پاس اس کی طاقت کہاں ہے اور جو لوگ اپنی پوری طاقت سے چھائے ہوتے ہیں یہ ہم پر حکومت چلا رہے ہیں ہم ان پر کیا حکومت چلائیں۔
اور آپ کو یہ تسلیم تھا کہ خلیفہ وہی ہونا چاہیئے جو ظالموں اور باغیوں پر ہاتھ ڈال سکے قوی اس کے نزدیک کمزور ہو اور کمزور قوی کہ اپنا حق طلب کرسکے آپ نے فرمایا ہے ايها الناس ان احق الناس بهذا الامر اقواهم عليه واعلمهم بامر اللّٰه فيه۔
(ایضاً صفحہ 321)
ترجمہ: اے لوگو! خلافت کا سب سے زیادہ حقدار وہی ہے جو ان سب میں قوت میں زیادہ ہو اور حکمِ خداوندی کو اس باب میں سب سے زیادہ جاننے والا ہو۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے بھی اپنے خطبہ خلافت میں حکومت کی یہ ذمہ داری بتلائی تھی کہ ملک کا قوی ترین آدمی بھی حکومت کے ہاں کمزور ہو حکومت اس پر اس کے ظلم کے خلاف ہاتھ ڈال سکے جاریہ بن قدامہ نے نجران میں لوگوں کو نہیں جلایا تھا اس نے ان کے گاؤں جلائے تھے ہاں ان لوگوں کو اس نے قتل کیا تھا لیکن جلایا نہ تھا ابنِ کثیرؒ لکھتے ہیں:
فسار حتٰى بلغ نجران فحرق بها وقتل اناسا من شيعة عثمانؓ۔
(البدایہ جلد 7 صفحہ 322)۔
ترجمه: وہ چلا یہاں تک کہ نجران پہنچا اس نے اس بستی کو جلایا اور وہاں ان لوگوں کو قتل کیا جو اپنے کو سیدنا عثمانؓ کی پارٹی کہتے تھے۔
رہا یہ امر کہ سیدنا علیؓ نے اس ظلمِ عظیم پر جاریہ بن قدامہ کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہ کی؟ سو یہ بات یاد رکھیئے کہ جو لوگ اپنے عہدے کا غلط استعمال کریں اسلام میں انہیں عہدے سے تو ہٹایا جاسکتا ہے لیکن ان پر ان کے اس وقت کے غلط فیصلوں کے خلاف کیس نہیں چلایا جاسکتا ورنہ کوئی شخص حکومت کے کسی عہدے کو قبول نہ کرے گا سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے ججوں کی دی ہوئی سزا کو تو ختم کرسکتا ہے لیکن ہائی کورٹ کے ان ججوں کے خلاف کوئی کیس دائر نہیں کرتا کہ انہوں نے ایسا فیصلہ کیوں لکھا اپنے عہدوں کو اپنی صوابدید کے مطابق استعمال کرنا یہ اس عہدے کا آئینی حق ہے اگر کوئی اسے غلط استعمال کرے تو اسے اس کے عہدے سے ہٹادو یہ نہیں کہ اس نے ایسا فیصلہ کیوں لکھا تھا؟۔
حاکم اپنی صوابدید کے مطابق عمل نہ کرسکے تو وہ حکومت خاک کرے گا سو سیدنا امیرِ معاویہؓ یا سیدنا على المرتضیٰؓ اپنے والیوں کے ایسے مظالم کے خلاف اگر کوئی کارروائی نہیں سکے تو اسے اس صورت مسئلہ پر محمول کرنا چاہیئے نہ کہ یہ کہنے لگ جاؤ کہ سیدنا علیؓ خلیفہ راشد نہ تھے یا یہ کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ خلیفہ عادل نہ تھے ایسا ہرگز نہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین الله اور اس کے رسول پر برحق کے ہر حکم کو اپنی رائے اور صوابدید سے مقدم سمجھتے تھے۔
جاریہ بن قدامہ پر لوگوں کو جلانے کا جو الزام ہے وہ یہاں کا نہیں کوفے کے علاقے کا ہے ہاں قاصد عبداللہ بن عمرو حضرمی ٹہرا ہوا تھا جو انہیں حضرت عمرو بن عاص کا ساتھ دینے کے لیے کہنے آیا تھا ان دنوں وہاں سیدنا علی المرتضیٰؓ کی طرف سے زیاد علاقہ والی تھا زیاد بنوتمیم کا اختلاف ہوا تو سیدنا علیؓ نے جاریہ بن قدامہ تمیمی کو وہاں بھیجا اس نے اس قاصد اور عبداللہ بن عمرو حضرمی اور اس کے ساتھیوں کو جو چالیس سے زیادہ تھے زندہ جلادیا تھا۔
حافظ ابنِ کثیرؒ لکھتے ہیں:
