Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

شیعہ قرآن پاک کو اس موجودہ ترتیب کے اعتبار سے صحیح نہیں مانتے ہوسکتا ہے وہ اس آیت کو جس میں سیدنا ابوبکرؓ ثانی اثنین میں شمار کئے گئے ہیں محرف مانتے ہوں کیا اس صورت میں بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا منکر کافر شمار ہوتا ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   قاسم

جواب:

قرآنِ پاک کا منکر بھی تو کافر ہی ہے خواہ ایک آیت کا انکار کیوں نہ کرے اگر کوئی شخص قرآنِ مجید کو اس کی موجودہ ترتیب میں صحیح نہ مانے تو وہ ایمان بالقرآن نہ ہونے کے باعث مسلمان نہیں رہے گا۔۔

اور شیعہ کے ہاں موجودہ قرآن کا انکار متواترات میں سے ہے جس طرح اہلِ سنت کے ہاں قرآنِ کریم کی آیت آیت متواتر ہے شیعہ کے ہاں موجودہ قرآن کا محرف اور مبدل ہونا متواتر ہے ان کے گیارہویں صدی کے محق ملا حسن کاشانی (190ھ) لکھتے ہیں:

المستفاد من جميع هذه الاخبار وغيرها من طريق اهل البيت عليهم السلام ان القرآن الذی بين اظهرنا ليس بتمامه كما انزل على محمدﷺ بل منه ما هو خلاف ما انزل الله و منه ما هو مفيق محرف وانه قد حذف عنه اشياء كثيرة منها اسم علی عليه السلام فی كثير من المواضع ومنها الفظة آل محمدﷺ غير مرة ومنها اسماء المنافقين فی مواضعها ومنها غير ذالك وانه ليس ايضا على الترتيب الرضى عند الله وعند رسولهﷺ وبه قال على بن ابراهيم۔ 

(تفسیر الصافی جلد 1 صفحہ 32)۔

*ترجمہ:* ان سب احادیث اور اہلِ بیت کی دیگر روایات سے یہی ثابت ہے کہ یہ قرآن جو اس وقت ہمارے سامنے ہے یہ پورا نہیں جیسا کہ آنحضرتﷺ پر اترا تھا بلکہ اس میں 

  1. ایسی باتیں ہیں جو الله کے نازل کردہ کلام کے خلاف ہیں اور:
  2. ایسی بھی ہیں جن میں تبدیلی کی گئی اور وہ تحریف شدہ ہیں اور:
  3. اور ان میں سے بہت چیزیں نکال دی گئی ہیں انہی میں سے سیدنا علیؓ کا نام بھی تھا جو بہت سے مقامات میں تھا اور انہی میں لفظ آل محمد بھی تھا جو کئی جگہ تھا اور:
  4.  انہی میں کئی مقامات پر منافقین کے نام بھی تھے اس کے علاؤہ اور بھی کئی باتیں تھیں اور یہ بات بھی ہے کہ موجودہ قرآن اس ترتیب پر نہیں جو الله اور اس کے رسول کے ہاں پسندیدہ تھی اور یہی بات مشہور مفسر علی بن ابراہیم نے کہی ہے۔

علی بن ابراہیم القمی (307ھ) ان کے قدماء میں سے ہے شیخ مفید (413ھ) اور شیخ مرتضیٰ (436ھ) اس کے بعد کے ہیں یہ اگر تحریف کا انکار کریں اور موجودہ قرآن کو مصرف ماننے والے کو کافر بھی نہ کہیں تو ظاہر ہے کہ ان کا یہ انکار تقیہ پر مبنی ہوگا ان کے چھٹی صدی ہجری کے ثقہ شیعی عالم ابومنصور احمد الطبرسی لکھتے ہیں:

ولو شرحت كلما اسقط و حرف و بدل مما يجرى هذا المجرى وطال و ظهر ما تحظر التقية الظهاره من مناقب الأولياء ومثالب الاعداء۔ 

