کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت معاویہؓ کے عامل بسر بن ارطاۃ نے حضرت عبیدالله بن عباسؓ کے دو بچوں (عبد الرحمٰن اور قثم) کو قتل کر ڈالا ان بچوں کا کیا قصور تھا؟
سوال پوچھنے والے کا نام: عبدالرحمٰن ملکجواب:
یہ بات طبری نے ضرور نقل کی ہے لیکن حافظ ابنِ کثیرؒ نے اس پر اعتراض کیا ہے فرماتے ہیں:
وفی صحته عندی نظر۔
(البدایہ جلد 7 صفحہ 322)۔
اور اس کے صحیح ہونے میں مجھے کلام ہے۔
پھر ان حالات کو نقل کرنے والے اور حضرات بھی ہیں مگر وہ بچوں کے قتل کے اس واقعہ کو ذکر نہیں کرتے ہے۔ (دیکھںٔیے الاصابہ جلد 2 صفحہ 431 طبقات لابنِ سعد جلد 7 صفحہ 130 تاریخ خلیفہ بن خیاط جلد 1 صفحہ 183)۔
سو ہمیں یہ تسلیم نہیں کہ بسر بن ارطاۃ نے ایسا کیا ہو۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو حضرت عبیدالله بن عباسؓ کسی طرح حضرت امیر معاویہؓ سے راضی نہ رہ سکتے تھے وہ اس وقت وہاں موجود تھے جہاں حضرت حسنؓ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں صلح ہورہی تھی انہوں نے وہاں یہ سوال نہ اٹھایا تھا کہ ان کے بچے کیوں بے گناہ مارے گئے تھے اتنے اہم واقعہ پر وہ کیسے خاموش رہ سکتے تھے۔
شیعہ علماء تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ حضرت عبید الله بن عباس رضی اللہ عنہ اس صلح سے پہلے سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ سے مل گئے تھے اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے لشکر کو بلا قائد چھوڑ آئے تھے رجال کشی میں ہے۔
مر بالراية ولحق بمعاويةؓ وبقى العسكر بلا قائد ولا رئيس۔
(رجال بامقانی جلد 3 صفحہ 239)۔
ترجمہ: آپ سیدنا امیر معاویہؓ سے آملے اور آپ کا لشکر (جس کے آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے قائد تھے) بلاقائد اور سردار رہ گیا۔
سو اگر یہ واقعہ (بچوں کے قتل کا) کہیں عمل میں آیا ہوتا تو حضرت عبیداللہ بن عباسؓ سیدنا امیرِ معاویہؓ سے نہ ملتے اور کیا آپ پھر یہ کہہ سکتے تھے:
ان ابن عباسؓ قال لله در ابن هند ولينا عشرين سنة ما اذا انا على ظهر منبر و لا بساط صيانه منه لعرضه و اعراضنا ولقد كان يحسن صلتنا ويقضى حواںٔجنا۔
(انساب الاشراف للبلاذری جلد 4 صفحہ 68)۔
ترجمہ: ابن ہند کتنے اچھے ہیں ہم پر بیس سال کے قریب حکمران رہے آپ نے ہمیں نہ منبر پر نہ فرش پر کبھی کوئی اذیت نہ دی اپنی عزت اور ہماری عزت کی حفاظت کے طور پر آپ ہمارے تعلق کا پورا لحاظ کرتے اور ہماری ضرورتیں پوری کرتے۔
سو اگر سیدنا امیرِ معاویہؓ کے دور میں اس قدر ظلم ہوتا تو نا سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ ان کے وظائف قبول کرتے اور ان کے ہاتھ میں بیعت کا ہاتھ دیتے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسی داستانیں بیشتر وضعی ہیں اور یہود کی ایجاد ہیں جنہیں کمزور راوی اچک لیتے ہیں اور اور روایت کرنے لگ جاتے ہیں وللتحقیق مقام آخر۔
واللہ اعلم بالصواب و علمہ اتم و احکم فی کل باب۔