السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں دینی علم کے حصول کی نیت سے مختلف اسلامی مکاتبِ فکر کے عقائد کا مطالعہ کر رہا ہوں تاکہ صحیح فہم حاصل ہو اور اختلافات کو سمجھا جا سکے۔ اسی سلسلے میں میری گزارش ہے کہ شیعہ مکتبِ فکر، خصوصاً اثنا عشریہ کے عقائد کے بارے میں کچھ باتیں وضاحت طلب ہیں۔ مثلاً: ان کے ہاں امامت کا مفہوم کیا ہے اور یہ نبوت کے بعد کس مقام پر آتی ہے؟ بارہ ائمہ کی فہرست کیا ہے اور ان کا دینی مقام کیا مانا جاتا ہے؟ خلافت و امامت کے تصور میں بنیادی فرق کیا ہے؟ تقیہ کی شرعی حیثیت کیا ہے اور قرآنِ مجید کی حفاظت سے متعلق ان کا کیا نظریہ ہے؟ نیز، اہلِ بیت اور صحابہ کرام، بالخصوص حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں ان کا مؤقف کیا ہے؟ عبادات جیسے نماز، اذان اور وضو کے طریقے میں اختلافات کی بنیاد کیا ہے؟ اور کیا "الکافی" یا "نہج البلاغہ" کو قرآن کے برابر کوئی مقام دیا جاتا ہے؟ میں ان سوالات کے جوابات خالص علمی، غیر جذباتی اور تحقیق کی بنیاد پر حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کی راہنمائی میرے لیے باعثِ رہنمائی و برکت ہو گی۔ جزاکم اللہ خیراً
سوال پوچھنے والے کا نام: Muhammad Umairجواب
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ان سوالوں کی تحقیق فریقین کی کتب کے مطالعہ یا کسی محقق سے بلمشافہ استفادہ سے ممکن ہے نہ کہ مختصر جواب سے، اس سلسلہ میں حضرت لکھنویؒ سے رسائل تحفہ اثناء عشریہ اور دشمنانِ صحابہؓ کی اصول کافی، حق الیقین، حیات القلوب ملاحظہ کریں۔ چند گزارشات پیش خدمت ہیں ان کے نزدیک
امام سے مراد وہ شخص ہے جو امت کا دین و دنیا کے تمام امور میں مقتداء و پیشواء ہو۔
(حق الیقین: مرتجم جلد1، صفحہ 44)
امام معصوم ہوتا ہے۔
اجماع علمائے امامیہ اس پر منعقد ہے کہ امام بھی مثل پیغمبر ابتدائے عمر سے آخر عمر تک تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے معصوم ہوتا ہے۔
امام کے لیے نص وارد ہوتی ہے
حیات القلوب مترجم کی تیسری فصل میں درج ہے۔
اس بیان میں کہ امامت خدا و رسول کی نص سے ہوتی ہے امت کے اختیار اور بیعت سے حاصل نہیں ہوتی۔
امام مفترض الطاعتہ ہوتا ہے۔
اسی حیات القلوب کی چھٹی فصل کا عنوان یہی ہے کہ اماموں کی اطاعت واجب ہے۔
ان کے دین میں جوجو وصف نبوت میں پایا جاتا ہے وہ امامت میں بھی موجود ہے یہی وجہ ہے کہ وہ برملا کہتے ہیں۔
مرتبہ نبوت مثل مرتبہ امامت کے ہے
(حق الیقین: مترجم جلد1،صفحہ 47)
صرف یہی نہیں بلکہ وہ تو امامت کو مرتبہ نبوت سے بھی بلند تر مانتے ہیں حیات القلوب مترجم میں ہے
بعض معتبر احادیث کہ جن کا ذکر آگے آئے گا سے ثابت ہوتا ہے کہ امامت کا درجہ نبوت کے درجہ سے بلند ہے۔
(حیات القلوب: صفحہ 16)
مزید حقیقی دستاویز، شیعیت پر مقفمہ الشہاب الثاقب فی رد السیف البارق وغیرہ ملاحظہ فرمائیں۔
دشمنانِ صحابہؓ کے دین میں امامت وہ منصبِ الٰہی ہے جس تک نہ کوئی نبی مرسل پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی مقرب فرشتہ۔
شیعہ حضرات کے عقیدہ کے مطابق امامت کیا ہے اور ائمہ کا مرتبہ و مقام کیا ہے؟
شیعوں کے خمینی کے نزدیک بارہ اماموں کا مقام کیا ہے ملاحظہ فرمائیں:
خمینی لکھتا ہے کہ
ائمہ کرام کو مقام محمود درجہ بلند اور خلافت تکوینی حاصل ہے ان کی حکومت اور اقتدار کائنات کے ہر ذرے ذرے پر قائم ہے اور ہمارے مذہب کے بنیادی عقائد میں یہ بات شامل ہے کہ ہمارے ائمہ کو ایسا مقام حاصل ہے جس تک کوئی مقرب فرشتہ پہنچ سکتا نہ کوئی نبی اور رسول
(الحکومت الاسلامیہ: صفحہ 52)