ترجمہ: اور اگر میں تمہارے سامنے کھول دوں کہ کیا کچھ قرآن سے نکالا گیا اور بدلا گیا اور اس میں تحریف کی گئی تو بات لمبی ہوجائے گی تقیہ جس کے اظہار کو روکتا ہے۔

یہاں تقیہ کا لفظ قابلِ غور ہے تقیہ مانع رہا کہ یہ لوگ قرآنِ پاک کی زیادہ غلطیاں نہ نکالیں ورنہ ان کے ہاں دلائل تحریف کی کو ئی کمی نہ تھی۔

علی بن ابراہیم القمی سے بھی پہلے کے مفسر علامہ فرات بن ابراہیم الکوفی کھلے بندوں تحریف قرآن کے قائل ہیں اور اس وقت تک کسی شیعہ عالم نے تحریف قرآن کا انکار نہ کیا تھا چار منکرین تحریف ان کے بعد کے ہیں اور وہ نظریہ ضرورت کے تخت اس کا انکار کر رہے ہیں اور علامہ محمد بن یعقوب الکلینی (328ھ) الله سے بطریقِ تواتر موجودہ قرآن میں تحریف کا اقرار کرتے ہیں علامہ فرات دو واسطہ سے علی بن ابراہیم القمی کے استاد ہیں اور مفسر قمی علامہ کلینی کے استاد ہیں علامہ فرات بن ابراہیم لکھتے ہیں سیدنا باقرؒ نے ایک آیت اس طرح پڑھی:

ان اللّٰه اصطفى آدم و نوحا وال ابراهيم وال محمد على العالمين۔

موجودہ قرآنِ کریم میں آلِ محمد کے الفاظ نہیں آلِ عمران کے الفاظ ہیں عمران حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نانا کا نام تھا شیعوں نے چاہا کہ یہاں حضرت عیسیٰ کے نانا کا نہیں سیدنا حسینؓ کے نانا کا نام ہو انہوں نے آل عمران کو لفظ آل محمد سے بدل دیا اس پر علامہ قرات لکھتے ہیں:

ادخل حرف مكان حرف به۔

ترجمہ: آلِ عمران کے الفاظ آلِ محمد کی جگہ (قرآن میں) داخل کر دیئے گئے ہیں۔ 

علی بن ابراہیم القمی کہتے ہیں اصل قرآن میں آلِ عمران اور آلِ محمد دونوں الفاظ تھے۔ 

(دیکھیے تفسیر قمی صفحہ 54 طبع)۔

شیعہ متاخرین بھی یہ فیصلہ نہیں کرسکے کہ علی بن ابراہیم القمی اور فرات بن ابراہیم دونوں میں سے کون سچا ہے ہم تو ان میں سے کسی کو سچا نہیں سمجھتے جو قرآنِ کریم کو صحیح اور محفوظ کتاب نہ مانے وہ کیسے مسلمان ہوسکتا ہے قرآن ہی تو اسلام کی بنیاد ہے اب علامہ کلینی (328ھ) سے بھی سنںٔیے کس طرح ائمہ اہلِ بیت کے نام پر چھوٹ گھڑتے جارہے ہیں:

عن جابر قال سمعت ابا جعفر عليه السلام يقول ما ادعى احد من الناس انه جمع القرآن كله كما انزل الاكذاب وما جمعه وحفظه لما نزل الله تعالیٰ الاعلى ابن طالب والائمة من بعده عليه السلام۔ 

(اصول کافی کتاب الحجہ جلد 1 صفحہ 228)۔

ترجمہ: جابر سے روایت ہے اس نے کہا میں نے سیدنا باقرؒ سے سنا لوگوں میں سے کوئی دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس نے سارا قرآن اس طرح جمع کیا ہو جیسا کہ یہ اترا تھا جو ایسا دعوےیٰ کرے وہ کذاب ہوگا اس کو نہ نزول کے مطابق نہ کسی نے جمع کیا نہ کسی نے یاد کیا مگر حضرت علیؓ ابن ابی طالب نے اور ان کے بعد آنے والے ائمہ نے۔

