کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے اصحاب سے منسوب چند لوگ (نعوذ باللہ من ذالک) منافق ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے، اس کے بارے میں کچھ بتا دیں۔
سوال پوچھنے والے کا نام: محمد خبیب جامیجواب
تحقیق بارہ منافقین
بہت سے لوگوں کا یہ سوال آیا کہ انجینیئر محمد علی مرزا کی ایک ویڈیو بہت وائرل ہو رہی ہے کہ جس میں وہ صحیح مسلم کی ایک روایت بیان کر رہا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ میرے صحابہؓ میں بارہ منافق ہیں کہ جن میں سے آٹھ جنت میں اس وقت تک داخل نہ ہوں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے سے نہ داخل ہو جائے اور وہ آٹھ پھوڑے کی بیماری سے مریں گے، اور اس روایت کے بیان کرنے کے بعد اشارتاً کنایتاً صحابہؓ پر طعن کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اب ان بارہ منافق صحابہؓ کے نام اپنے علمائے اہل سنت سے پوچھ لو لیکن وہ تمہیں بتلائیں گے نہیں۔
اس میں شک نہیں کہ صحیح مسلم کی جو روایت اس نے بیان کی ہے، وہ صحیح مسلم میں ایسے ہی موجود ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
فِي أَصْحَابِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا
ترجمہ: میرے صحابہ میں بارہ منافق ہیں۔
لیکن اس کے فوراً بعد صحیح مسلم ہی کی ایک اور روایت کے الفاظ ہیں:
فِي أُمَّتِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا
ترجمہ: میری امت میں بارہ منافق ہیں۔
صحیح مسلم کی پہلی روایت کہ جس میں فِي أَصْحَابِي کے الفاظ ہیں، کو اسود بن عامر نے شعبہ سے بیان کیا ہے اور صحیح مسلم کی دوسری روایت کہ جس میں فِي أُمَّتِي کے الفاظ ہیں، کو غندر محمد بن جعفر نے شعبہ سے نقل کیا ہے، شعبہ کے بعد سند ایک ہی ہے۔
تو اب سوال یہ ہے کہ جب دو راویوں نے شعبہ سے روایت میں اختلاف کیا ہے تو ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کس راوی نے شعبہ کے بیان کو زیادہ محفوظ رکھا ہے۔ تو یہ واضح رہے کہ اسود بن عامر، شعبہ کے عام شاگردوں میں سے ایک ہیں جبکہ غندر محمد بن جعفر، شعبہ کے خاص ترین شاگرد ہیں، امام احمد بن حنبلؒ کہتے ہیں کہ غندر نے بیس سال شعبہ سے علم حاصل کیا۔ امام عبد اللہ بن مبارکؒ کہتے ہیں کہ اگر شعبہ سے روایت میں اختلاف ہو جائے تو غندر کی روایت کو فیصلہ کن سمجھو۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ غندر، امام شعبہ کے ربیب ہیں یعنی ان کی بیوی کے بیٹے ہیں۔ دوسرا غندر کو یہ بھی ترجیح حاصل ہے کہ وہ احادیث لکھ لیتے ہیں بلکہ امام ذہبیؒ کے بقول لکھنے میں أصح الناس كتابا تھے یعنی لوگوں میں سب سے زیادہ صحیح لکھنے والے۔ اور شعبہ سے انہوں نے بہت احادیث لکھی ہیں۔تو اصلاً صحیح مسلم کی روایت میں الفاظ فِي أُمَّتِي کے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں بارہ منافق ہیں۔
لیکن ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ صحیح مسلم ہی کی اگلی روایت میں جب فِي أَصْحَابِي کی بجائے فِي أُمَّتِي کے الفاظ بھی ہیں تو اس اگلی روایت کو بیان بھی کرتے ہوئے انجینیئر محمد علی مرزا صاحب کے پیٹ میں درد اٹھتا ہے کیا؟ پھر وہ کہتا ہے کہ علماء خیانت کرتے ہیں! یہ علمی خیانت نہیں تو اور کیا ہے! یہ حدیثوں کو چھپانا نہیں تو اور کیا ہے! یا تو آپ دونوں احادیث بیان کریں ناں۔
بلکہ اگلی تیسری بھی کہ جس سے آپ کا سارا مقدمہ دھڑام سے گر جاتا ہے، مزے کی بات یہ ہے کہ ان دو روایات کے بعد صحیح مسلم کی اگلی روایت یہ ہے کہ وہ بارہ منافق، اصحاب عقبہ تھے۔
