فرمانِ خدا ہے ایک مومن کو عمداً قتل کرنے والا دائمی جہنمی ہے اس پر اللہ کا غضب و لعنت ہے اور اس کیلئے بہت بڑا عذاب تیار ہے تو جس نے خلیفہ راشد سے بغاوت کر کے بے شمار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا قتل عام کرایا وہ کس قدر اللہ کے غضب و لعنت کا مستحق ہوگا وہ آپ کے علم و اعتقاد میں جنتی ہے جہنمی؟
سوال پوچھنے والے کا نام: علیجواب:
اولاً آپ نے جو فرمانِ خدا نقل کیا ہے اس کے بارے میں جمہور مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس شخص کے بارے میں ہے جو توبہ نہ کرے۔
(بیضاوی جلد 1 صفحہ 231)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَاِنِّىۡ لَـغَفَّارٌ لِّمَنۡ تَابَ۔
یعنی جو شخص توبہ کرے میں ضرور بخشنے والا ہوں۔
(سورۃ طہ: آیت82)
اور حدیث شریف میں ہے کہ سو آدمیوں کے قاتل نے جب سچے دل سے توبہ کی تو اللہ نے اسے بخش دیا
(بخاری مسلم جلد 2 صفحہ 359 المستند صفحہ 257)۔
نیز مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس شخص کے لیے ہے جس نے مسلمان کے قتل کو حلال سمجھا
(ابنِ جریر جلد 4 پاره 5 صفحہ 266 بیضاوی جلد 1 صفحہ 231)۔
ثانیاً اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے اچھی نیت سے اپنی لاش جلانے کی وصیت کرنے والا بخشا گیا
(بخاری جلد 2 صفحہ 959)
اور بری نیت سے جہاد کرنے اور علم پڑھانے والا جہنم میں گیا
(مسلم جلد 2 صفحہ 140)
سیدنا علیؓ اور سیدنا امیرِ معاویہؓ دونوں کی نیت درست تھی سیدنا ابو درداءؓ اور سیدنا ابو امامہؓ نے سیدنا علیؓ اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کے درمیان صلح کرانے کیلئے زبردست کوشش فرمائی وہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کے پاس گئے تو انہوں نے فرمایا کہ میری جنگ صرف سیدنا عثمانؓ کے خون کی وجہ سے ہے سیدنا علیؓ نے قاتلوں کو پناہ دے رکھی ہے انکے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ ہمیں سیدنا عثمانؓ کے قاتلوں سے خون کا بدلہ دلوائیں اہلِ شام میں سے سب سے پہلے میں ان کے ہاتھ پر بیعت کروں گا۔
(البدایہ و النہایہ جلد 7 صفحہ 249)
سیدنا علیؓ خود فرماتے ہیں کہ ہمارے اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کے درمیان اور کوئی اختلاف نہیں تھا صرف خونِ سیدنا عثمانؓ کے بارے میں غلط فہمی ہو گئی تھی۔
(حاصل نہجُ البلاغہ صفحہ 424)
یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے اتنی قتل و غارت کے بعد بھی انہیں مسلمان قرار دیا ہے حدیث فِئَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ
(بخاری جلد 1 صفحہ 530)
جسے حضورﷺ مسلمان قرار دیں ہمارے علم اور اعتقاد میں وہ جنتی ہے اور جو شخص اسے مغضوب ملعون اور جہنمی کہے وہ خود مغضوب ملعون اور جہنمی ہے اور حبیبِ کبریاﷺ سے ٹکر لے رہا ہے۔
ثالثاً حدیثِ پاک میں ہے کہ سیدنا احنف بن قیسؓ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا علیؓ کی مدد کے لیے گھر سے نکلا راستے میں میری ملاقات سیدنا ابوبکرؓ سے ہوئی انہوں نے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ میں نے کہا رسول اللہﷺ کے چچازاد بھائی کی مدد کرنا چاہتا ہوں انہوں نے فرمایا اے سیدنا احنفؓ! واپس چلا جا میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: إِذَا تَوَاجَهَ الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفِهِمَا فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ یعنی جب دو مسلمان تلواریں لے کر آمنے سامنے آجائیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔
(مسلم جلد 2 صفحہ389 بخاری جلد 1 صفحہ 9)
اس حدیث کو اگر آپ کی عینک سے پڑھا جائے تو دونوں طرف کے لشکر معاذ اللہ جہنم میں جا رہے ہیں خواہ حق پر کوئی بھی ہو اور اگر یہاں تاویل ضروری ہے تو یہی تاویل حدیثِ عمار میں بھی ضروری ہے۔