قرأ رجل على الحج عبدالله عليه السلام واذا استمع حروفاً من القرآن ليس على ما يقرؤها الناس فقال ابی عبدالله عليه السلام كف عن هذه القرأة اقرأ كما يقرأ الناس حتىٰ يقوم القاںٔم فاذا قام القائم قرء كتاب الله عزوجل علی حده واخرج المصحف الذک كتبه على عليه السلام۔ 

(اصول کافی جلد 2 صفحہ 632)۔

ترجمہ: سیدنا جعفر صادقؒ کے سامنے ایک شخص نے قرآن پڑھا اور میں ایسے حروف سنتا رہا جو لوگوں کے قرآن پڑہنے کے مطابق نہ تھے سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا اس طرح نہ پڑھ اسی طرح پڑھ جس طرح لوگ پڑہتے چلے آرہے ہیں یہاں تک امام مہدی کا نزول ہو جب آپ آئیں گے تو اس وقت قرآن کریم اپنی اصل پر پڑھا جائے گا اور وہ قرآن لایا جائے گا جو سیدنا علیؓ نے لکھا تھا۔

وَلَـقَدۡ عَهِدۡنَاۤ اِلٰٓى اٰدَمَ مِنۡ قَبۡلُ فَنَسِىَ وَلَمۡ نَجِدۡ لَهٗ عَزۡمًا۝۔

(پارہ 16 زوة طٰهٰ آیت 15)۔

ترجمہ: اور آدم علیہ السلام کو ہم نے پہلے ہی ایک حکم دیا تھا پس وہ اس کو بھول گئے اور ہم نے ان میں پختگی نہ پائی۔

کافی میں جناب سیدنا جعفر صادقؒ سے خدا تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں منقول ہے کہ واللہ ! جناب رسولِ خداﷺ پر یہ آیت اس طرح نازل ہوئی تھی:

ولقد عهدنا الى أدم من قبل كلمات فی محمد و على وفاطمة والحسن والحسين والأئمة من ذريتهم (فنسى) هكذا و الله نزلت على محمدﷺ۔ 

(اصولِ کافی جلد 1 صفحہ 416 حاشیہ ترجمہ مقبول صفحہ 637)۔

ترجمہ: اور آدم علیہ السلام کو ہم نے پہلے سے محمدﷺ علیؓ فاطمہؓ حسنؓ حسینؓ اور ان کی ذریت کے اںٔمہ کے بارے میں حکم دیا تھا سو آدم علیہ السلام بھول گئے خدا کی قسم حضور پر یہ آیت اسی طرح نازل ہوئی تھی۔

اب علامہ علی بن ابراہیم القمی اور اس دورِ آخر کے ملا مقبول دہلوی کے چند حوالے اور پڑہیئے:

ثُمَّ يَاۡتِىۡ مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِكَ عَامٌ فِيۡهِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيۡهِ يَعۡصِرُوۡنَ۝۔

(پارہ 12 سورۃ یوسف آیت 49)

ترجمہ: پھر اس کے بعد ایک ایسا برس آئے گا کہ جس میں لوگ سیر و سیراب ہوجائیں گے اور جس میں وہ نچوڑیں گے۔

تفسیر قمی میں جناب سیدنا جعفر صادقؒ سے منقول ہے کہ آنجناب امیرالمومنینؓ کے سامنے ایک شخص نے یہ آیت یوں تلاوت کی حضرت نے فرمایا وائے ہو تجھ پر کیا نچوڑیں گے؟ آیا خمر نچوڑیں گے؟ اس شخص نے عرض کی یا امیر المومنین پھر میں اسے کیوں کر پڑھوں؟ خدا نے یوں نازل فرمائی ہے:۔

ثم يأتی من بعد ذلك عام فيه يغات الناس وفيه يعصرون۔ (تفسیر قمی صفحہ 192)۔

یعنی یصیرون کو مجہول بتلایا جس کے معنیٰ ہیں اس کو بادلوں سے پانی بکثرت دیا جائے گا۔ 

حاشیہ ترجمہ مقبول میں آیت پر لکھا ہے:

