الله اور اس کے رسول کی معیت صرف مومنوں کے لیے ہے یا یہ شرف و مرتبہ کافروں اور منافقوں کو بھی مل سکتا ہے۔
2۔ صحابی حضورﷺ کے پاس بیٹھنے والے مومنین کو ہی کہا جاتا ہے یا یہ لفظ پاس بیٹھنے والے منافقین پر بھی بولا جاسکتا ہے۔
3۔ یہ جو فقہاء لکھتے ہیں کہ سیدنا ابوبکرؓ کی صحابیت کا منکر کافر ہے کیوں کہ یہ نص قرآن سے ثابت ہے اس سے ان کو مومن ماننا بھی لازم آتا ہے یا مطلق صحبت اور ہمنشینی مراد ہے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: (قاری) مقبول الرحمٰن توحید نگر لاہورجواب:
الله تعالیٰ اور اس کے رسول پاک کی معیت کافروں منافقوں اور غافلوں کے لیے نہیں۔
قرآن پاک پارہ 6 المائدہ رکوع 2 آیت 12 میں ہے:
وَقَالَ ٱللَّهُ إِنِّى مَعَڪُمۡۖ لَٮِٕنۡ أَقَمۡتُمُ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَيۡتُمُ ٱلزَّڪَوٰةَ وَءَامَنتُم بِرُسُلِى وَعَزَّرۡتُمُوهُمۡ الخ۔
ترجمہ: اور کہا الله تعالیٰ نے میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم قائم رکھو نماز اور دیتے رہے زکوٰۃ اور ایمان لاؤ میرے رسولوں پر اور ان کی مدد کرتے رہو۔
اس سے یہی سمجھ میں آسکتا ہے کہ الله تعالیٰ کی معیت کا شرف مومنین کے لیے ہے دوسروں کے لیے نہیں اسی طرح حضورﷺ کی معیت پانے والوں کو کہا اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ الخ۔ (سورۃ الفتح;آیت 29) اس سے معلوم ہوا کہ وہ خود کافروں میں سے نہیں ہوسکتے اور ساتھ ہی فرمایا رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡۖ الخ۔ (سورۃ الفتح;آیت 29) کہ آپس میں یہ ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوں گے یہ بینھم کا لفظ کفار کے مقابلہ میں ہے:
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰهِ ؕ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡۖ (پارہ 26 رکوع 4 سورۃ الفتح آیت 29)۔
2۔ صحابی اسے کہتے ہیں جس نے بحالتِ ایمان حضورﷺ کو ظاہری آنکھ سے دیکھا ہو محض خواب اور کشفی حالت میں دیکھنے والے صحابیت کو نہیں پاسکتے اصطلاح شرع میں پاس بیٹھنے والے کافر یا منافق پر یہ لفظ صادق نہیں آسکتا الله تعالیٰ نے حضورﷺ کو منافقین کی ہمنشینی سے روک دیا تھا:
فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّكۡرٰى مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَ۔
(پارہ 7 سورۃ الانعام رکوع 7 آیت 68)۔
ترجمہ: تو یاد آنے کے بعد کافروں کی معیت میں مت بیٹھ۔
سو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حضوﷺ اس حکمِ الٰہی پر عمل نہ کریں اور ظالمین و غافلین مدتوں آپ کی معیت میں رہیں۔
3۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کی صحابیت جس کا منکر کافر ہے صرف صحبت مطلقہ نہیں الله اور اس کے رسولﷺ برحق کی معیت میں ہونے کا نام ہے آپ کی صحابیت حضورﷺ کے ساتھ بحالتِ ایمان تھی بلاایمان کوئی شخص الله اور اس کے رسول خاتمﷺ کی معیت سے سرفراز نہیں ہوسکتا قرآنِ کریم میں ہے:
اِلَّا تَـنۡصُرُوۡهُ فَقَدۡ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذۡ اَخۡرَجَهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ اِذۡ يَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا الخ ( پارہ 10 سورۃ التوبہ آیت 40)۔
ترجمہ: اگر تم مدد نہ کرو اس رسول کی تو اس کی مدد الله کرچکا جب اس کو کافروں نے (مکہ سے) نکالا تھا وہ دوسرا تھا دو میں کا جب وہ دونوں غار میں تھے جب وہ (رسول) اپنے صاحب سے کہہ رہا تھا غم نہ کر بے شک الله ہمارے (ہم دونوں کے) ساتھ ہے پھر اتاری الله تعالیٰ نے اس پر تسکین۔
یہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نہ صرف صحابیت منصوص ہے بلکہ آپ کا اللہ اور اس کے رسول پاکﷺ کی معیت پائے ہوئے ہونا بھی نصِ قرآن میں موجود ہے سو جو شخص سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا صحابی رسول اور مومن اور الله اور اس کے رسول کا معیت یافتہ ہونا نہ مانے وہ مسلمان نہیں مانا جاسکتا کیونکہ وہ قرآنِ پاک کا منکر ہے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ کی صحابیت کا منکر کافر ہے۔
یہ غار کی صحبت اگر مطلق ہمشینی ہوتی تو اس میں فضیلت کی کوئی بات نہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک فضیلت شمار فرمایا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں اخلاص و ایمان کی معیت مراد ہے اور یہ وہ نصرتِ نبویﷺ ہے جسے الله تعالیٰ نے دوسرے کل انسانوں کی نصرتِ نبویﷺ پر قائق کیا ہے اِلَّا تَـنۡصُرُوۡهُ فَقَدۡ نَصَرَهُ اللّٰهُ الخ۔ آنحضرتﷺ جب سیدنا علیؓ کو سورہ برأة دے کر مکہ بھیجنے لگے تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو یہ کہہ کر تسلی دی:
اما ترضىٰ يا ابابكرؓ انك صاحبی فی الغار۔
(تفسیر فرات صفحہ 59)۔
ترجمہ: کیا تو اس سے راضی نہیں کہ تو میرا غار کا ساتھی ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ غار کی صحبت ایک بڑی فضیلت تھی اور یہ تبھی ہوسکتا ہے کہ یہاں مطلق ہمنشینی مراد نہ ہو ایمان و اخلاص کے ساتھ یہ دونوں غار میں الله کی معیت میں ہوں اس مقام صحابیت کا انکار قرآن کا انکار ہے اور یہ واقعی کفر ہے۔