السلام علیکم ورحمۃ اللہ کیا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کیا ہوا معاہدہ توڑ دیا تھا ؟ حسن حسین رضی اللہ عنہما سے بیت نہیں کی تھی اس کا وضاحتی جواب عنایت فرمائیں۔ جزاک اللہ
سوال پوچھنے والے کا نام: انس معاویہجواب
سوال میں دو باتوں کا بیان ہے:
1: کیا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کیا ہوا معاہدہ توڑ دیا تھا؟
جواباً عرض ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیے ہوئے کسی معاہدہ کو نہیں توڑا یہی وجہ ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور ان کے برادر صغیر ہمیشہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے وفادار رہے اور ان دونوں حضرات کی طرف سے کبھی بھی نقض عہد کا کوئی شکوہ نہیں ہوا۔
باقی یزید کی ولی عہدی کا جو معاملہ اٹھایا جاتا ہے تو اس سلسلے میں جان لینا چاہیے کہ اول تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو بذات خود ولی عہد مقرر نہیں کیا بلکہ یہ مطالبہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تھا اور انہی کی کاوشوں سے یزید کے ولی عہد کا معاملہ آگے بڑھا ہے۔
اس حوالے سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ یزید کو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی حیات طیبہ میں ولی عہد نامزد نہیں کیا گیا اب جب کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ دار فانی سے رحلت فرما گئے تو ان کی وفات کے بعد یہ معاملہ پیش آیا اب معاہدہ تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا اور وہ دنیا میں ہی نہ رہے ان کی دنیا سے رحلت کے بعد یزید کا معاملہ پیش آیا تو یزید کے اس معاملے کو لے کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر یہ بہتان لگانا کہ انہوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کیے ہوئے معاہدہ کی خلاف ورزی کی یہ کہا درست ہو سکتا ہے؟
2: حضرت حسن حسین رضی اللہ عنہما نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی تھی اس کی وضاحت؟
جواباً عرض ہے کہ اہلِ اسلام کی کتابوں میں بھی صراحتاً حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کرنا صراحتاً درج ہے چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہؒ باب امراء میں حضرت عروہ سے روایت منقول ہے جس میں انہوں نے کیس بن سعد بن عبادہ کا حال نقل کیا ہے کہ:
ترجمہ: جب سیدنا حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تو قیس بن سعد نے بیعت میں داخل ہونے سے انکار کر دیا پھر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہیں لے کر ہمیشہ لڑتا رہوں گا یہاں تک کہ ہم میں سے پہلے مرنے والا مر جائے اور اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے امان طلب کر لوں وہ کہنے لگے کہ آپ ہمارے لیے امان طلب کر لیں چنانچہ انہوں نے ان کے ساتھ کچھ شرائط اور معاوضے کے ساتھ صلح کر لی اور شرط ٹھہرائی کہ ان کو کسی قسم کی سزا نہ دی جائے اور یہ کہا کہ میں ان کا ایک فرد ہوں گا اور اپنے لیے کوئی شرط نہیں لگائی الخ
اسی طرح اپنی زبان سے خود کو مؤمنین کہنے والے دشمنانِ صحابہؓ نے بھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کرنا بیان کیا ہے چنانچہ ملا باقر مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار میں روایت درج کی ہے کہ:
ومن كلامه ما كتبه في كتاب الصلح الذي استقر بينه وبين معاوية حيث رأى حقن الدماء وإطفاء الفتنة وهو: بسم الله الرحمن الرحيم هذا ما صالح عليه الحسن بن علي بن أبي طالب معاوية بن أبي سفيان صالحه على أن يسلم إليه ولاية أمر المسلمين على أن يعمل فيهم بكتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وآله وسيرة الخلفاء الصالحين وليس لمعاوية بن أبي سفيان أن يعهد إلى أحد من بعده عهدا بل يكون الأمر من بعده شورى بين المسلمين وعلى أن الناس آمنون حيث كانوا من أرض الله في شامهم وعراقهم وحجازهم ويمنهم وعلى أن أصحاب علي وشيعته آمنون على أنفسهم وأموالهم ونسائهم وأولادهم وعلى معاوية بن أبي سفيان بذلك عهد الله وميثاقه وما أخذ الله على أحد من خلقه بالوفاء وبما أعطى الله من نفسه وعلى أن لا يبغي للحسن بن علي ولا لأخيه الحسين ولا لأحد من أهل بيت رسول الله صلى الله عليه وآله غائلة سرا ولا جهرا ولا يخيف أحدا منهم في أفق من الآفاق شهد عليه بذلك - وكفى بالله شهيدا فلان وفلان والسلام . ولما تم الصلح وانبرم الأمر التمس معاوية من الحسن ع أن يتكلم بمجمع من الناس ويعلمهم أنه قد بايع معاوية وسلم الأمر إليه فأجابه إلى ذلك فخطب وقد حشد الناس خطبة حمد الله تعالى وصلى على نبيه صلى الله عليه وآله فيها وهي من كلامه المنقول عنه ع
وقال أيها الناس ان أكيس الكيس التقى وأحمق الحمق الفجور وأنكم لو طلبتم ما بين جابلق وجابرس رجلا جده رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ما وجدتموه غيري وغير أخي الحسين وقد علمتم إن الله هداكم بجدي محمد فأنقذكم به من الضلالة ورفعكم به من الجهالة وأعزكم به بعد الذلة وكثركم به بعد القلة أن معاوية نازعني حقا هو لي دونه فنظرت لصلاح الأمة وقطع الفتنة وقد كنتم بايعتموني على أن تسالمون من سالمت وتحاربون من حاربت فرأيت أن أسالم معاوية واضع الحرب بيني وبينه وقد بايعته ورأيت حقن الدماء خير من سفكها ولم أرد بذلك إلا صلاحكم وبقاءكم وان أدرى لعله فتنة لكم ومتاع إلى حين وعنه عليه السلام انه قال لا أدب لمن لا عقل له ولا مروة لمن لا همة له ولا حياء لمن لا دين له ورأس العقل معاشرة الناس بالجميل وبالعقل تدرك الداران جميعا ومن حرم من العقل حرمهما جميعا
(بحار الانوار: جلد 44 صفحہ، 65 باب 19)
اس روایت میں: أنه قد بايع معاوية وسلم الأمر
اور وقد بايعتہ جیسے الفاظ صراحتاً درج ہیں جن سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پرخلافت کی بیعت کرنا سورج نصف النہار کی طرح واضح ہو رہا ہے۔
خلاصہ اس کلام کا یہ ہے:
کہ جب سیدنا حسن اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہما میں صلح ہوگئی تو ایک مجلس منعقد کی گئی جس میں پہلے سیدنا معاویہؓ اور پھر سیدنا حسنؓ نے خطاب فرمایا:
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو دعوتِ خطاب دیتے ہوئے کہا:
تشریف لائیں اور لوگوں کو بتائیں کہ ہم نے امیر المؤمنین معاویہ سے صلح اور بیعت کرلی ہے، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ آئے اور حمد و ثناء کے بعد مختصراً جنگ و صلح کا پس منظر بتایا اور واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ:
ہم نے ان حالات و واقعات کا بغور جائزہ لے کر یہ فیصلہ کیا ہے اور میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں نے جنگ بندی کا فیصلہ کرتے ہوئے سیدنا امیر معاویہؓ سے صلح اور بیعت کرلی ہے اس صلح و بیعت سے اہلِ اسلام کے درمیان خون ریزی کا خاتمہ ہوگا اور اہل اسلام کیلیے اس فیصلہ میں سراسر خیر و صلاح مضمر ہے۔