شراب خور خلفاء کی خاطر یُعْصَرُون کو یَعصرون سے بدل کر زیر وزبر کیا گیا ہے۔ 

(ترجمہ مقبول صفحہ 479)

ذٰلِكَ بِاَنَّهُمۡ كَرِهُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ فَاَحۡبَطَ اَعۡمَالَهُمۡ (پارہ 26 سوره محمد آیت 9)۔ 

ترجمہ: یہ اس لیے کہ اللہ نے جو کچھ اتارا اس سے انہوں نے نفرت کی بس اس نے بھی ان کے اعمال اکارت کردیئے۔

تفسیر قمی میں جناب سیدنا محمد باقرؒ سے منقول ہے کہ جبریل امین نے جناب رسول خداﷺ‎ کو یہ آیت یوں پہنچائی تھی۔

ذلك بانهم كر هوا ما انزل اللّٰه فی على یہ اس لیے کہ انہوں نے اسے ناپسند کیا جو الله نے سیدنا علیؓ کے بارے میں اتارا مگر مرتدین کے نام اڑادیا۔ 

(ترجمہ مقبول صفحہ 1011)۔

وَاَصۡحٰبُ الۡيَمِيۡنِ مَاۤ اَصۡحٰبُ الۡيَمِيۡنِؕ۝فِىۡ سِدۡرٍ مَّخۡضُوۡدٍۙ۝ وَّطَلۡحٍ مَّنۡضُوۡدٍۙ۝۔ 

(پارہ 27 سورۃ الواقعہ آیت 29)

ترجمہ: اور داہنے ہاتھ والے کیا کہنے داہنے ہاتھ والوں کے وہ بغیر کانٹوں کے جھکی ہوئی بیریوں بیریوں میں ہوں گے اور تہ بہ تہ کیلوں ہیں۔

ترجمہ مقبول کے حاشیہ پر ہے:

کسی شخص نے جناب امیر المومنین کے سامنے و طلحٍ منضود پڑھا تو حضرت نے فرمایا کہ طلحٍ کا کیا موقع ہے اصل تو یہاں طلعٍ ہے جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے و نخل طلعها همضیم کسی نے عرض کی، پھر حضور اسے بدل کیوں نہیں دیتے فرمایا آج اس کا موقع نہیں کہ قرآنِ مجید کی اصلاح کر کے عوام الناس کو ہیجان میں لایا جائے۔ اںٔمہ علیہم السلام میں سے یہ حق مخصوص جناب صاحب الامر (امام مہدی) علیہ السلام کا ہے کہ قرآنِ مجید کو اسی مد پر پڑھوائیں گے جس مد پر وہ زمانہ جناب رسول خداﷺ‎ میں پڑھا جاتا تھا۔ 

(حاشیہ ترجمہ مقبول صفحہ 1067)۔

ان شواہد کی روشنی میں یہ تصور تک نہیں کیا جاسکتا کہ اثناء عشری شیعہ موجودہ قرآن پر ایمان رکھتے ہوں اور اسے اسی ترتیب سے کلامِ الٰہی سمجھتے ہوں ان کا جو کوئی فرد موجودہ قرآن پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے وہ تقیہ کی آڑ میں ایسا کہتا ہے اور ہمارے نزدیک وہ صریح جھوٹ بولتا ہے اگر اس کا دلی اعتقاد یہ ہوتا تو کیا وہ علامہ فرات بن ابراہیم الکوفی علامہ علی بن ابراہیم القمی علامہ محمد بن یعقوب الکلینی سے لے کر ملاباقر مجلسی اور ملا مقبول دہلوی تک تمام اثناء عشری شیعہ علماء کو تحریفِ قرآن کے جرم میں کافر نہ سمجھتا یہ وہ میزان ہے جس سے ان کے اندر کی بات باہر آجاتی ہے کہ وہ خود بھی تحریفِ قرآن کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ مگر تقیہ کے باعث اس کا انکار کرتے ہیں۔

والله اعلم و علمه اتم واحکم۔