اصحاب عقبہ وہ ہیں جنہوں نے غزوہ تبوک سے واپسی پر رسولﷺ پر ایک گھاٹی میں حملہ کرنے کی کوشش کی تو رسولﷺ نے ان کے نام حضرت حذیفہ رضی الله عنہ کو بتلا دیے تھے، ان اصحاب عقبہ کا ذکر سورہ التوبہ میں بھی ہے:
يَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوۡا وَلَقَدۡ قَالُوۡا كَلِمَةَ الۡـكُفۡرِ وَكَفَرُوۡا بَعۡدَ اِسۡلَامِهِمۡ وَهَمُّوۡا بِمَا لَمۡ يَنَالُوۡا ( سورۃ التوبہ: آیت 74)
ترجمہ: یہ لوگ اللہ کی قسمیں کھا جاتے ہیں کہ انہوں نے فلاں بات نہیں کہی، حالانکہ انہوں نے کفر کی بات کہی ہے، اور اپنے اسلام لانے کے بعد انہوں نے کفر اختیار کیا ہے۔ انہوں نے وہ کام کرنے کا ارادہ کرلیا تھا جس میں یہ کامیابی حاصل نہ کرسکے۔
باقی اگر صحیح مسلم کی اس روایت کے بھی الفاظ لے لیں کہ جس میں فِي أَصْحَابِي کے الفاظ ہیں تو یہاں صحابی کا لفظ لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اور قرآن اور حدیث میں اصحاب کا لفظ لغوی معنی میں کثرت سے استعمال ہوا ہے
اصحاب کا لفظ صاحب کی جمع ہے کہ جس کا لغوی معنی ساتھی ہے، تو آپﷺ کے ساتھ دینے والوں میں منافق تھے، اس میں کیا شک ہے تو صحابی کا ایک لغوی معنی ہے اور دوسرا اصطلاحی معنی ہے، لغوی معنی میں اس سے مراد صرف ساتھی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں اہل جہنم کو اصحاب النار کہا گیا ہے یعنی جہنم کے ساتھی اور بیت اللہ پر حملہ کرنے والوں کو اصحاب الفیل کہا گیا ہے، اسی طرح صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ایک منافق نے آپﷺ پر مال غنیمت کی تقسیم میں عدل نہ کرنے کے حوالے سے تنقید کی تو حضرت عمر رضی الله عنہ نے آپﷺ سے اجازت چاہی کہ میں اس منافق کو قتل کر دوں تو آپﷺ نے جواب میں کہا:
مَعَاذَ اللهِ، أَنْ يَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنِّي أَقْتُلُ أَصْحَابِي
اے عمر، الله کی پناہ، لوگ یہ باتیں کریں گے کہ میں اپنے اصحاب کو قتل کر دیتا ہوں۔
تو اس روایت میں بھی باء زیر بی کے ساتھ أَصْحَابِي کے الفاظ آئے ہیں کہ جن کے بارے آپﷺ آگے یہ فرما رہے ہیں کہ یہ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نہیں اترے گا اور دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے کمان سے تیر، تو ان منافقین کو بھی آپﷺ نے صحابی کہا ہے۔ تو یہاں روایت میں صحابی سے مراد صحابی اصطلاحاً نہیں ہے کیونکہ اصطلاح تو بعد میں بنی ہے، اور اصطلاح میں صحابی سے مراد وہ شخص ہے کہ جس نے حالت ایمان میں آپﷺ کو دیکھا اور حالت ایمان میں ہی اس کی وفات ہوئی ہو اور منافق کی وفات تو حالت ایمان میں نہیں ہوتی لہٰذا وہ اصطلاحاً صحابی نہیں ہے البتہ لغوی اعتبار سے صحابی ہے کہ بظاہر وہ آپ کے ساتھ تھا، کافروں کے ساتھ نہیں تو صحابی کا اصطلاحی معنی تو بعد میں وضع ہوا ہے۔
پھر مرزا علی کہتا ہے کہ اہل سنت کے علماء سے زرا ان کے نام تو پوچھنا تو پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کے نام اللہ کے رسولﷺ نے راز رکھے ہیں اور صرف حضرت حذیفہ رضی الله عنہ کو بیان کیے ہیں لیکن اگر آپ کو ان کے نام معلوم کرنے پر اصرار ہی ہے تو امام طبرانیؒ نے ان کے نام بھی نقل کر دیے ہیں۔
1: معتب بن قشير
2:وديعۃ بن ثابت
3: جد بن عبد الله بن نبيل
4: الحارث بن يزيد الطائي
5: أوس بن قيظي
6: الحارث بن سويد
7: سعد بن زرارة
8: قيس بن قهد
9: سويد بن داعس
10: قيس بن عمرو بن سهل
11: زيد بن اللصيت
12: سلامۃ بن الحمام۔
اس کے بعد اشارے کنایوں سے جلیل القدر اور معروف صحابہؓ پر لعن طعن کرنے کی کیا تُک بنتی ہے!
اور آپ کے علم میں ہونا چاہیے شیعہ لوگ سیدنا ابوبکر صدیقؓ، سیدنا عمر فاروقؓ، سیدنا عثمان غنیؓ کو منافق کہتے ہیں۔