وقصده جارية فحصره فی دار هو و جماعة معه فحرقهم بالنار۔
(البدایہ جلد 7 صفحہ 316)۔
ترجمہ: جاریہ بن قدامہ نے عبدالله بن عمرو حضری کا تعاقب کیا اور اسے اور اس کے ساتھیوں کو ایک جگہ محصور کرلیا اور پھر انہیں آگ سے جلادیا۔
حافظ شمس الدین الذہبیؒ بھی لکھتے ہیں:
فاحرق عليه الدار فاحترق فيها خلق۔
(تاریخ الاسلام للذہبی جلد 2 صفحہ 214)۔
ترجمہ: سو اس نے گھر کو ہی آگ لگادی جس میں بہت سے لوگ جل گئے۔
کیا سیدنا علیؓ نے جاریہ قدامہ کو اس غیر شرعی اقدام پر کوئی سزا دی؟ نہیں لیکن اس پر ہم سیدنا علی المرتضیٰؓ کو ملزم نہیں کرسکتے افسران کو اس قسم کی غلطیوں پر ہٹایا تو جاسکتا ہے لیکن ان پر اس قسم کے واقعات سے قصاص عائد نہیں کیا جاسکتا عہدے کے غلط استعمال پر عام سزا نہیں دی جاسکتی۔
سیدنا علیؓ کا یہ جرنیل جاریہ بن قدامہ اس قدر ظالم تھا کہ جب یہ مدینہ آیا تو سیدنا ابو ہریرہؓ جو ان دنوں مسجدِ نبوی کے امام تھے وہاں سے چلے آئے جب تک یہ جاریہ وہاں رہا آپ واپس نہیں آئے جب وہ چلا گیا تو سیدنا ابو ہریرہؓ واپس مدینہ لوٹ آئے اور مسجدِ نبوی میں حسب سابق نماز پڑھانے لگے سیدنا علیؓ کا یہ عامل یقیناً بڑا ظالم تھا۔
ثم خرج منصرفا الى الكوفة وعاد ابو هريرة فصلى بھم۔ (ابنِ جریر طبری جلد 6 صفحہ 81 البدایہ جلد 7 صفحہ 322)۔
ترجمہ: پھر یہ مدینہ سے کوفہ جانے کے لیے نکلا اور سیدنا ابو ہریرہؓ پھر مدینہ چلے آئے اور لوگوں کو نماز پڑھانے لگے۔
اب ان تمام مظالم کو سیدنا علیؓ کے ذمہ لگانا یابسر بن ارطاۃ کے مظالم کو سیدنا امیرِ معاویہؓ کے ذمہ لگانا صرف انہی لوگوں کا کام ہوسکتا ہے جو حکومت کی ذمہ داریوں اسلام کے قانون قصاص اور بلووں میں ہوئے فسادات اور واقعات قتل کے قانونی تقاضوں کو نہ سمجھتے ہوں۔
سیدنا علیؓ یقیناً خلیفہ راشد تھے اور سیدنا امیرِ معاویہؓ اپنے عہدِ خلافت میں بلاشبہ خلیفہ عادل تھے سیدنا علیؓ کے عہد میں ان کا انکار خلافت محض ایک شبہے کی بناء پر تھا اور ظاہر ہے کہ شہبے کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو ملتا ہے یہ وہ بین الاقوامی قانون ہے جسے کوئی عدالت مسترد نہیں کرسکتی۔ واللہ اعلم
سیدنا امیرِ معاویہؓ کے عامل بسر بن بن ارطاة نے جب یمن سیدنا عبیداللہ بن عباسؓ سے لینا چاہا اور سیدنا عبید الله بن عباسؓ کوفہ چلے آئے اور یمین اور حجاز پر سیدنا امیرِ معاویہؓ کا قبضہ ہوگیا تو سیدنا امیرِ معاویہؓ نے بسر بن ارطاۃ کی کسی زیادتی پر ان سے مؤاخذہ نہیں کیا۔ حکومتیں ایسے حالات میں اپنے والیوں کو تبدیل تو کر دیتی ہیں لیکن ان پر تعزیرات جاری نہیں کرتیں۔
سیدنا علی المرتضیٰؓ کے عامل الاشتر نے جب لوگوں کو سیدنا امیرِ معاویہؓ کے خلاف بھڑکایا تو بنو خزارہ کا ایک آدمی اریبہ نامی کھڑا ہوگیا تھا اس نے کوئی اعتراض کیا تو اشتر نے لوگوں کو کہا اسے پکڑو جانے نہ پائے اور لوگوں نے اسے وہیں مار مار کر ہلاک کردیا۔
(دیکھںٔیے وقعۃ صفین نصر بن مزاحم الشیعی صفحہ 106)۔
سیدنا علیؓ نے اشتر پر قصاص عائد نہیں کیا اور چونکہ یہ قتل بے جا تھا اس لیے بیتُ المال سے اس کی دیت ادا کردی سو سیدنا علیؓ پر اس پہلو سے کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا وہ یقیناً خلیفہ راشد تھے عاملوں کی غلطی میں خلیفہ کی نیت کو مجروح نہیں کیا جا سکتا۔
واللہ اعلم بالصواب۔